اگر کبھی آپ بنیادی انسانی رویوں اوران روّیوں کی وجوہات پر غور کریں تو بہت دلچسپ انکشافات ہوتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا کا ہر جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے جب زندگی کو پیدا کیا تو ہر جاندار میں تکلیف محسوس کرنے کا ایک نظام رکھا۔ اگر آپ اپنے جسم کا جائزہ لیں تو ہڈیوں کے اوپر گوشت ہے اور گوشت کے اوپر جلد۔ اس جلد کے نیچے جسم کے ایک ایک پور تک ایسی تاریں (Nerves) ڈالی گئی ہیں ، جو کہ تکلیف کا احساس فوراً ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے دماغ تک بھیج دیتی ہیں ۔ یوں تکلیف کے اس احساس کی وجہ سے جاندار اپنے جسم کی حفاظت کرتے ہیں ۔ان میں درد کا احساس اس طرح سفر کرتاہے ، جیسے بجلی تار میں دوڑتی ہے ۔اگر انہیں منقطع کر دیا جائے یا اس کرنٹ کی منتقلی روک دی جائے تو چاہے آپ کی ٹانگ آری سے کاٹ دی جائے ، آپ کو احساس تک نہیں ہوگا۔اپنی زندگی کی حفاظت ہم اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ہر جاندار میں اپنی ذات کی شدید محبت رکھی گئی ہے ۔ اپنی ذات کو پہنچنے والا نقصان کسی طرح اسے برداشت نہیں ۔ اپنی حفاظت کا یہ جذبہ آپ کے خیال و خواب سے بھی زیادہ طاقتور ہے لیکن اگر سب اپنی اپنی جان بچا کر گوشہ ء عافیت میں پڑے رہتے تو انسان نت نئی زمینوں تک کیسے پہنچتا ۔ ہر نئی چیز کی تہہ تک کیونکر اترتا۔ اس کے لیے ایک اور طاقتور جذ بہ درکار تھا ۔ یہ جذ بہ تجسس کا تھا۔ تجسس کیا ہے ؟ کسی بھی نا معلوم ، انجان چیز میں کشش ۔ آج اگر سیارہ ء ارض پہ انسان اس قدر غالب ہے تو اس کی بنیاد تجسس ہی توہے ۔ انسانی ذہن اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ ہر نئی چیز کا بغور جائزہ لے کر، اس کے اندر چھپے ہوئے فائدے اور نقصان کا اندازہ لگاتا اور اپنے ہم نفسوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے ۔ انسانی دماغ کو ہر نامعلوم چیز میں گہری دلچسپی ہے ۔
یہی تجسس ہی تھا، جس نے انسان کو اجنبی سرزمینوں کے سفر پہ اکسایا۔ فاسلز (جانداروں کی باقیات) کے ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے پہلے انسان افریقہ میں آباد ہوا۔ وہاں سے بالآخر اس نے ایک بہت بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے ایشیا اور یورپ کا سفر کیا۔ معمولی اوزاروں اور ہاتھ سے بنائی گئی کشتیوں میں انسان نے جب یہ انتہائی پر خطر سفر شروع کیاتو تجسس ہی اسے مہمیز کرنے والا بنیادی جذبہ تھا ۔ آج بھی دنیا کے قدیم ترین انسانی فاسلز افریقہ سے ہی ملتے ہیں۔ جون 2017ء میں یہ انکشاف سائنسی جریدے نیچر میں چھپا کہ مراکش میں دریافت ہونے والے انسانی فاسلز کی عمر 3لاکھ سال ہے ۔ ان کے پاس پتھر سے بنے ہوئے اوزار موجود تھے اورانہوں نے وہاں آگ بھی جلائی تھی ۔ اس سے پہلے جو قدیم ترین فاسلز دریافت ہوئے تھے، وہ ایتھوپیا سے ملے تھے۔ ان کی عمر قریب دو لاکھ سال تھی ۔ انسان اپنی اس عمرکا اندازہ بھی تجسس کی مدد سے ہی لگا پایا۔
خیر انسان افریقہ سے نکلاتو ایشیا اور یورپ ہی نہیں ، آسٹریلیا اور امریکہ تک پھیلتا چلا گیا ۔ کرّہ ء ارض کے ہر اس جزیرے پر اس نے قیام کیا ، جہاں زندگی گزارنا ممکن تھا۔ انسان ترقی کرتا جارہا تھا۔ وہ غیر معمولی ذہانت کا حامل تھا۔ اس ذہانت پہ تجسس کا کوڑا پیہم برس رہا تھا۔ انسان نے اندازہ لگایا کہ کسی بھی چیز کو نظر بھر کر دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے کچھ دور سے دیکھا جائے۔ اگر ہم زمین کو ایک نظر بھر کر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اڑ کر کچھ فاصلے پر جا کر اسے دیکھنا ہوگا۔ لوہے سے راکٹ اور انجن بنائے گئے۔ اس میں تیل جلا کر توانائی پیدا کی گئی ۔ انسان خلا میں چلا گیا ۔ وہاں اس نے ایسی مشینوں (سیٹیلائٹس) پر کیمرے نصب کر کے انہیں زمین کے مدار میں چھوڑ دیا ۔ یوں کرّہ ء ارض کے چپے چپے کی معلومات اس تک پہنچ گئیں ۔
