"FBC" (space) message & send to 7575

بچوں پر ہونے والے مظالم

آپ نے ٹی وی پہ ان بچوں کے بارے میں سنا، جنہیں تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس پر ہم خوب روئے ۔ آج اس تشدد کے بارے میں بھی پڑھیں، جو ہر گھر میں‘ ہر بچّے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں دنیا حیرت انگیز رفتار سے تبدیل ہوئی ہے۔ آج اگر ہم لوگ اپنے بچپن کے بارے میں سوچیں تو اس سے وہ انتہائی مختلف تھا، جس طرح کا بچپن ہمارے بچے گزار رہے ہیں۔ ویڈیو گیمز کی مخصوص دکانیں ہوا کرتیں، جن میں مشین کے اندر ایک روپے کا ٹوکن ڈالا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ بچوں کی اکثریت وہاں گھر سے چھپ کر آئی ہوتی۔ ایک myth یہ تھی کہ زیادہ گیمز کھیلنے والوں کی آنکھیں نیلی ہو جاتی ہیں۔ واپسی پر اکثر بچے ایک دوسرے سے اپنی آنکھیں چیک کروا رہے ہوتے۔ آج ہر بچے کی جیب میں ایک موبائل فون ہے، جو گیمز سے بھرا ہوا ہے۔ وہ آزادی سے اپنے ماں باپ کے موبائل پر گیمز کھیلتے ہیں۔ تقریباً دس برس کی عمر میں، انہیں اپنا ذاتی موبائل لے دیا جاتا ہے۔ ویسے ماہرین کی رائے میں، گیمز بچوں کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ فائدے مند ہیں۔ ان کے دماغ کو اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ خوشی خوشی اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہوئے‘ ہر دفعہ بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ ان ویڈیو گیمز میں ایک قسم کا نشہ ہوتا ہے۔ ایسی addiction، جس میں بچے کا سارا ٹائم ٹیبل متاثر ہوجاتا ہے۔ وہ موبائل سے سر نہیں اٹھا سکتا۔ آپ اسے کچھ نہ کہیں تو گھنٹوں کھیلتا رہے گا۔ اس دوران وہ اپنا کھانا بھی بھول جائے گا۔
بچّوں کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس پیتے ہیں۔ اس کے ایک گلاس میں بیس چمچ تک چینی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھری ہوتی ہے۔ یہ جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ جو شخص ان کا عادی ہو جائے، اسے ان کے بغیر کھانا کھانے کا لطف نہیں آتا۔ یہ کوئی قدرتی طور پر اگنے والی چیز نہیں بلکہ ایک طویل پراسیس سے گزار کر اس میں یہ ذائقہ بھرا جاتا ہے۔ یہ بچوں کے بڑھنے کی عمر میں تو نقصان دہ ہے ہی لیکن 27، 28 سال کی عمر کے بعد تو یہ انہیں تیزی سے موٹاپے کی طرف لے جائے گی۔ ماسٹرز کرنے کے بعد کچھ عرصہ میں نے ایک جگہ نوکری کی تھی۔ وہاں میرے ساتھ ایاز نامی ایک لڑکا کام کرتا تھا۔ اس کا وزن کافی بڑھا ہوا تھا۔ عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی۔ دو ماہ پہلے یہ افسوسناک خبر ملی کہ اس پہ فالج کا حملہ ہوا ہے۔ جسم ایک طرف سے صحیح طور پر حرکت نہیں کر رہا۔ دو تین ماہ بعد اس کی شادی تھی۔ یہ ماڈرن لائف سٹائل کا تحفہ ہے۔ فالج کے اس حملے کا سبب خون کی شریانوں کے اندر چربی کا جم جانا اور ان نالیوں میں زیادہ پریشر پیدا ہو جانا ہے۔ ہم سب یہ سوچ کر دکانوں سے یہ کاربونیٹڈ کولڈ ڈرنکس خرید کر پیتے ہیں کہ یہ ہر دکان پر دستیاب ہیں۔ اگر یہ اتنی مضرِ صحت ہوتیں تو یوں کھلے عام ان کی فروخت اور ٹی وی پر ان کے اشتہارات نہ چل رہے ہوتے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ جو لوگ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں‘ وہ Teen age کے بعد کبھی انہیں ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔
دوسرا بہت بڑا ظلم یہ ہے کہ حقیقی ذائقہ رکھنے والی دنیا کی مزیدار ترین چیزوں سے ہم انہیں متعارف نہیں کراتے۔ حقیقی ذائقہ دار چیزیں کیا ہیں؟ یہ پھل ہیں اور وہ چیزیں، جو قدرتی طور پر اگتی ہیں۔ جنہیں کسی process سے نہیں گزارا جاتا۔ پاکستان میں تو پھل قدرتی طور پر اور بھی زیادہ لذیذ ہیں۔ میں اگر دل پہ ہاتھ رکھ کر کہوں تو زندگی میں انور رٹول آم سے زیادہ ذائقے دار چیز کبھی نہیں کھائی۔ لیچی، چیری، سٹرابری، چتری والے پکے ہوئے کیلے، سندر خانی انگور، پکے ہوئے میٹھے انار، امرود اور ناریل۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ بندہ ان کو کھاتا جائے اور اپنی انگلیاں چاٹتا جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ انسان نے بھی جو ذائقے (flavors) متعارف کرائے ہیں، ان میں یہی چیزیں شامل ہیں۔ بوتلوں اور آئس کریموں میں mango فلیور سب سے عام ہے۔ سٹرابری، لیچی اور دوسرے پھلوں پر مشتمل ذائقے ہی مارکیٹ میں بک رہے ہیں لیکن مضرِ صحت چینی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بھرپور اشترا ک کے ساتھ۔ قدرتی طور پر اگنے والی چیزیں، جیساکہ چھلی کے دانے جنہیں نمک میں پکایا گیا ہو‘ یہ آپ کا پیٹ بھرتی ہیں۔ بھرپور ذائقہ رکھتی ہیں اورجسم کو غذائیت بخشتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ چیزیں دنیا کے بہترین ذائقے رکھتی ہیں۔ اکثر لوگوں کی جیب میں انہیں خریدنے کے لیے رقم بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم انہیں نہیں کھاتے تو بدقسمتی کے علاوہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا ہمارے رزق اور نصیب میں ان چیزوں کو لکھا ہی نہیں گیا؟ میں نے خود ایک سال قبل ہی انہیں کھانا شروع کیا، جب مجھے وزن کم کرنا تھا۔
بچوں کے ساتھ ایک ظلمِ عظیم یہ ہے کہ ہم دماغی مشقوں والی ویڈیو گیمز تو انہیں دیتے ہیں لیکن جسمانی طور پر انہیں کھلانے کے لیے نہیں لے کر جاتے۔ فٹ بال اور دوسرے کھیل، جن میں بچوں کو دوڑ لگانی پڑے، ان کے دل کی دھڑکن تیز ہو ، یہ جسم کے لیے انتہائی حد تک مفید ہیں۔ ان کی جسمانی بڑھوتری (Growth) میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس بڑھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کھیل ایک ایسے Antidepressants کا کام کرتے ہیں، جو بچوں کو زندگی میں اداسی سے دور لے جاتا ہے۔ آٹھویں سے دسویں جماعت تک میں ہاسٹل میں رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں گھر سے ہاسٹل گیا تو سخت اداس تھا۔ اس روز عصر کی نماز کے بعد ہم فٹ بال کھیلنے گئے۔ وہاں میں خوب دوڑ تا رہا۔ واپسی پر میری ساری اداسی ختم ہو چکی تھی۔ دوڑ لگانا، دل کی دھڑکن تیز ہونا، قرآن کے کچھ سپارے اپنے حافظے میں محفوظ کرنا، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو انسان کو Depression سے بہت دور لے جاتی ہیں۔ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت اور قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب یہ کس قدر زیادتی والی بات ہے کہ انسان اپنے بچوں کو کولڈ ڈرنکس اور ویڈیو گیمز کی لت لگائے اور انہیں کھیلنے کودنے کے لیے نہ لے کر جائے۔ انہیں کوئی ایسے Tasks نہ دے، جن کے دوران انہیں عقل استعمال کرنے کی عادت پڑے۔ آج ہر گھر میں زیادہ تر بچوں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔
سب سے بڑا ظلم یہ کہ ہم بچے کا رجحان دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ خود اپنی زندگی میں جو کام نہیں کر سکے، وہ ان سے کروانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں Motivate کرتے رہتے ہیں۔ بچّہ بیچارا ماں باپ کا دل رکھنے کے لیے کوشش کرتا رہتا ہے۔ اپنے قدرتی رجحان کے خلاف کوشش کرتے رہنے سے اس میں Depression پیدا ہوتا ہے اور یوں اپنی فیلڈ میں وہ مہارت کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔ میں ان چھ بچوں کے رجحانات کے بارے میں لکھوں گا، جن سے مجھے واسطہ پڑا۔ انہیں ان کی فطرت کے خلاف فیلڈ میں گھسیڑنا بہت ناانصافی کی بات ہو گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں