دنیا کی یہ زندگی ایک امتحان ہے ‘ یہ بات ہر پیغمبر ؑ نے انسانوں کو سمجھائی۔ اس امتحان کی نوعیت کیا ہے‘ situationsکیا ہیں ‘ کس کس طریقے سے انسان آزمایا جا سکتاہے ‘ یہ وہ بات ہے‘ جسے پڑھ کر سمجھنا زیادہ مشکل نہیں‘ لیکن اس پر عمل دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔یہ سطور لکھنے والا شخص بھی دس فیصد سے زیادہ اس پر عمل نہیں کر سکا ۔زندگی میں جو امتحان انسان کو درپیش ہے ‘ اس کی نوعیت یہ ہے کہ ہر انسان مختلف situationsسے گزارا جاتاہے ۔ ہو سکتاہے کہ دن بھر میں وہ بیس situationsسے گزرے ‘ پھر ان situationsمیں جس قسم کا وہ روّیہ اپنا تاہے ‘ اس کی بنیاد پر اس کے نمبر لگائے جاتے ہیں ۔ ان situationsمیں انسان کا صبر آزمایاجا رہا ہوتاہے ۔ یہ situationsروزمرہ زندگی میں ہم سب کے ساتھ پیش آتی ہیں اور ہم سب روزانہ کی بنیاد پر ان سے گزرتے ہیں ۔
میں گاڑی چلارہا ہوں ۔ سڑک تنگ ہے ۔ ایک وقت میں بمشکل دو گاڑیاں گزر سکتی ہیں اور دوسری طرف سے بھی ٹریفک آرہی ہے ۔ مجھ سے اگلی گاڑی والا بہت آہستگی سے ڈرائیونگ کر رہا ہے ‘ پھر مجھ پر انکشاف ہوتاہے کہ وہ موبائل فون پر کسی سے بات کر رہا ہے ۔ غصے کی ایک لہر میرے دماغ میں اٹھتی ہے۔ یہ غصہ کس قدر ہو سکتاہے ؟ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتاہے کہ وہ شخص کس حیثیت کا مالک ہے۔ اگر تو وہ رکشا ڈرائیور ہے‘ تو غصہ زیادہ آئے گا ۔ اگر وہ BMWیا لینڈ کروزر چلا رہا ہو تو کم آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاشعوری طور پر ہمارا نفس مدّمقابل کی حیثیت بالخصوص مالی حیثیت اور ظاہری خوبصورتی کا تعین کرتا رہتاہے ۔ اس کی بنیاد پر ہی وہ یہ فیصلہ کرتاہے کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے۔ جب نفس یہ دیکھتاہے کہ آگے والا شخص انتہائی قیمتی گاڑی میں سوار ہے‘ تو وہ قدرے احساسِ کمتری میں دب جاتاہے ‘ جبکہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے ‘ جنہیں دوسرے بندے کی مالی حیثیت سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو ۔ وہ صرف اہلِ علم و فضل ہی ہوسکتے ہیں ‘کم از کم میں جن میں شامل نہیں ۔ اسی طرح مرد حضرات‘ اگر یہ دیکھیں کہ اگلی گاڑی والا جو شخص الٹی سیدھی ڈرائیونگ سے انہیں ڈسٹرب کر رہا تھا ‘ وہ درحقیقت مرد نہیں بلکہ ایک حسین و جمیل عورت ہے ‘تو پھر زیادہ تر لوگوں کا غصہ نہ صرف ختم ہو جائے گا‘بلکہ ہو سکتاہے کہ وہ مسکرا بھی دیں ‘ جبکہ کالی رنگت اور بڑی مونچھوں والے رکشا ڈرائیور کو‘ جس نے بری ڈرائیونگ سے ان کو ستایا ہو‘ہو سکتاہے کہ وہ گزرتے گزرتے اسے گالی بھی دے جائیں ۔ یہ غصہ یقینا مد مقابل کی حیثیت کے مطابق پیدا ہوتا ہے ۔ Teen ageکا ایک لڑکا گھر سے نکلتاہے ۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کی ماں باہر آتی ہے ۔ اسے کہتی ہے کہ یہ دودھ کا ایک گلاس پی لو ۔بجائے شکر گزاری کے بہت سے لڑکوں کو اس طرح کی بات پر غصہ آجاتاہے ۔ اسی لڑکے کو اس کا باپ تحکمانہ لہجے میں گاڑی کا ٹائر بدلنے کو کہتاہے ‘ وہ چپ چاپ یہ کام کر دے گا‘ بلکہ مودب بھی رہے گا ۔
بے عقلی کی بات پر فوراً غصہ آتاہے ۔ لازماً ہر انسان کو روزانہ کی بنیاد پر ان لوگوں سے واسطہ پڑتاہے ‘ جو بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں ‘ بھلا کیوں ؟ اس لیے کہ آپ آزمائش سے گزر رہے ہیں ۔ اگر تو آپ خاموش رہ گئے یا بات ٹال دی یا بدل دی تو آپ کامیاب رہے ۔ اگر آپ نے غصے میں کوئی سخت جواب دیا تو پھر تکرار شروع اور یہ تکرار ہم سب روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ اس میں امیر غریب کی کوئی تخصیص نہیں ۔ اس لیے کہ آزمائش صرف غریب کی نہیں بلکہ ہر امیر کی بھی ہو رہی ہے ۔ یہ جو ماجرا پیش آتاہے کہ سامنے والا شخص ‘ جو کہ آپ کا قریبی عزیز ہے ‘ بے عقلی کی بات کر رہا ہے اور اس پر آپ کو غصہ آتا ہے ‘ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک خاص ڈیزائن اور منصوبے کے مطابق یہ سب کچھ پیش آرہا ہے ۔آپ کی زندگی کا ایک ایک دن اللہ نے ڈیزائن کیا ہے کہ اس میں آپ کو کیسی situationsسے گزارا جائے گا ۔ بیشتر صورتوں میں اگر انسان خاموش رہے ‘تو یہ سب کچھ ٹل سکتاہے ‘لیکن انسانوں میں یہ خصوصیت ‘ یہ رجحان اللہ کی طرف سے رکھا گیا ہے کہ ہر شخص دوسرے کو بتانا چاہتاہے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی لمبی سیاسی بحثیں ہوتی ہیں‘ ورنہ میں خاموشی سے عمران خان کو ووٹ دے آئوں اور میرا دوست نواز شریف کو ‘ کیا فرق پڑتاہے ؟ لیکن ایسا ہوگا نہیں ‘ وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ میں اسے قائل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اس دوران بظاہر بڑی برداشت ظاہر کرنے کے باوجود آہستہ آہستہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیڈر پر طنز کرتے کرتے آخر لڑ ہی پڑیں گے ۔ان سیاسی بحثوں کی اصل وجہ شاید یہ ہے کہ نفس میںدوسرے لوگوں پر غلبے کی خواہش /رجحان رکھا گیا ہے ۔
جیسا کہ پہلے لکھا ‘ کم عقلی کی بات پر تو غصہ آتاہے ‘ بد صورتی یا مالی طور پر کمتر شخص پہ فورا ً غصہ آتاہے ۔ اگر شکل و صورت یا مالی اعتبار سے کمتر شخص بے عقلی کی بات کرے‘ تو پھر دوگنا غصہ ۔ اسی طرح نا انصافی کی بات پر فوراً غصہ آتاہے ۔ لڑکوں میں ‘ جسے دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ دفعہ سودا سلف لانا پڑے ۔ بہنوں میں جسے زیادہ گھریلو کام کاج کرنا پڑے ۔ بہنوں سے بڑھ کر یہ مسائل نندوں اور بھابیوں میں دیکھنے میں آتے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ غصے اور جذباتی دبائو کی یہ کیفیات کس قدر شدید ہوتی ہیں ؟ جواب انسان کی استطاعت ‘ اس کی capacityسے کم ہوتی ہیں ‘ اگر وہ عقل کا ہاتھ تھام لے تو ۔ اگر عقل کا ہاتھ نہ تھاما جائے اور جذبات حاوی ہو جائیں ‘تو پھر یہ جذبات /جبلتیں اس قدر خوفناک ہیں کہ بقول ہمارے استاد کے عقل بیچاری ایک کونے میں چپ چاپ اور گم صم بیٹھی رہتی ہے ۔ قرآن یہ کہتاہے کہ اللہ کسی جان پر اس کی استطاعت (Capacity)سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ؛البتہ اگر کسی کا آخری وقت آگیا ہو اور اس نے اسی مسئلے کے دوران مر جانا ہو تو وہ ایک الگ بات ہے ۔
جو بات میرے جیسے انسانوں کی اکثریت آخر تک نہیں سمجھ پاتی ‘ وہ یہ ہے کہ جیسے ہمیں دوسروں کی باتیں کم عقلی اور نا انصافی کی لگتی ہیں ‘ بالکل اسی طرح ہماری بہت سی باتیں دوسروں کی نظروں میں کم عقلی اور نا انصافی کی باتیں ہوتی ہیں ‘ جس طرح ہم دوسروں کی باتوں پہ صبر کرتے ہیں ‘ اسی طرح وہ بھی ہماری حرکتوں پہ صبر ہی کر رہے ہوتے ہیں ۔
یہ بات یاد رکھیں اور دہراتے رہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک منصوبے کے تحت ہمیں مختلف situationsسے گزارا جا رہا ہے ۔ اس بات کو یاد رکھنے میں بھی بہت فائدہ ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آج نہیں تو چند برس کی محنت کے بعد آپ ان situationsمیں صبر اور خاموشی کے ساتھ گزرنے کے قابل ہوجائیں ‘ جو اللہ نے آپ کے لیے بطورِ امتحان createکی ہیں ۔