ان جدید ترین کیمروں ، دوربینوں اور شعاعوں کی مدد سے انسان پڑوسی سیاروں کو دیکھتااور چاند کو، جو خوبصورتی کی علامت تھا۔کتنے ہی خلاباز حادثات کا شکار ہوئے۔اسی تجسس کی مد د سے انسان نے کرّہ ء ارض پہ موجود مفید عناصر سے اڑنے والی چیزیں بنا لی تھیں۔ آخر کار انسان چاند پہ بھی اتر گیا۔ چاند تو بہت قریب تھا، دور دراز کے سیاروں ، زحل اور اس کے چاند ٹائٹن تک انسان نے راکٹ روانہ کیے ۔ اور تو اور ، ایک سیٹیلائٹ (وائیجر ون ) اپنے اس نظامِ شمسی کی حدود سے بھی باہر بھیج دیا ۔ یہ الگ بات کہ دوسرے قریب ترین سورج تک پہنچنے کے لیے اسے 75ہزار سال درکار تھے ۔ بہرحال انسان نے تو کائنات کھوجنے کا اپنا فرض ادا کیا ۔ اگر یہ تجسس نہ ہوتا تو انسان ایک ہی جگہ پہ بیٹھ کر پوری زندگی گزار دیتا ۔
تجسس انسانوں کے علاوہ دوسرے جانوروں میں بھی ہوتاہے لیکن اس کی Dimensionsبالکل سادہ سی ہوتی ہیں ۔ جانور ہر چیز کا جائزہ اس نظر سے لیتا ہے کہ اسے کھایا جا سکتاہے یا نہیں ۔ اس سے آگے اس کا دماغ کام نہیںکرتا۔ وہ لوہے کو دیکھے تو اسے سنبھال کر نہیں رکھ سکتا کہ کل یہ لڑائی میں کام آئے گا۔ انسانی دماغ کائنات کی خوبصورت ترین تخلیق ہے بلکہ ہر دماغ اپنی ذات میں ایک پوری کائنات ہے ۔جب ایک آدمی کائنات کا جائزہ لیتا ہے تو درحقیقت ایک چھوٹی کائنات بڑی کائنات کا جائزہ لے رہی ہوتی ہے ۔
آج بھی جب ایک انسانی بچّہ پیدا ہوتا ہے ، وہ بے تابی سے اپنی پانچ حسوں کی مدد سے، اپنی جلد، اپنی زبان، اپنے ناک، اپنی آنکھ اور اپنے کان کی مدد سے اس دنیا کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے ۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ تجسس کی وجہ سے ۔ جب یہ تجسس ختم ہو جاتا ہے تو روشنیوں والا ایک کھلونا اس کے لیے بے کار ہو جاتا ہے ۔ اسے وہ پھینک دیتا ہے ۔ یہ تجسس اس قدر بڑی قوت ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرے سیاروں پر پانی، ہوا، آکسیجن ،پودے اور مقناطیسی میدان موجود نہیں ، انسان اجنبی سیاروں پر جانے کے لیے بے تاب ہے ۔اس نیلے سیارے سے محرومی پر وہ تیار ہے ، جہاں پانی بارش کی صورت آسمان سے برستا ہے ۔ جس کے ایک ایک گوشے پر آکسیجن مہیا ہے ۔ اس آکسیجن کی قیمت پوچھنی ہوتو کسی خلا باز سے پوچھیے۔ انہیں تو یہ سلنڈروں میں بھر کر لے جانا پڑتی ہے ۔
یہاں ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک ذات اس قدر خوبصورت تخلیقات کرتی ہے ۔ پھر ایک مخلوق کو خاص سوچنے والا دماغ دیتی ہے ۔ اس کے اندر تجسس پیدا کرتی ہے ۔ صرف دماغ ہی نہیں دیتی بلکہ کائنات کا جائزہ لینے کے لیے وسائل بھی اس زمین میں رکھ دیتی ہے ۔ایسے شیشے رکھتی ہے ، جن سے دوربینیں بن سکیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے ؟ اس بات کا جواب دینے سے پہلے میں ایک عجیب بات آپ کو بتائوں ۔ ایک خوبصورت ترین تحفہ میں نے اپنی بیٹی کو دیا۔ وہ اتنی نادان کہ اس کے باہر لگائے گئے چمکیلے کاغذ سے کھیلنے لگی ۔ اسی سے کھیلتی رہی۔ دل ہی دل میں ، میں یہ سوچتا رہا کہ اگر یہ ڈبہ کھول لے تو اپنا اصل تحفہ دیکھے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم انسان بھی یہی کر رہے ہیں ۔ یہ کائنات ایک چمکیلا کاغذ ہے ۔ اسے دیکھ دیکھ کر ہم خوش ہو رہے ہیں ۔ ڈبہ نہیں کھولتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ڈبّے کے اندر کیا ہے ؟