"FBC" (space) message & send to 7575

آزادی

یہ کالم والدین کے لیے ہے ۔ ان والدین کے لیے جو ہمیشہ اولاد کے سر پر نگران رہتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی ہمیشہ اسے یہ بتاتے رہتے ہیں کہ اس کے لیے کیا درست ہے اور کیا غلط ۔ نگرانی ماں باپ کا فرض ہے‘ لیکن میں ان سے مخاطب ہوں ‘ جن کی نگرانی کا معیار سی آئی اے سے بھی بڑھ جاتاہے ۔ میرے ایک دوست کی والدہ بچپن میں اسے اسلامی موضوعات پر کوئی کتاب دے کر کمرے کو باہر سے تالا لگا دیتی تھی ۔ چند گھنٹوں بعد جب دروازہ کھولا جاتا‘ تو اسے نشان زدہ صفحات میں سے سخت سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑتا۔ایسے بچّے عام طور پر بڑے ہو کر باغی ہو جاتے ہیں ۔ مذہب کے خلاف ہو جاتے ہیں‘ لیکن میرے دوست کے مزاج میں بہت برداشت اور نرمی تھی ۔ وہ بگڑنے سے بچ گیا۔ 
ایک دفعہ ایک خاتون کی ای میل آئی ۔ اس نے لکھا کہ میں نے اپنے بیٹو کو ٹیپو سلطان بنانے کا ارادہ کیا ہے ۔ میری رہنمائی کیجیے کہ اسے کس قسم کی کڑی تربیت سے گزاروں کہ واقعتاً ٹیپو سلطان بن جائے ۔ ایسے حالات میں آپ کفِ افسوس ملنے کے سوا کیا کر سکتے ہیں ۔ ٹیپو سلطان کا زمانہ اور تھا ۔اس کے جینز اور تھے۔ اس کے حالات اور تھے ۔ اس کا باپ بہت بڑا سپہ سالار تھا اور یہ وہ زمانہ تھا ‘ جب سپہ سالار کا بیٹا سپہ سالار بن سکتا تھا۔آج جس قسم کی قومی افواج تشکیل پا چکی ہیں ‘ ان میں مستثنیات کے علاوہ ایسا ممکن ہی نہیں ۔ جنرل راحیل شریف کوغالباً ان کے بزرگوں اور بھائی کے اچھے کیرئیرکا فائدہ پہنچا تھا‘ لیکن ایک حد سے زیادہ نہیں ۔ 
میں ایک جگہ بیٹھا تھا ۔ میری 8ماہ کی بیٹی کمرے میں ادھر سے ادھر کرالنگ کر رہی تھی ۔ دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ وہ کرالنگ کرتے ہوئے دروازے کے قریب پہنچی ۔ باہر کسی قدر اندھیرا تھا۔ وہ باہر نکلنے لگی‘ پھر رک گئی۔ غالباً اسے اندھیرے سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور اپنی زبان میں کچھ کہا ۔ میں خاموش رہا اور اسے دیکھتا رہا ۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی ۔ آخر تجسس خوف پہ غالب آگیا۔ وہ کرالنگ کرتی ہوئی باہر نکلی۔ اس نے ایک بہت اہم اور اپنی عمر کے لحاظ سے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ اس نے جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ میں نے یہ طے کیا کہ جہاں تک ممکن ہوا ‘ میں ہمیشہ اسے فیصلہ کرنے کی آزادی دوں گاتاکہ اس میں فیصلہ سازی کی صلاحیت پیدا ہو ۔ 
اپنے بچّے کو پانی سے کھیلنے دیجیے ۔ اسے میدان میں بھاگنے دیجیے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے ؟ اس کے جسم میں خدا نے بہت سی توانائی اور دماغ میں بہت سا تجسس رکھا ہے ۔اسی تجسس کی تسکین کے لیے اسے جو بھی نئی چیز نظر آتی ہے ‘ وہ اس کی طرف بھاگ اٹھتا ہے ۔ 
صابن بنانے والی کمپنیوں نے جراثیم کے خلاف ایک خوف کی فضا قائم کی ہے ۔ پہلے ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے صابن میں 5بیماری پھیلانے والے جراثیم کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے ‘ پھر پانچ سے یہ دس ہوئیں اور اچانک ہی 100ہو گئیں ۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو یہ جراثیم شاید 500 اور پھر 1000تک پہنچ جائیں ۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ اللہ نے ہر جاندار کی طرح انسان کے جسم میں بھی ایک چیز رکھی ہے‘ جسے قدرتی مدافعاتی نظام (Immune System)کہتے ہیں ۔ یہ کسی بھی جراثیم کے خلاف بھرپور اعلانِ جنگ کے لیے ہر وقت تیار ہوتاہے ۔اس کے علاوہ بچوں کے گلے میں خاص طور پر اللہ نے ٹانسلزنصب کیے ہیں ۔ اس لیے کہ ہر بندہ ان کا منہ چومتا ہے‘ تو جراثیم اندر نہ جانے پائیں ۔ اسی طرح ناک میں ریشہ رکھا گیا ہے کہ ہوا صاف ہو کر پھیپھڑوں میں جائے ۔ اسی طرح گردے خون کی مسلسل صفائی کرتے رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے نظام کام کر رہے ہیں ۔ مخلوق کو اتنا نہ ڈرائیں کہ سب کمروں کو اندر سے کنڈیاں لگا کر رضائی کے اندر گھس کر سوتے رہیں ۔ کچھ چیزیں آپ اس امیون سسٹم اور ٹانسلز وغیرہ کے سپرد بھی رہنے دیں ۔ یاد رکھیں کہ پچاس ہزار سال پہلے سے آدم زاد جنگلات میں زندگی گزارتے آرہے ہیں ۔ جب آپ کی کمپنی نے بنی نوعِ انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کام شروع بھی نہیں کیا تھا ۔ 
جو بچّہ بھاگتا نہیں ہے ‘ جو دوسرے بچوں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا نہیں ‘ کھیلتا نہیں ‘ اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما سست ہو جاتی ہے ۔ بچّے جب ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں‘ تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس وقت کیا ہورہا ہوتاہے ۔ ایک بچّے کا دماغ اپنے اندر ایک پوری کائنات ہوتی ہے ۔ انسانی دماغ دنیا کی سب سے پیچیدہ مشین ہے ۔ جب ایک دماغ دوسرے دماغ سے گفت و شنید کرتاہے‘ تو وہ بہت ساری چیزیں سیکھ لیتاہے ۔ یہ صرف ان کی اپنی عمر کا بچّہ ہی ان کو سکھا سکتاہے ۔ آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں ‘ آپ وہ چیزیں کبھی بھی نہیں سکھا سکتے ‘ اگر آپ تجربہ کرنا چاہتے ہیں‘ تو کر کے دیکھ لیں ۔اگر آپ کا دو سال کا بچّہ ایک چیز نہیں کھا رہا‘تو آپ کسی دوست یا پڑوسی کے اسی عمر کے بچّے کو اس کے سامنے بٹھا کر وہ چیز کھلائیں۔ 95فیصد کیسز میں آپ کا بچّہ بھی کھانا شروع کر دے گا ۔
ایک باپ کی حیثیت سے ‘ میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ اپنی بیٹی کو ایسے ٹاسک دوں گا ‘ جن میں اسے ذہانت استعمال کرنی پڑے ‘ دماغ سے کام لینا پڑے ۔ اسے بھاگ دوڑ کرنی پڑے اور فیصلے کرنے پڑیں ۔کسی بھی کامیابی پر اسے انعام دوں گا۔ کبھی کبھار ڈانٹنا بھی ضروری ہوجاتاہے ۔جب ایک بچّہ اپنا دماغ استعمال کرنا سیکھ لیتاہے ‘ جب وہ محنت کا عادی ہو جاتاہے ‘ تو پھر وہ زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہو جاتاہے ۔ 
ایک بہت ضروری چیز یہ کہ ناکامی کی صورت میں اسے اتنا حوصلہ دیں کہ وہ دوبارہ کوشش کے قابل ہو سکے۔ میری بھانجی رانیا کے سکول میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے آنا تھا ۔ ایک ہزار بچّے وہاں اکھٹے تھے اور ان میں سے ایک کو کامیاب ہونا تھا۔ 8سالہ رانیا ہار گئی ۔ اس ہار کے بعد وہ غم و غصے سے بھری ہوئی تھی ۔ میں نے کچھ دیر اس سے بات کی۔ اسے بتایا کہ بڑے بڑے لوگ زندگی میں کیسی کیسی ناکامیوں سے گزرے‘ لیکن انہوں نے دوبارہ ہمت کی ۔ آخر وہ اس جذباتی کیفیت سے نکلی اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ کوشش کرے گی ۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ ناکامی سے دلبرداشتہ بچّہ دوبارہ کوشش کرنے کا عزم کرے ۔ 
سب سے ضروری بات یہ کہ جب آپ کا بچّہ ایک کام کرنے کی کوشش کرر ہا ہو‘اسے کرنے دیجیے ۔ پہلے سے ہی جا کر یہ خوشخبری دینے کی ضرورت نہیں کہ وہ ناکام رہے گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہو سکتاہے کہ آپ کے اندازوں کے برعکس وہ کامیاب ہو جائے۔ اگر نہیں ہوتا تو کچھ نہ کچھ سیکھ تو ضرور جائے گا اور کچھ سیکھا ہوا ذہن بہت قیمتی ہوتاہے ۔ 
بہرحال‘ اپنی اولاد کو گود سے اتاریے اور اسے کچھ کرنے کی آزادی دیجیے ۔ جتنی زیادہ situationsسے وہ گزرے گا‘ اتنا زیادہ سیکھے گا۔اتنی زیادہ اس میں maturityآئے گی ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں