کوئی بھی شخص زیادہ دیر تک جعلی شخصیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا ذہن اس طرح سے بنا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے نظریات، اپنی سوچ، اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ، اپنی چالاکی، اپنی تیزی، اپنے تیز دماغ ، دوسروں کو بے وقوف بنانے کی صلاحیت اور اپنی ہر مثبت اور منفی صلاحیت بتانے کی خواہش رکھتا ہے۔ انسان مذاق مذاق میں ایسی باتیں کر جاتا ہے، جس سے اس کی اصل شخصیت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ انسانی دماغی چونکہ انتہائی تیز طرار ہے اور اس میں دوسروں پر غلبے کی بے تحاشا خواہش بھی ہے‘ اس لیے یہ آہستہ بولنے، آہستہ چلنے، آہستہ گاڑی چلانے اور شریف مزاج رکھنے والوں پر فوراً چڑھائی کر دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چالاک لوگ بے ضرر اور شریف لوگوں کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ اپنے آپ کو دوسروں سے چالاک اور سمارٹ ظاہر کرنے کی وجہ سے، انسان اپنے ''کارنامے‘‘ دوسروں کو بتانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے سے پہلے ہر شخص کا ظاہر و باطن لازماً آشکار ہو جاتا ہے لیکن یہ کسی بھی شخص کے اپنے ہاتھ سے ہوتا ہے۔ خدا کی طرف سے ہر کسی کو یہ مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی خامیوں کو ڈھونڈ کر انہیں ٹھیک کر لے۔
اللہ کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ستار العیوب ہے۔ وہ اپنی مخلوق کے عیب چھپا دیتا ہے۔ مخلوق کو بھی ایک دوسرے کے عیب ڈھکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسروں ہی کے نہیں، اپنے بھی۔ اگر میں ایک گناہ کرتا ہوں اور اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ کیا تم یہ گناہ کر تے ہو تو میں انکار کر سکتا ہوں۔ اگر میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہوں کہ ہاں کرتا ہوں تو اپنے گناہ پر فخر کرنے والوں کے لیے حکم ہے کہ کبھی بھی ان کی بخشش نہ ہو سکے گی۔ اسی طرح اگر ایک شخص اپنی کسی نیکی پر فخر شروع کر دیتا ہے، اگر اس میں زعمِ تقویٰ، دوسروں کو گناہ گار اور کمتر سمجھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو پھر اپنے گناہ پر نادم شخص اس سے بہتر ہوتا ہے۔
دوسروں کے گناہ ڈھکنا، کسی کی کمزوری آشکار ہو جانے پر بھی اسے شرمندہ نہ کرنا، اعلیٰ ترین خصوصیات ہیں۔ اسی طرح ہمیں لڑ جھگڑ کر کسی کے نظریات درست کروانے کا کوئی حکم نہیں۔ خوامخواہ کی بحث سے منع کیا گیا ہے۔ اگر کسی سے مکالمہ ہو بھی جائے تو علم و حکمت کے ساتھ دلائل بیان کرنے کا حکم ہے اور ضد کرنے والے جاہل شخص کے پاس سے اٹھ جانے کا۔
زمانہ آگے بڑھ گیا ہے۔ ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل آ گیا ہے، جس میں کیمرہ نصب ہے۔ سب لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ جو شخص کوئی غلطی یا گناہ کرتا ہوا پایا جائے، اس کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر چڑھا دی جائے۔ انسان کمزور ہے اور سوائے ایک مقدس ہستیؐ کے، کوئی بھی مکمل نہیں۔ بڑے بڑے لوگوں میں مختلف قسم کے عیب پائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ تمام عیوب سے پاک ہے تو اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کمزور انسان کے دماغ میں خواہشات کے دریا بہتے ہیں۔ کبھی کسی کمزور لمحے میں کوئی پھسل جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسانیت کے درجے سے ہمیشہ کے لیے گر چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس شخص کے عیب کی مشہوری شروع کر دیں۔
