حیاتیاتی طور پر جسم اور دماغ جن اصولوں پر کام کرتے ہیں، اگر آپ انہیں دیکھیں تو انسان اور دوسرے جانداروں میں کوئی خاص فرق نہیں۔ جس طرح ہمارے جسم ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن اور کیلشیم جیسے عناصر سے بنے ہیں، بالکل ویسے ہی ان کے جسموں کی بنیادی کیمسٹری بھی یہی ہے۔ جس طرح ہمارے جسم میں nerves اور خون کی نالیاں ہیں، اسی طرح جانوروں کے جسموں میں بھی ہیں۔ جس طرح ہمارے جسموںمیں دل، پھیپھڑے، جگر اور گردے کام کرتے ہیں، اسی طرح ان میں بھی۔ جس طرح ہمارے اندر خواہشات رکھی گئی ہیں اور غصہ رکھا گیا ہے، بالکل اسی طرح ان میں بھی۔ مخلوقات اتنی ہیں کہ ہم ابھی تک صرف ان کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو ہی کاغذات میں لکھ (Document کر) پائے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ آگ استعمال کرنا، کپڑے پہننا اور ایسی دوسری بہت سی چیزیں ہیں، جو انسان کے علاوہ کوئی بھی جاندار نہیں کر پایا۔ ڈائنا سار جیسے جانور جو کروڑوں برس تک زندہ رہے، وہ بھی نہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ انسان کو دیکھیں تو قدیم ترین انسانی فاسلز صرف تین لاکھ سال پرانے ہیں۔ انسان کا جسم اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس کا زیادہ وقت اپنی ضروریات پوری کرتے گزر جاتا ہے۔ یہ جسم نہ صرف کمزور ہے، بیماری کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس جوانی کے بیس تیس سال ہی کی مہلت ہوتی ہے۔ یہاں تک پہنچ کر انسان حیرت سے سوچنے لگتا ہے کہ پھر مجھے کس لیے پیدا کیا گیا۔ قدم قدم پر غلطی کرتا ہوا انسان آخر کس لیے پیدا کیا گیا؟ ایک اشکِ ندامت کے لیے؟
حیرت، مسرت، خوف اور دوسرے جذبات اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں، جب آپ خدا کو انسان سے کلام کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ خدا جب بات کرتا ہے تو اس کا خدائی لہجہ انسانی دماغ کو بھک سے اڑا دیتا ہے۔ ایسے الفاظ جو کبھی کوئی انسان استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ خدائی لہجہ بار بار سنائی دیتا ہے۔ یہ آیت پڑھیے: زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جسے ہم نے اس کے ماتھے سے پکڑ نہ رکھا ہو۔ ایک بار پھر چند الفاظ میں ایک بہت بڑی حقیقت، کرّۂ ارض پہ حکومت (Rule) کرنے والا ایک اصول۔ دماغوں میں ان خیالات کا نزول، جو کہ ان کے طرزِ عمل کی بنیاد بنتے ہیں۔
گزشتہ ایک صدی میں کائنات کے بارے میں انسانی علم میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ کیپلر سمیت ایسی دوربینیں خلا میں بھیجی گئیں، جنہوں نے بہت بڑے نظارے (Observations) زمین تک پہنچائے۔ ریاضی اور طبیعات میں انسانی علم اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ سیاروں کے مدار اور کششِ ثقل کی طویل تشریحات کر دی گئی ہیں، جو کہ کائنات میں پائے جانے والے مظاہر کی وضاحت پوری صحت کے ساتھ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی میں انسانوں میں یہ خیال جڑ پکڑتا گیا ہے کہ ہزاروں سالہ پرانے خدائی احکامات شاید اب قابلِ عمل نہیں رہے۔ مغرب میں تو آ پ دیکھ سکتے ہیں کہ ''انسانی آزادیوں‘‘ کو اب مقدس حیثیت دے دی گئی ہے۔ اب ہم جنس پرستی کرنے والے نہیں بلکہ انہیں غلط کہنے والے مطعون ہیں۔ Practically مغرب مذہب سے آزاد ہو چکا ہے۔ انجیل اور دوسری مقدس کتابوں کا متن مستند نہیں رہا لیکن جو متن سند کے ساتھ باقی ہے یعنی قرآنِ کریم، یہاں جب خدا کائنات کے بارے میں، زندگی اور انسان کے بارے میں کوئی Statement دیتاہے تو یہ Statement انسانی عقل کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔ ملاحظہ ہو: کیا میرا انکار کرنے والے دیکھتے نہیں کہ زمین وآسمان جڑے ہوئے تھے اور پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے کو پیدا کیا۔ ایسی Statements جب آپ پڑھتے ہیں تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ وہی مالکِ دو جہاں ہے‘ ماضی، حال اور مستقبل کا سارا علم جس کی مٹھی میں ہے۔ اس علم میں سے وہ جسے دینا چاہے اتنا دے دیتا ہے۔ کوئی زبردستی اس سے کچھ چھین نہیں سکتا۔
