خواجہ منگتا بھی تاریخ کا ایک عجیب ہی کردارتھا۔ اس کے حریفوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک عیار شخص تھا ۔ ایک ایسابھکاری، جو بھیک مانگنے کی بجائے لوگوں کو لوٹ لیا کرتا لیکن کمال ہوشیاری سے پہلے وہ انہیں لٹنے پر رضامند کر تا۔ یوں یہ لٹنے والے قہقہے لگاتے رخصت ہوتے۔اس انوکھے اندازِ واردات نے قانون کو بھی حیران پریشان کر دیا تھابلکہ قانون نافذ کرنے والے تواس وقت خود محوِ تماشا ہوتے۔خواجہ منگتا نے مانگنے کو ایک فن بنا دیا تھا۔ وہ اس طرح کہ اس نے صرف جدّی پشتی نوابوں سے مانگنا شروع کیا ۔ ایک حکمتِ عملی کے تحت اس نے اس بات کو فخر کی علامت بنا دیاکہ ایک خاندانی مانگنے والے نے ایک خاندانی رئیس سے کچھ مانگا ہے ۔
اس کی شخصیت د ل زیب تھی ۔ گورا رنگ،لمبا قد، لمبے سیاہ گھنے بال ، انتہائی دہ زیب نقوش ۔ وہ ہمیشہ سفید یا سیاہ ریشمی لباس پہنتا ۔ سونے پر سہاگا اس کی آواز تھی ۔ یہ آواز لوگوں کو رلا سکتی تھی ، ہنساسکتی تھی اور وہ جیسے چاہتا ، انہیں ہنساتا، جیسے چاہتا ، انہیں رلا ڈالتا تھا۔
بھکاری ابنِ بھکاری ابنِ بھکاری، وہ ان گنت نسلوں سے بھکاری چلا آتا تھا۔ بعض کا کہنا تویہ تھا کہ دنیا میں بھیک مانگنے کا دھندا شروع ہی اس کے اجداد نے کیا تھا اور تین چار سو نسلوں پیچھے وہ شخص خواجہ کا دادا لگتا تھا۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا اس آخری پشت پر آکر یہ فن اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ گیا تھا۔ مانگنے والوں میں ایک لیجنڈ پیدا ہو چکا تھا۔
اس نے مانگنے کے ہنر میں کئی نئی جہتیں متعارف کرائی تھیں ۔ ان میں ایک طریقِ واردات بارات لوٹنا بھی تھا۔ گاہے کسی رئیس کی بارات روانہ ہونے لگتی تو ڈاکوئوں کے بھیس میں خواجہ منگتا اپنے ساتھیوںکے ہمراہ ہلّہ بول دیتا۔ سراپا سیاہ لباس میں ملبوس اور سیاہ کپڑے سے منہ ڈھانپے ہوئے، وہ گھوڑ ے سے اترتا ۔ چیخ چیخ کر مکالمے ادا کرتا۔ہوائی فائر کرتا ؛حتیٰ کہ دلہے کے سر پہ بندوق رکھ دیتا۔ اس موقعے پر نہ صرف یہ کہ قانون کے رکھوالے خاموش رہنے پر مجبور ہوتے بلکہ دلہے کی خوشی دیدنی ہوتی۔ پورے شہر میں یہ خبر پھیل جاتی کہ خواجہ نے فلاں رئیس زادے کی بارات لوٹ کر اسے خاندانی رئیس ہونے کا شرف بخشا ہے ۔ دولہے کی بہنیں ، اس کے ماں باپ خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے پاس دولت کے انبار موجود تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنی شادیوں کو یادگار بنانے کی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھے ۔قانون والوں کو صاف بتا دیا جاتا کہ خواجہ چاہے جو کرے، کوئی اسے نہ روکے۔ یہ تمام مناظر فلمبند کیے جاتے۔ یوں ان دولت مندوں کے لیے یہ شادی ہمیشہ باقی رہنے والی ایک یاد بن جاتی ۔
اسی طرح اس نے خوبصورت ترین خاندانی خواتین کی تعریف کرنا شروع کی۔ ایک بھرپور تقریب میں ، سینکڑوں خواتین میں سے جب وہ ایک کی خوبصورتی ، لباس اوراس کے رکھ دکھائوکی تعریف کرتا تو یہ اس لیے کس قدر خوشی کا موقع ہوتا ۔ شہر کی خوبصورت خواتین کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والا غیر رسمی مقابلہ حسن شروع ہو چکا تھا ، جس کا منصف خواجہ منگتا تھا۔ یہ تھی اس کی چالاکی کی انتہا۔ اس تعریف کے بدلے وہ صرف سونے کا زیور قبول کرتا ۔ تعریف کی آرزومند خواتین قیمتی زیور پہنے تقریبات میں شریک ہونے لگی تھیں۔ اپنی عیاری کی مدد سے خواجہ منگتا ان کی باہمی رقابت سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔
اس پہ خواجہ کی آواز ، تعریف کرنے کا اس کا انداز تھا ۔ وہ جب کسی کی خوبیاں گنواتا تو زمانہ پلٹ کر اس کی طرف دیکھنے لگتا۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ وہ توجیسے پیدا ہی تعریف کرنے کے لیے ہوا ہے ۔