ان تعلیمات کے برعکس، جو خدا کی طرف سے ہمیں دی گئی ہیں، اب رواج یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اگر کوئی شخص آپ سے ان باکس میں کوئی بات کرتا ہے اور جیسے ہی آپ کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس بات کی تشہیر سے اس شخص پر لعنت ملامت کرائی جا سکتی ہے، آپ فوراً یہ کارِ خیر کر ڈالتے ہیں۔ ہر شخص اپنی جگہ پر ایک فرشتے کے سے تقدس پہ براجمان ہے۔ ہر بات اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جاتی ہے کہ اس پر دوسروں کی طرف سے ستائش (لائک) موصول ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریا کاری کے سمندر بہہ رہے ہیں۔ ایسے ماہرین کے ٹولے نمودار ہو چکے ہیں، جو کسی کو غصہ دلا کر، اس کے منہ سے کچھ نکلوا کر، سکرین شاٹس بنا کر لعنت فروشی کا دھندا فرما رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک دوسرے پر طنز کے مواقع تلاش کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ دوسروں کے عیوب شائع کر رہے ہیں تو ستار العیوب کی ذات آپ کے ساتھ کیا کرے گی؟
میں پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی اس بات کی تاب نہیں لا سکتا کہ اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائیں۔ بے شمار اولادیں ایسی ہیں، جو ماں باپ کی موت کی منتظر ہیں کہ انہیں جائیداد مل سکے۔ بے شمار شوہر ایسے ہیں کہ ان کا بس چلے تو اپنی بیوی کو قتل کر دیں۔ بے شمار بیویاں ایسی ہیں، جن کا بس چلے تو شوہر کو کسی کال کوٹھڑی میں بند کر دیں۔ اس کے باوجود ان کی ساری زندگی ایک ساتھ گزرتی ہے۔ خدا انہیں ڈھانپے رکھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نفس ہے ہی اس قدر خود غرض اور ہوس کا مارا ہوا کہ ہم اپنی اصل سوچ کا عیاں ہونا گوارا نہیں کر سکتے۔
اس ساری صورتِ حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لشکر سوشل میڈیا پر دوسروں کو گناہگار اور پست خیال ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ اب عملی زندگی میں کوئی کام بھی درست طریقے سے کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اگر آپ چوبیس میں سے سترہ گھنٹے آن لائن ہیں اور اگر آپ کا زیادہ تر وقت دوسروں کو ذلیل ثابت کرنے کے معرکوں میں صرف ہو رہا ہے‘ اگر آپ اپنے دوستوں کے حق میں ان مباحثوں کی جنگ لڑتے رہتے ہیں اور اگر وہ آپ کے حق میں دادِ شجاعت دیتے رہتے ہیں تو پھر آپ کام کس وقت کرتے ہیں؟ اگر آپ کا زیادہ تر وقت اپنے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی نظریات کو درست ثابت کرنے میں گزرتا ہے تو پھر آپ سوچ بچار کس وقت کرتے ہیں؟ بیوی بچوں کے لیے رزق کس وقت کماتے ہیں۔ اپنی جسمانی صحت کے لیے ورزش کس وقت؟ اپنے اہلِ خانہ کو وقت کب دیتے ہیں؟ انسانی توانائی، وقت اور وسائل تو محدود ہیں۔ جب ایک پوری قوم آن لائن بیٹھی ہو اور جب لوگ کام کرتے ہوئے جیب سے موبائل نکال کر سوشل میڈیا کے معرکے نمٹا رہے ہوں تو پھر انجام کیا ہو گا؟ اس قوم کے کارخانوں، کھیتوں، لیبارٹریوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں عرق ریزی سے کام کرنے، غو ر و فکر کرنے والے لوگ کہاں سے آئیں گے؟ جو قوم وقت ضائع کرتی رہے گی، جس کے پاس عرق ریزی اورغور و فکر کے لیے وقت ہی نہیں ہوگا، وہ دوسری قوموں کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟
اس سے بہتر ہے کہ حکومت کی طرف سے چوبیس میں سے دو گھنٹے مختص کر دیئے جائیں۔ ان دو گھنٹوں میں آپ جس طرح بھی اپنے حریفوں کا منہ کالا کرنا چاہیں، کریں۔ کم از کم باقی 22 گھنٹے سکون سے اپنا کام کریں اور ایک نارمل زندگی گزاریں، جس میں اپنے جسم، اپنے دماغ، اپنے اہلِ خانہ اور اپنے کام پر آپ توجہ دے سکیں۔ اگر نہیں تو پھر زوال اور پستی کا سفر جاری رہے گا۔