ایک اور Statement دیکھیے: اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے اہلِ عقل! قصاص کیا ہے، جرم کرنے والے کے لیے سزا۔ اتنی سزا جتنا جرم کیا گیا ہے۔ قتل کرنے والے کو قتل کیا جائے گا۔ اگر نہیں کیا جائے گا تو معاشرہ ختم ہو جائے گا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغرب میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے باوجود وہاں یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ قتل کرنے والا کم از کم ڈھونڈ لیا جاتا ہے، اسے گرفتار کیا جاتا ہے، پولیس پکڑ کر عدالت کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اسے سزائے موت نہ سہی، بہرحال سزا ملے گی۔ ہمارے ہاں قاتل پکڑا نہیں جاتا۔ بیس بیس سال تک مقدمہ چلنے کے بعد کوئی بے گناہ ثابت ہو جاتا ہے۔ سزائے موت صرف دہشت گردی کے مرتکب افراد کو مل رہی ہے اور اس وہ اس لیے کہ یہ معاملہ یا تو فوج کے ہاتھ میں رہا یا پھر بھرپور دبائو اس معاملے میں برقرار رہا۔
پسِ تحریر: ہم لوگوں کو آزاد ہوئے سات دہائیاں ہو چکیں۔ یہ اتنا وقت ہے کہ کچھ نہ کچھ بلوغت ہمارے اندر آجانی چاہیے۔ گزشتہ کالم میں ایک نکتہ عرض کیا کہ انسانی فصاحت کی انتہا شاعری میں ہوتی ہے لیکن شاعری میں شاعر ایک ایسا اچھوتا خیال بھی پیش کر سکتا ہے، جو کہ حقیقت میں غلط ہو۔ مثلاً یہ شعر کہ ''پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق... آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا‘‘ یہ مجموعی طور پر انسان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انسان کچھ بھی کہنے کے لیے آزاد ہے۔ یہ کالم خدا کے کلام، اس کے لہجے سے متعلق تھا۔ یہاں یہ بات لکھی کہ خدا صرف وہی بات کر سکتا ہے جو کہ حقیقت میں درست بھی ہو۔ زورِ بیان کے لیے ایسی بات خدا نہیں کر سکتا، جو کہ علمی طور پر غلط ثابت ہو جائے۔ میری اس گزارش کا مطلب یہ نہیں کہ مرزا اسد اللہ غالبؔ پر کوئی راکٹ حملہ ہو گیا ہے، جس کے جواب میں فدائینِ غالبؔ کو اس معمولی کالم نگار پر فائرنگ شروع کر دینی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب شخصیت پرستی کے اس جنون سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غالبؔ ہو، اقبالؔ، کوئی عظیم سیاسی شخصیت، جیسے کہ قائداعظم، ان سب میں خامیاں اور کمیاں ہو سکتی ہیں۔ اگر کوئی ذات سو فیصد خامیوں سے پاک ہو سکتی ہے تو وہ ایک ہی ہے۔ غالبؔ ہو یا اقبالؔ، بہرحال وہ انسان ہیں۔ آپ انہیں بے بس بھی دیکھیں گے۔ ان کی آنکھوں کو نم بھی دیکھیں گے۔ انہیں حالات کے جبر تلے دبا ہوا بھی دیکھیں گے۔ معاشی مسائل اور بیماری پر پریشان بھی دیکھیں گے۔ غالبؔ کا شعر اس لیے استعمال کیا کہ ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں وہ شاعروں کو Represent کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا شاگرد ضرور ہوں، ان کا نمائندہ نہیں۔ جن لوگوں کے پاس علم ہے اور جو انہیں Represent کر سکتے ہیں، ان میں سب سے بڑی شخصیت ڈاکٹر عبدالجلیل کی ہے۔ نوجوانوں میں سے عبداللہ محمداور جنید جیسے لوگ انہیں Represent کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ جن حضرات کو پروفیسر احمد رفیق اختر پر یلغار کا شوق ہے، وہ ان سے رابطہ فرمائیں۔ آخری گزارش یہ ہے کہ دنیا مریخ پہ اترنے کی تیاری کر رہی ہے۔ کب تک ہم فیس بک پہ چڑھ کے سکرین شاٹس کی بندوقوں سے ایک دوسرے کو کمتراور رزیل ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