"FBC" (space) message & send to 7575

گنجائش

خدا کی طرف سے انسانوں میں علم و عقل کی تقسیم رزق سے بہت مختلف ہے۔ جس طرح بارش کے قطرے اور سورج کی کرنیں، ہر ایک تک پہنچتی ہیں، اسی طرح رزق کے بارے میں خدا یہ کہتا ہے کہ زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو۔ ساتھ ہی یہ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے گزرے گا اور کہاں سونپا (Place) جائے گا۔ جب یہ تک طے شدہ ہو کہ کسی جاندار نے کس جگہ سے گزرتے ہوئے کون سا پھل اور کون سا اناج کھانا ہے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ ماں باپ خدا کی طرف سے طے شدہ، بہن بھائی اس کی طرف سے طے شدہ اور بیوی بچّے بھی۔ دنیا میں سب سے بڑی آزمائش شاید یہ ہے کہ مختلف مزاج کے انسانوں کو ساری زندگی ایک ساتھ گزارنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ پچاس سال تک دو انسان ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن مجبوری کے عالم میں۔ 
جب انسان اس Statement پر غور کرتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ''زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو‘‘۔ آج تعلیم و ترقی کے اس دور میں، جہاں پچھلے چالیس پچاس ہزار سال کا مجموعی انسانی علم و تجربہ ہماری پشت پر موجود ہے، انسان نے زمین پر جانداروں کی کل تعداد کے بارے میں ایک اندازہ قائم کیا ہے۔ کرّۂ ارض کی تاریخ میں پانچ ارب قسم کی مخلوقات (species) اس پر زندگی گزار چکی ہیں۔ ان میں سے 99 فیصد ہمیشہ کے لیے ختم (Extinct) ہو چکی ہیں۔ آج جو مخلوقات زندہ ہیں، ان کی کل تعداد کا اندازہ 87 لاکھ ہے۔ ان 87 لاکھ میں سے ایک یعنی ہم انسانوں کی تعداد 7 ارب سے زائد ہے۔ 
انسان تو خیر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی اس قدر شاندار عقل کی مدد سے رزق کماتا ہوں لیکن پھر باقی جاندار، جنہیں ایسی عقل نہیں دی گئی، وہ بھوکے نہ مر جاتے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ گلی میں کھلے آسمان تلے رہنے والی ایک بلی بھی اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔ بھرپور زندگی گزارتی، بچے پیدا کرتی، ان کی پرورش کرتی اور پھر ہماری طرح بوڑھی ہو کر یا کسی حادثے کا شکار ہو کر مر جاتی ہے۔ جب انسان ہاتھی جیسے بڑے جانور کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ ان کا پیٹ بھرنا کتنا مشکل ہے۔ وہیل مچھلی کو دیکھیے تو ہاتھی پالنا مذاق لگتا ہے۔
رزق تو خیر ہر جاندار تک پہنچتا ہے، خواہ وہ انسان جیسا عقل مند اور تجزیہ کار ہو یا سانپ کی طرح محض جبلی فیصلوں پر زندگی گزارنے والا۔ علم کی تقسیم مختلف ہے۔ یہ بہت دیکھ بھال کر رکھا جاتا ہے۔ جس شخص کے پاس علم ہوتا ہے اور جو خدا کے نور سے دیکھتا ہے، رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مخلوق اس پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ کسی سے رہنمائی حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ساری زندگی کے لیے اس پر اندھا ایمان لے آئیں۔ انسان کو عقل اسی لیے دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی بات کو جانچے، اس پر غور کرے اور پھر اگر وہ بات اسے درست لگے تو اس پر عمل کرے۔ پھر یہ کہ بڑے سے بڑا استاد بھی غلطی کر سکتا ہے‘ حتیٰ کہ روزمرہ کی بنیاد پر۔ کسی معاملے میں اس کا تجزیہ اور اندازہ غلط ہو سکتا ہے۔ کسی استاد کا اگر احترام کیا جاتا ہے تو اس کے مجموعی کردار، تعلیم، لوگوں کی Direction، اور ان کی approach درست کرنے کی وجہ سے۔ 
پروفیسر احمد رفیق اختر کی معیت میں مَیں نے یہ دیکھاکہ لوگ اندھی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔ استاد کی ہر بات قرآن و حدیث نہیں ہوتی۔ انسان ہونے کے ناتے غلطی کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ جب ہم کائنات کے سب سے بڑے استادؐ کے شاگردوں یعنی صحابہ کرامؓ کو دیکھتے ہیں تو ان کا طرزِ عمل بہت مختلف تھا۔ وہ آپس میں مشورہ کرتے، اختلاف کرتے، بحث ہوتی اور پھر اتفاقِ رائے تک پہنچتے۔ یہ صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل تھا، جو پیغمبروںؑ کے بعد سب سے بڑے اہلِ علم اور ہدایت یافتہ تھے۔ بعد میں آنے والے جتنے بھی استاد تھے، ان کا درجہ صحابہؓ کے سامنے کس قدر معمولی ہو سکتا ہے، یہ آپ سب جانتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تصور ہے کہ یا تو اندھا دھند کسی کی تقلید کرو یا پھر اندھا دھند اس کے خلاف مہم شروع کر دو۔ یہ دونوں روّیے غلط ہیں۔ درست روّیہ یہ ہے کہ جب آپ کو کسی بڑے استاد سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے تو وہ آپ کی direction درست کر دے گا۔ اس کے بعد آپ جو کچھ اس سے سیکھ سکو، سیکھ لو۔ جہاں آپ کو لگے کہ استاد غلطی کر رہا ہے، وہاں نشاندہی بھی کرو۔
انسان کسی بڑے مسئلے میں اگر پھنس جائے اور اسے راستہ سمجھ نہ آ رہا ہو تو وہ استاد سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ یہ قرآن میں لکھا ہے کہ ایسی حالت میں اہلِ ذکر کے پاس جانا چاہیے۔ یہ تو درست‘ مگر میں نے یہ دیکھا ہے اور یہ بات مجھے بہت عجیب لگتی ہے کہ لوگ چھوٹے سے چھوٹے مسئلے اور کام کے لیے پروفیسر صاحب کے پاس آتے ہیں۔ کسی کا فرزند سکول میں پہلی سے دوسری پوزیشن پر آ جائے، کسی نے اپنی بھینس بیچنی ہو، کسی کو بخار اور متلی ہو جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ معاملات پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں نہیں، خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ اس نے آپ کے ماں باپ، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کا انتخاب کیا۔ آپ کا ایک خاص مزاج تشکیل دیا۔ آپ کو ایک ذہنی صلاحیت دی۔ ایک خاص قسم کے حالات سے گزارا۔ یہ سب تو خد اکے ہاتھ میں ہے۔ یہ سب کچھ ہماری آزمائش کے لیے ہے۔ استاد جتنی مرضی کوشش کر لے، یہ آزمائش وہ ختم نہیں کر سکتا۔ موت سے پہلے کے آخری لمحے تک، جب تک آپ کے ہوش و حواس برقرار ہیں، یہ آزمائش جاری رہے گی۔ استاد آپ کو دعا بتا سکتا ہے لیکن اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلے تو انسان کو خود کرنے چاہئیں۔ استاد جس کام کے لیے بیٹھے ہیں، وہ یہ ہے کہ خدا کی شناخت کیسے ہو۔ انسان اس کی طرف اپنا سفر کیسے شروع کرے۔ اس میں بھی ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ مطالعہ کریں، اپنے دماغ سے غور و فکر کریں۔ پھر بھی اگر بات سمجھ نہ آئے تو استاد کے پاس جائیں۔
استاد کا کام سمت درست کرنا، ڈائریکشن دینا ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے، تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس ماڈرن اور فیشن ایبل زمانے میں خدا کا نام لینے والے شرمندہ شرمندہ ہیں۔ باقی زمانے سے کٹے ہوئے اور قدامت پسند۔ استاد نے جب ہمیں خدا کا اصل تعارف کرایا تو ہمیں معلوم ہوا کہ خدا سے تعلق تو فخر کی بات ہے۔ خوبصورتی کی انتہا ہے ہمارا خدا۔ استاد نے شیخِ ہجویرؒ کا یہ قول ہمیں سنایا کہ ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ ہم دوستوں نے علم اور عقل کی مدد سے خدا کی طرف ایک پہلا قدم اٹھانے کی کوشش کی۔ یہ تھا ہمارے استاد کا ہم پر احسان۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلکیات پر یا سیاست پر پروفیسر صاحب کی فلاں بات تو غلط ہے، اس لیے میں انہیں نہیں مانتا تو کتنا عجیب لگتا ہے۔ تحصیلِ علم میں کسی کو مکمل طور پر ماننا یا انکار کرنا نہیں ہوتا بلکہ جو چیز آپ کسی سے لے سکتے ہیں، وہ لے لیں۔ جو بات غلط ہے، اس سے رک جائیں۔ شخصیت پرستی کا شکار مت ہوں۔ یہ مکمل تباہی کا راستہ ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں