"FBC" (space) message & send to 7575

احساسِ کمتری اور نفس کی دوسری عادتیں

جس طرح انسان کی ایک ظاہری شکل و صورت ہے ۔ اس کے بال، اس کی آنکھیں ، اس کا رنگ اور قد کاٹھ ، جیسے اس کی خوبصورتی یا بد صورتی واضح کرتے ہیں ، اسی طرح انسان کے اندر ایک خفیہ شخصیت بھی موجود ہے ۔یہ خفیہ شخصیت ایک باقاعدہ شکل و صورت اور دوسری خصوصیات رکھتی ہے ۔ ماہرین اسے نفس کہتے ہیں ۔اگر آپ مغرب سے متاثر ہیں اور اسے نفس نہیں کہنا چاہتے تو اسے دماغ کہہ لیجیے یا اسے انسانی نفسیات کہہ لیجیے ۔اس لیے کہ یہ خواہشات دماغ کے اندر ہی گندھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ یہ نفس خواہشات کا مجموعہ ہے ۔ خوفناک ترین خواہشات کا ۔ یہ خواہشات زمین پر گزرے ساڑھے چار ارب سال میں اس کے اندر یوں نقش ہوچکی ہیں ، جیسے ایک میموری کارڈ پر اس کا ڈیٹا لکھا ہوتا ہے ۔ یا جیسے ڈی این اے میں جاندار کی خصوصیات درج ہوتی ہیں ۔ہزاروں سالوں میں، ماہرین نے ، صوفیا نے اس نفس کی کچھ خصوصیات نوٹ کیں ۔ ایک عام انسانی ذہن بھی اگر ان کو پڑھے تو اسے احساس ہوتاہے کہ جیسے اس کی نفسیات پر بات کی جا رہی ہے ۔ 
نفس کی یہ خصوصیات کیا ہیں ؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسے خود سے انتہائی شدید محبت ہے اور خود کو نقصان پہنچانے والی ہر ذات سے شدید نفرت ہے ۔ آپ اگر اس کی خود پسندی دیکھنا چاہتے ہیں تو کسی انسان کے پاس بیٹھ کر اس کی باتوں پر خوب ہنسیے، اسے یہ احساس دلائیے کہ اس کی باتوں میں انتہا کی بذلہ سنجی اور عقل و دانش کے موتی بکھر رہے ہیں ۔ بس پھر کیا ہے ، آپ دس سال بعد بھی ان صاحب سے ملیں گے تو وہ مزید موتی لٹانے کو بے چین نظر آئیں گے ۔ جب تک آپ داد لٹانا شروع نہیں کریں گے، انہیں چین نہیں آئے گا ۔ یہ نفس اس قدر خود پسند ہے کہ اگر ایک انسان کی بات پر لوگ زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں تو اس کے بعد ہر محفل میں اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح سب کو ہنسا سکے۔ اس کوشش میں اکثر اس کی مٹی پلید ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ اس دوران جن لوگوں پر یہ چوٹ کرنے کی کوشش کرتاہے ، ان کے اندر بھی اسی طرح کا انسانی دماغ موجود ہوتاہے اور وہ بھرپور جوابی وار کرتے ہیں ۔ نفس میں انتہا درجے کا اپنی بقا کا خوف بھی موجود ہوتاہے ۔ اس لیے اگر اس پر کوئی ہنس پڑے تو اسے خوف محسوس ہوتاہے کہ یہ عمل مستقل طور پر شروع نہ ہو جائے ۔ اس لیے وہ بھرپور جوابی حملہ کرتاہے ۔ یوں بعض اوقات ہمیشہ باقی رہنے والی دشمنیوں کی بنیاد پڑتی ہے ۔ 
اگر آپ کبھی نفس کی خود پسندی دیکھنا چاہیں تو ان مردوں کو دیکھیں ، جنہوں نے زلفیں رکھی ہوتی ہیں ۔ اصل میں نفس اپنے ساتھ اس قدر رومانٹک ہوتاہے کہ یہ انسانی دماغ کی imaginationکی صلاحیت کو بھرپور طور پر استعمال کرتا ہے ۔ یہ لوگ بار بار چہرے پر آنے والے بالوں کو ہٹانے کے لیے سر جھٹکتے ہیں ۔ بال ایک جھٹکے سے پیچھے جاتے ہیں ۔ لاشعوری طور پرانہیں ایک خوبصورتی، دوسرے مردوں پر ایک برتری کا احساس ہو رہا ہوتا ہے اور یہ عمل انتہائی لذت انگیز بن جاتاہے ۔ انسان حقیقت سے بہت دور چلا جاتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ اسے دیکھنے والوں کو اس کے لمبے بال برے ہی لگ رہے ہوں لیکن یہ نفس اس قدر چالاک ہے کہ یہ انسان کو اس کی اصلی شکل و صورت دیکھنے ہی کہا ں دیتا ہے ۔ گنج پن کے شکار نوجوان جب آئینہ دیکھتے ہیں تو یہ نفس اس زاویے (Angle)سے انہیں اپنا عکس دکھاتا ہے ، جس میں گنج پن کم از کم نظر آتا ہے ۔ یہی نفسیات تن سازی کرنے والوں کی ہوتی ہیں۔ بہانے بہانے سے وہ اپنے مسلز کی نمائش کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو میرے مسلز کیسے لگ رہے ہوں گے ۔ دوسروں کو خواہ اس کے مسلز میں رائی برابر بھی دلچسپی نہ ہو ۔ اس میں جب دوسری جبلتیں تعامل (Interact)کرتی ہیں ، مثلاً جنسِ مخالف کی کشش ، یعنی اسے دیکھنے والے میں خواتین بھی شامل ہوں، تو اس کے بعد تو انسان موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا کر چلانا شروع کر دیتا ہے ؛تا آنکہ کسی حادثے کا شکار ہو ۔
احساسِ کمتری کا معاملہ بہت عجیب ہے ۔ نفس کو خود سے اس قدر شدید محبت ہوتی ہے کہ ذرا سی خامی بھی اسے برداشت نہیں ہوتی ۔ چھوٹا قد، کالا رنگ تو بہت دور کی بات، یہ چھوٹی چھوٹی چیزوں ، حتیٰ کہ ہاتھ کی ایک انگلی کٹ جانے کا صدمہ بھی مکمل طور پر کبھی نہیں بھولتا ۔ یہ لاشعوری طور پر دوسرے لوگوں سے ملتے ہوئے ان خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتاہے ۔ انسانو ں کو اس طرح سے پیدا کیا گیا ہے کہ ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خامیاں موجود ہیں ۔ نفس کے پاس جب علم نہیں ہوتا تو ان کمیوں سے اس کے اندر ایک شدید غم پیدا ہوتاہے ۔ہو سکتا ہے کہ انسان کسی کمرے میں چھپ کر گھنٹوں روتا رہے ۔ ویسے وقت گزرنے کے ساتھ اکثر لوگ ان کمیوں سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں ۔ کچھ احساسِ کمتری انسان کے ساتھ قبر تک بھی جاتے ہیں ۔بڑے بڑے لوگوں میں چھوٹے چھوٹے کمتری کے احساس موجود ہوتے ہیں ۔ یہ احساس انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ اس کا پورا روّیہ ہی کمتری کے ان احساسات پر منحصر ہوتاہے ۔ بعض لوگ کوشش کرنے لگتے ہیں کہ وہ ہمیشہ رائے عامہ کے انتہائی مخالف بات کریں ۔ دلائل کا ایک انبار لگا دیں اور دوسروں کو خاموش کر کے برتری اور غلبے کی تسکین حاصل کریں ۔ اگر مسلمان بیٹھے ہوں گے تو وہ اسلام کے خلاف بات شروع کر دیں گے ۔ اگر پاکستانی بیٹھے ہیں تو وہ اقبال ؔاور جناح ؒکے خلاف تقریر شروع کر دیں گے ۔ بھارتی بیٹھے ہیں تو گاندھی کے خلاف۔ ایسے لوگوں کو اکثر ڈنڈا ڈولی کر کے مجالس سے نکالا جاتاہے ۔ وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ کسی خاص موضوع پر ان کی معلومات دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں ، جب کہ عام لوگوں کو ظاہر ہے کہ ان موضوعات پر زیادہ معلومات نہیں ہوتیں ۔ انہیں ان کے ماں باپ کی طرف سے صرف یہ بتایا جاتاہے کہ بیٹا ، اقبال اور جناح بہت اچھے لوگ تھے ۔ یونیورسٹی میں ایک دفعہ ایک استاد نے یہ انکشاف کیا کہ جناح نے تحریکِ پاکستان میں کبھی ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا تھا۔ اب ہم لوگوں نے جناح کو کچھ پڑھا ہوتا تو اس بات کا جواب دیتے ۔ ہم حیرانی سے ان کا منہ دیکھتے رہ گئے ۔یوں یہ لوگ عام ، کم پڑھے لکھے افراد کا منہ بند کرا کے غلبے کی تسکین سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ 
احساسِ کمتری ظاہری شکل و صورت سے لے کر نسل اور بچپن کی شدید غربت سے لے کر بات کرتے ہوئے اٹک جانے کی خامی تک کہیں بھی ، کسی بھی رنگ میں ہو سکتاہے ۔ بعض اوقات یہ ایسی خیالی ذاتی خامیوں پر مشتمل ہوتاہے ، جو درحقیقت پائی ہی نہیں جاتیں ۔ علاج علم اور صبر میں ہے ۔ صبر خود بھی علم کا مرہونِ منت ہوتاہے لیکن علاج تو تب ہوتاہے ، جب انسان پہلے اپنے اندر کی کسی خامی سے آگاہ ہو اور وہ علاج چاہتا بھی ہو ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں