سیاست پر لکھنے کی ناکام کوشش کئی بار کر چکا۔ ہر دفعہ دفتر سے سجاد کریم صاحب کا پیغام موصول ہوتا ہے ''چاند ستاروں والا کالم بھیج دیں ‘‘۔ ایک دوست اسے ''خلائی مخلوق والا کالم ‘‘ کہتا ہے ۔ ایک ستمگر کا کہنا ہے کہ جو چیزیں تم لکھ رہے ہو، اس کی ریڈرشپ بنانے کے لیے دو تین دہائیاں درکار ہیں ۔الحمد للہ وقت میرے پاس بہت ہے۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے ، صرف 32برس۔ چاند ستاروں والاکالم جن قارئین کو پسند نہیں تھا، ان کے لیے افسانے لکھنے شروع کیے ۔
انسان کی زندگی میں سب سے اہم کام فیصلہ سازی ہے ۔ فیصلہ سازی انسان کی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے ۔ میٹرک میں زندگی کا پہلا بڑا فیصلہ آپ کو کرنا ہوتا ہے کہ سائنسز پڑھنی ہیں یا آرٹس۔ اس کے بعد انٹر اور بیچلرز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ جب آپ پڑھائی مکمل کر چکتے ہیں تو پھر آپ کو ملازمت اور کاروبار میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتاہے ۔کاروبار کرنا ہے تو سرمائے کا بندوبست ۔ان دونوں میں سے آپ جس کا انتخاب بھی کریں ، کچھ بننے کے لیے ، اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے برسوں اور بعض اوقات عشروں پر محیط ایک کڑی مشقت آپ کی منتظر ہوتی ہے ۔آپ نے کئی لوگ دیکھے ہوں گے ، جو افسوس کرتے پائے جاتے ہیں ۔ یہ زمین ہم نے چالیس لاکھ کی بیچ دی تھی ، آج دس کروڑ کی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مستقبل اگر انسان کو نظر آرہا ہو تو کیا کوئی گھاٹے کا سودا کرے ؟ آپ کا تجزیہ یہی تھا کہ اس زمین کو بیچ دینے میں فائدہ ہے۔آج بھی ایسی بے شمار جائیدادیں موجود ہیں ، جو کوڑیوں کے مول مل رہی ہوں گی ۔ اگر انسان کو مستقبل نظر آرہا ہوتو سٹاک ایکسچینج میںانسان دنوں میں لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں روپے کماتا رہے ۔
یہی اصل مسئلہ ہے ۔ مستقبل نظر نہیں آتا۔ کنفیوژن ہوتی ہے ۔ بے شمار لوگ ساری زندگی کوئی کاروبار یا ملازمت کرنے کے بعد بھی کسی دوسرے شعبے میں جانے کا سوچتے رہتے ہیں ۔دماغ میں ناکامی کا خوف ہوتاہے ، جو فیصلہ کرنے نہیں دیتا۔ خاندان والوں ، دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے بے وقوفی کے سرٹیفکیٹس جاری ہو جاتے ہیں ۔
خدا نے یہ دنیا اس طرح سے بنائی ہے کہ اس میںبہت کم لوگ ، شاید ایک فیصد سے بھی کم فیصلہ ساز ہوتے ہیں ، جن کا ذہن کلئیر ہوتاہے۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں اور دوسروں سے اس پر عملدرآمد کراتے ہیں ۔ایک سابق آرمی چیف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ فوج افسروں کے ذریعے چلائی (Govern)کی جاتی ہے ۔ افغانستان کی فوج کو تجربہ ہے نہیں ، افسروں کی بہتات ہے ۔ جب تجربہ ہی نہیں ہے تو جنرل رینک کے اتنے افسر کہاں سے آگئے ۔پھر درکار فیصلہ سازی کیسے ہو ؟پھر جنگ کیسے لڑی جائے ؟
ایک شخص نقشہ بناتا ہے ۔ پھر 100بندے اس گھر کو تعمیر کرتے ہیں ۔ یہی ایک شخص ہزاروں لوگوں سے ڈیم تعمیر کراتا ہے ۔ اگر ہر شخص فیصلہ ساز ہو جاتا تو پھر مزدوری کون کرتا ۔ہر سپاہی اگر جنرل بن جاتا تو پھر اگلے مورچوں پر کون لڑتا ؟ یہی جنرل اپنی سپاہ کو لڑاتا ہے ۔ ہر سپاہی کو اس کے مورچے تک لے کر جاتا ہے ۔
جب انسان اپنی کوششوں میں ناکام ہوتا ہے تو پھر معاشرے کی طرف سے اسے بے وقوف قرار دے دیاجاتاہے ۔ وہی شخص اگر کامیاب ہو جائے تو پھر اس کی ساری جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتاہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ شیر دل انسان ، جس نے یہ یہ خطرہ مول لیا ۔ اس کی وجہ سے اس کا پورا خاندان معاشی مسائل میں سے نکل آیا ۔ جائیداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ۔ جو لوگ فیصلہ ساز ہوتے ہیں ، ان میں خطرہ مول لینے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ ناکامی کا اعتراف کرنے سے زیادہ اس کے مضمرات ، اس کے نقصانات کو برداشت کرنا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتاہے ۔اکثر لوگ جو کامیابی تک پہنچتے ہیں ،اوّل اوّل کئی ناکامیوں سے انہیں واسطہ پڑتا ہے ۔ وہ ان ناکامیوں کو برداشت کرتے ہیں ، ان سے سبق سیکھتے ہیں اور پھر بہتر انداز میں کوشش کرتے ہیں ۔ تب کہیں جا کر وہ کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوپاتے ہیں ۔
اصل چیز ذہنی یکسوئی ہوتی ہے ۔ جب دماغ کسی چیز کے بارے میں بالکل واضح ہو جاتاہے تو پھر اس کے بعد ایک نیا فیصلہ لینا مشکل نہیں ہوتا ۔کچھ لوگوں میں پہل قدمی کی صلاحیت (Initiative)ہوتا ہی نہیں ۔ جب انسان ذہنی طور پر یکسو نہیں ہوتا ، تو وہ خوف اور خواہش کے درمیان لٹکتا رہتاہے ۔ ''یہ کام شروع کروں تو بہت فائدہ ہو سکتاہے ۔ ‘‘ ''نہیں رہنے دیتا ہوں ، کہیں نقصان نہ ہو جائے ‘‘ پائلو کوئلہو نے کہا تھا "Be brave, take risks, nothing can substitute experience"۔ بہادر بنیے ، خطرہ مول لیجیے کہ اس تجربے کا نعم البدل کوئی چیز بھی نہیں بن سکتی ۔ جب انسان ایک تجربے سے گزرتا ہے تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ دوسروں سے ایک قدم آگے ہوتا ہے ۔
ایک تجربہ وہ بھی تھا، جس کے بارے میں یہ لطیفہ بیان کیاجا تا ہے ۔ ایک شخص اپنے دوست کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کر رہا تھا۔ لوگوں کو وہ بتایا کرتا کہ میرے پاس پیسہ ہے ،اُس کے پاس تجربہ۔ کچھ عرصے بعد کسی نے پوچھا ، کاروبار کا کیا بنا۔ اس نے کہا ، اب میرے پاس تجربہ ہے ، اُس کے پاس پیسہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان وہ ذہنی یکسوئی کیسے حاصل کرے ، جس سے وہ فیصلہ سازی کے قابل ہو جائے ۔ اس کا جواب یہی ہے کہ تجربے کا نعم البدل کچھ بھی نہیں ۔ آپ کو ایک کام شروع کرنا ہے تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے ۔ خوب غور و فکر کیجیے ۔ دانا لوگوں سے مشورہ کریں ۔ اس کے بعدغیر ضروری تاخیر نہ کریں اور نہ over thinking، بلکہ اللہ کا نام لے کر کام شروع کر دیں ۔ پاکستانی معاشرے میں یہ خصوصیت میں نے دیکھی ہے کہ جیسے ہی انسان کوئی کام شروع کرتاہے تو جہاں جہاں وہ غلطی کرنے لگتا ہے ، اِدھر اُدھر سے لوگ بھاگتے ہوئے آجاتے ہیں ۔ ہر بندہ اپنا قیمتی مشورہ مفت میں عنایت کرتاہے بلکہ وہ آپس میں بحث شروع کر دیتے ہیں ۔ یوں آہستہ آہستہ اس چیز کے بارے میں دماغ واضح ہوجاتاہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ جب انسان گرتے پڑتے کوئی کام شروع کر ہی دے تو آہستہ آہستہ اس کی سمجھ آنے لگتی ہے ، شکل نکلنے لگتی ہے ۔وہ بہت کچھ سیکھ بھی لیتاہے ۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنے گھر ہی بیٹھا رہے تو پھر وہ کبھی بھی ، کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ ہاں ،البتہ یہ بات ہے کہ انسان اتنا ہی خطرہ مول لے، جس میں ناکام ہونے کی صورت میںنقصان وہ برداشت کر سکے ۔ اس کے برعکس میں ایسے لوگوں سے بھی مل چکا ہوں ، جن کے پاس قیمتی جائیداد ہے اور وہ مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ جائیداد یا اس کا ٰایک حصہ فروخت کر کے کاروبار کرنے کی کوشش ان کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہے ۔ اگر امارت کے باوجود ایک انسان کھا نہیں سکتا اور اگر قیمتی جائیداد کے باوجود ایک انسان مفلسی کی زندگی گزار رہا ہوتو اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے ۔ یہ کہ خدا نے اس کا رزق ہی کم لکھا ہے ۔ اس لیے وہ اسے استعمال کرہی نہیں سکتا ۔