خواجہ کے دوستوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ لٹیرا نہیں تھا ۔ وہ تو حساس دل اور نفیس ترین ذوق کا مالک ایک ایسا نوجوان تھا، ساری زندگی جو اپنے کمتر نسب پہ ماتم کناں رہا۔ اعلیٰ ترین ذوق کا مالک ایک شخص ، ساری زندگی جس نے کبھی پھیکا پھل بھی نہیں کھایا لیکن اس غم سے وہ کبھی نکل نہیں پایا کہ سینکڑوں نسلوں سے اس کے اجداد کا پیشہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا تھا۔ساری زندگی اس کی آنکھ نم ہی رہی ۔
اسی غم کو غلط کرنے کے لیے اس نے بارات لوٹنے اور تعریف کرنے کی جہتیں اختیار کی تھیں۔ لاشعوری طور پر وہ بھیک مانگنے سے دور بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کبھی کبھار وہ شہرسے دور نکل جاتا۔ رئیسوں کی تعریف کرتے کرتے تھک جاتا تو کبھی نواحِ شہر میں بہتی ٹھنڈی ہوا کی تعریف کہنے لگتا۔ ایک بار اس نے ایک پہاڑ کی تعریف بیان کی ۔ قدرت کے ان حسین نظاروں کی مدح کرتے کرتے کبھی کوئی بات اسے یاد آنے لگتی ۔ وہ سر جھٹکنے لگتا ۔ آخر بے بس ہو کر خاموش ہو جاتا۔
اس کے دوست میکائیل رشید کا کہنا یہ تھا کہ ایک خواب نے اسے مضطرب کر رکھا تھا ۔وہ دیکھتا تھا کہ ہر طرح کی مخلوقات اس کے سامنے موجود ہیں اور وہ ان کی تعریف بیان کر رہا ہے ۔ پھر وہ ہوائوں اور پانی کی تعریف بیان کرتا ہے اور پھر روشنی کی۔ پھر عقب سے کوئی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتاہے ۔ ایک دم وہ چونک اٹھتاہے ۔ اسے خیال آتاہے کہ جس کی تعریف کرنی تھی، اس کی تعریف تو کی ہی نہیں ۔ وہ پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کرتاہے لیکن یہاں ہمیشہ اس کی آنکھ کھل جایا کرتی۔ سوز و گداز کے عالم میں گم سم لیٹا وہ کچھ سوچتا رہتا ۔
پھر امینہ والا واقعہ پیش آیا ۔قیامت خیز حسن کی مالک وہ سترہ اٹھارہ سالہ دوشیزہ خواجہ کے دل میں اتر گئی تھی ۔ کافی عرصہ وہ خود کو سمجھا تا رہا کہ کہاں ایک بھکاری اور کہاں یہ خاندانی لوگ ۔ اس کی مقبولیت اپنی جگہ لیکن تھا تو وہ ایک فقیر ہی ۔ آخر ایک روز اس کا صبر جواب دے گیا۔ اس نے امینہ کی تعریف بیان کی۔ وہ سنتی رہی ، شرماتی رہی ۔ آخر امینہ نے اپنی ایک انگوٹھی اس کی طرف بڑھائی لیکن خواجہ نے قبول نہیں کی۔ وہ اسے کیسے سمجھاتا کہ وہ بھیک کی خاطر تعریف نہیں کر رہا ۔ اسے اپنے بھکاری ہونے پر ہمیشہ شرم آئی لیکن اس دن تو اس کا دل چاہا کہ کہیں ڈوب ہی مرے ۔اس روز اس نے اپنے خاندان کو اکھٹا کر کے یہ کہا کہ وہ بھکاری نہ ہوتا تو امینہ کو آسانی سے بیاہ لاتا ۔ دیر تک وہ گرجتا برستا رہا۔
یہی صدمات تھے، جنہوں نے اسے پتھر دل کر دیا تھا اور اس نے لوٹ مار شروع کر دی ۔ اس کے کارندے شہر میں پھیل چکے تھے۔ ہر دولت مند کی تصویر اور اس کی آمدن ہی نہیں بلکہ فائلوں میں یہ بھی درج کیا جا رہا تھا کہ دنیا میں کس سے وہ زیادہ محبت کرتاہے ۔ جب اسے کسی ایسے رئیس کے بارے میں معلوم ہوتا جو بھیک دینے سے انکاری ہوتا تو وہ بھڑک اٹھتا ۔ وہ ذاتی طور پر اس کا پیچھا کرتا اور موقع پا کر اس کی جیبیں خالی کر ڈالتا ۔ نواب زادی نسرین کے ساتھ اس نے یہی تو کیا تھا۔پورے ایک مہینے کے صبر آزما انتظار کے بعد اس نے اسے اس وقت آلیا، جب وہ اپنی پوتی کے ساتھ بینک سے باہر نکلی۔ خواجہ کے پاس ایک گڑیا تھی، جس کی ٹانگ اس نے قینچی سے کاٹ ڈالی تھی ۔ جب نواب زادی وہاں سے گزری تو وہ دہائی دینے لگا۔ کم سن بچی کے سامنے بین کرنے لگا کہ گڑیا کے علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ نواب زادی اپنی پوتی کی آنکھوں میں آنسو نہ دیکھ سکی ، نہ ہی وہ اپنی دادی کی کوئی بات سننے کو تیار تھی ۔ اسے اپنے پرس کا منہ کھولنا ہی پڑا۔ (جاری )