"FBC" (space) message & send to 7575

باپ کی خصوصیات

کرّ ئہ ارض پہ انسان کے غلبے اور آسائشوں سے بھرپور زندگی میں جو رشتہ سب سے اہم کردار ادا کرتاہے ، وہ باپ ہے ۔بہت سے جانداروں میں ماں اکیلے ہی بچوں کی تمام تر حفاظت اور انہیں خوراک مہیا کرنے کا فرض سرانجام دیتی ہے۔ بلی ایک مثال ہے ۔ بلّا تو اپنا کام کر کے چلا جاتاہے ۔ اس کے بعد اس بیچاری پر کیا بیتتی ہے ، حمل کے دنوں میں کیسے وہ اپنی خوراک کا بندوبست کرتی ہے ۔ بچوں کو جنم دیتے ہوئے تکلیف اٹھاتی ہے اور پھر اس کے بعد ان بچوں کی حفاظت، دوسرے جانور جنہیں اپنی خوراک بنانے کو بے چین ہوتے ہیں ، انہیں دودھ پلانا اور پھر ٹھوس خوراک مہیا کرنا ، یہ سب ماں کو کرنا پڑتا ہے ۔ پرندوں ، جیسا کہ عقاب میں ماں اور باپ دونوں بچّوں کا بوجھ مل کر اٹھاتے ہیں ۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایک دفعہ ماں اور باپ بننے کے بعد ساری زندگی وہ ساری زندگی ایک ساتھ گزارتے ہیں ۔ 
بیشتر جانداروں میں ، بچے بہت تیزی سے بڑے ہوتے ہیں ۔ ایک دن کا گائے کا بچھڑا اپنی چار ٹانگوں پر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ ڈیڑھ دو سال میں وہ خود ماں یا باپ بننے کے قابل ہو جاتاہے ۔انسان واحد جاندار ہے ، جو دو ٹانگوں پر بالکل سیدھا کھڑا ہوتاہے ۔ بچے کو توازن سیکھتے سیکھتے ایک سال لگ جاتاہے ۔ اس کے بعد بھی کافی عرصے تک وہ گرتا اور چوٹ کھاتا رہتاہے ۔ بیشتر جانداروں میں بچّے نے محض تین چار بنیادی چیزیں ہی سیکھنا ہوتی ہیں ۔ان کی زندگیاں کھانے اور دشمن سے حفاظت تک محدود ہوتی ہیں ۔ انسانوں میں بچہ چار سال کی عمر میں اس قابل ہوتاہے کہ کوئی عقل کی بات سمجھ سکے ۔ اس کے بعد وہ سکول جاتاہے ۔ طرح طرح کے علوم و فنون سیکھتاہے ۔انسانوں میں بچّے کی پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں بچّے کو بہت وقت لگتاہے ۔ 8، 10سال کا بچہ بھی مکمل طور پر والدین پر ہی منحصر ہوتاہے ۔ کسی بھی جاندار میں بچّے نے پاکیزگی، غسل اور عبادت کے آداب نہیں سیکھنے ہوتے ۔ انسانوں میں یہ لازم و ملزوم ہیں ۔ کائنات میں سب سے پیچیدہ دماغ انسان کا ہے ۔ اس دماغ کو اپنے بقا کی جنگ سیکھتے سیکھتے بیس پچیس سال آرام سے لگ جاتے ہیں ۔ 
اس صورتِ حال نے انسانوں میں نر اور مادہ کو آپس میں ایک معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ ماں بچّے کو جنم دے گی ، اسے سنبھالے گی ، دودھ پلائے گی اور باپ ضروریات پوری کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھائے گا ۔ گوکہ برابری کے اس زمانے میں خواتین بھی مردوں ہی کی طرح ملازمت اور کاروبار کر رہی ہیں لیکن پھر بھی بچّے کو جنم دینا ، پھر اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمّے داری خواتین نے ہی اٹھا رکھی ہے ۔ان کے پاس ہائوس وائف بننے کی آپشن موجود ہے ، جب کہ مرد کے پاس ہائوس ہسبنڈ بننے کی کوئی آپشن نہیں ۔ یوں کمانے کی زیادہ تر ذمہ داری باپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ آئیے ایک نظر دیکھیں کہ اس باپ کی خصوصیات کیا ہیں ۔ 
ہمارے معاشرے میں باپ ایک ایسی ہستی ہے ،کسی بھی معاملے میں بنیادی اور آخری ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے ۔ گھر میں کوئی نقصان ہوگیا، گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ،ڈاکہ پڑ گیا ، بچّہ بیمار ہو گیا ، زیورات چوری ہو گئے ، بالآخر یہ نقصان باپ کو ہی کو برداشت کرنا ہوتا ہے ۔ بیوی اور بچّے اس سے مانگ سکتے ہیں ، وہ کسی سے نہیں مانگ سکتا ۔ ماں جذبات کے اظہار میں آزاد ہوتی ہے ۔ وہ اپنے بچّوں کو کھانا کھلاتی ہے ۔ برا بھلا بھی کہتی ہے ۔ انہیں سینے سے لگا کر چومتی ہے ۔ بچّے بہت چالاک ہوتے ہیں ۔ وہ اس جذباتی ماں کا استحصال کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں باپ کو ایک ہوشیار سربراہ کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔ اس کا بھی دل چاہتا ہے کہ ماں کی طرح بچّے سے لاڈ پیار کرے لیکن ایک حد تک آ کر وہ رک جاتاہے ۔ اسے معلوم ہوتاہے کہ اگر ضرورت سے زیادہ پیار کیا توبیٹا سر چڑھ جائے گا ۔ گھر کا ماحول متاثر ہوگا اور بچّے کو من مانی کی عادت پڑ جائے گی ۔ اس طرح وہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔ اس صورتِ حال میں باپ ایک سخت گیر کردار اختیار کر لیتاہے ، گو کہ دل اس کا بھی موم ہوتاہے ۔ وہ اپنے جذبات چھپائے رکھتا ہے ۔ 
باپ صبح سویرے گھر سے نکل جاتاہے ۔ وہ بچّوں سے زیادہ باتیں نہیں کرتا۔پھر وہ بچّوں سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ یوں اکثر اوقات اسے اپنے بچوں کو اپنا موقف بتانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔باپ کے گھر والوں اور ماں کے میکے والوں میں سے جو زیادہ ہوشیار ہوں ، وہ بچّوں کو اپنے قریب اور دوسروں سے دور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔بیوی اور اس کی ساس اگر سمجھدار نہ ہوں تو ان میں ایک سرد جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ اس صورتِ حال میں باپ بیچارہ دو طرفہ دبائو کا شکار ہو جاتاہے ۔ ماں کا ایک اپنا درجہ ہوتاہے ۔ اس نے اسے پال پوس کر جوان کیا ہوتاہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اس کے بچوں کی ماں ہوتی ہے ۔ اسے ہر صورت میں اس کے ساتھ ایک کم از کم ہم آہنگی برقرار رکھنا ہوتی ہے ورنہ اولاد متاثر ہوتی ہے ۔ بیوی اور ساس تو اپنے شوہر اور بیٹے پر دبائو ڈالنے کے لیے آزاد ہوتی ہیں ۔ باپ بیچارہ دونوں فریقوں کو سمجھانے بجھانے اور یہ یقین دلانے میں لگا رہتاہے کہ اس کی ہمدردیاں متاثرہ فریق کے ساتھ ہیں ۔ باپ چاہے تو چیخنا چلانا یا ہاتھ چلانا شروع کر سکتاہے لیکن اس سے صورتِ حال اور بھی زیادہ خراب ہو جاتی ہے ۔ بیوی اور ماں کی صورت میں دونوں خواتین رونا شروع کر دیتی ہیں ۔ شوہر بیچارہ انہیں روتا دیکھ کر پریشان ہو جاتاہے ۔دیکھنے والے خواتین کو مظلوم اور مرد کو ظالم قرار دے دیتے ہیں ۔ 
ماں جب اپنے بیٹے کو بیمار یا زندگی میں ناکام دیکھتی ہے تو وہ رونا شروع کر دیتی ہے ۔ اسی طرح کوئی بدمعاش بیٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کرے تو پھر بھی وہ رونا شروع کر دیتی ہے ۔باپ کے پاس رونے کا آپشن بھی نہیں ہوتا۔ اسے ہر صورت میں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بیٹا نالائق اور آوارہ ہو تو اسے کسی محنت مزدوری کے کام میں ڈالنے کا سوچتا ہے ۔ اگر وہ لائق ہو اور امتحان میں اچھی پوزیشن لے ، تب بھی وہ چاہنے کے باوجود اپنے بیٹے کا ماتھاچوم نہیں سکتا۔ یوں ساری زندگی اسے دل پر پتھر رکھ کر گزارنا پڑتی ہے ۔ 
بیٹیوں کے باپ سب سے زیادہ مجبورہوتے ہیں ۔ داماد جس طرح چاہے انہیں بلیک میل کر سکتاہے ۔ جس بیٹی کو کندھے پر اٹھا کر سیرکرائی ہوتی ہے ، اس کے آنسو پونچھنے کے لیے باپ خود دل کا مریض بن جاتاہے ۔اس صورتِ حال میں کچھ داماد ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بدتمیزی سے اپنے ساس اور سسر سے پیش آتے ہیں ۔ اس سب کے باوجود وہ اپنے داماد سے شہد بھرے لہجے میں بات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔بیٹی کے سسرال سے اگر کوئی فرمائشیں آتی ہیں تو انہیں پورا کرنے کی ذمہ داری بھی باپ ہی پر عائد ہوتی ہے ۔
بیچارہ باپ!ہر قسم کے حالات کا وہ بہادری سے مقابلہ کرتا رہتاہے ؛حتیٰ کہ قبر میں اتر جاتاہے ۔ 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں