اگر تو الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ‘ جیسا کہ پیپلزپارٹی ‘ نون لیگ ‘ اے این پی اور ایم ایم اے کا موقف ہے‘ تو اس کی تحقیقات میں مجھ سے ضرور پوچھ گچھ کی جائے ‘ اس لیے کہ 25جولائی کے دن پہلا رزلٹ آنے سے گھنٹوں پہلے اپنا کالم میں نے روزنامہ دنیا کو بھیجا ‘اس میں تحریکِ انصاف کے لیے 100سیٹوں اور نون لیگ کے لیے 70نشستوں کا اندازہ ظاہر کیا گیا تھا‘تقریباً یہی رزلٹ سامنے آیا ۔ یہ میرا اکیلے کا اندازہ نہیں تھا‘ اکثر اندازے‘ زیادہ تر سروے یہی پیشین گوئی کر رہے تھے۔ سینیٹر طارق چوہدری نے اپنے ایک کالم میں الیکشن سے کئی روز قبل تحریکِ انصاف کے لیے 130سیٹوں کا اندازہ لگا یا تھا۔ابہام کسی کو بھی نہیں تھا ۔
اے این پی ‘ جماعتِ اسلامی اور پیپلزپارٹی والے اگرسچائی اور انصاف کے ساتھ پچھلے اور موجودہ انتخابات میں اپنی سیٹوں کا موازنہ کریں تو وہ کبھی دھاندلی کا نام نہ لیں۔ پیپلزپارٹی نے 2013ء میں 31سیٹیں جیتی تھیں ‘ جماعتِ اسلامی نے چار ‘ اے این پی نے2‘ جمعیت علمائے اسلام نے 11۔ اس کے باوجود پتہ نہیں کس منہ سے وہ دھاندلی کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں ۔ سب سے زیادہ حیرت جماعتِ اسلامی پر ہے ‘ جو کہ گزشتہ پانچ سال میں تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت تھی۔ پاکستان کاہر وہ شخص جو سیاست کی الف ب بھی سمجھتا ہے ‘ اسے معلوم ہے کہ جماعتِ اسلامی چار پانچ سیٹوں سے زیادہ جیت ہی نہیں سکتی‘ ہاں نون لیگ اگر یہ شکوہ کرے تو اسے زیب بھی دیتاہے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حیرت انگیز سچ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ نقصان‘ مخالف سیاسی پارٹیاں‘ اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور نہیں بلکہ اقتدار پہنچاتا ہے ۔ شریف برادران کو جنرل پرویز مشرف نے تحریری معاہدہ کر کے باہر بھیجا‘ وہ واپس آگئے ۔ دوبارہ اقتدار تک پہنچے ۔ بے نظیر بھٹو پر شریف خاندان اور مشرف نے مقدمے قائم کیے‘ بے نظیر کو قتل کر دیا گیا ‘لیکن پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی ۔ دوسری طرف جس جس کو ایک بار اقتدار ملتا گیا‘ اس کی بولتی بند ہوتی چلی گئی ۔پھانسی ملنے کے باوجود بھٹو زندہ رہا‘ اگر فوت ہوا تو زرداری صاحب کے بدترین دورِ حکومت کے نتیجے میں ‘ جب ترقی کی شرح دو فیصد رہی ۔گو کہ نواز شریف کی نا اہلی اور قید کی سزا قانونی طور پر بالکل درست ہے‘ لیکن یہی سزا اگر انہیں پانچ سالہ اقتدار سے قبل دی جاتی تو عوامی سطح پر اسے کبھی قبول نہ کیا جاتا ۔ بارِ دگر عرض کرتا ہوں ‘ شریف خاندان کے پاس اپنے حق میں کوئی ایک بھی ثبوت موجود نہیں تھا ‘ جبکہ میرے جیسا ایک عام سا شخص بھی اگر اپنی بینک سٹیٹمنٹ عدالت کے سامنے پیش کرے تو چھ سو باتیں تواس میں سے ثابت کی جا سکتی ہیں ۔
پانچ سالہ اقتدار کے نتیجے میں نا مقبولیت کی سزا دینے میں پختونخوا والے پورے ملک سے آگے رہے ‘ 2003ء میں انہوں نے ایم ایم اے کو حکومت دی ‘ 2008ء میں اے این پی اور 2013ء میں تحریکِ انصاف کو ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانچ سالہ اقتدار کے باوجود کپتان کی مقبولیت وہاں کم نہیں ہوئی ‘ 2018ء کا الیکشن وہ جیت گیا ‘ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔پانچ سال پہلے بہت سارے تجزیہ کاروں کی رائے یہ تھی کہ پختونخوا میں غیر معمولی اکثریت کے بغیر ملنے والی صوبائی حکومت درحقیقت ایک بہت بڑا ٹریپ تھا‘ جس کا مقصد عمران خان کو ناکام ثابت کرنا تھا۔ کہاں گیا وہ ٹریپ؟
رہا نون لیگ کا یہ شکوہ کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ اس کے لیڈر کو نا اہل کیا گیا‘ سزا دی گئی‘ تو عرض یہ ہے کہ سب سے بڑے قصور وار تو نواز شریف خود ہیں ۔ اپنی دولت انہوں نے بیرونِ ملک رکھی ‘ اولاد کو باہر بھجوایا‘ اپنی ہر عید باہر منائی ۔ اگر تو 2013ء میں اقتدار ملنے کے بعد نواز شریف یہ اعلان کرتے کہ نا مساعد حالات میں اپنی دولت انہیں بیرونِ ملک منتقل کرنا پڑی‘ اب برسرِ اقتدار آنے کے بعد وہ اپنی ساری دولت پاکستان لائیں گے‘ بلکہ اس میں سے کچھ فلاحی کام بھی کریں گے ‘ ا س کے بعد ملک کے عوام نواز شریف کی حمایت میں سڑکوں پر ہوتے ‘ ان کا ہر جرم بھلا دیا جاتا‘ لیکن جس شخص کی ساری زندگی ہی دولت اکھٹی کرنے کے گرد گھومتی ہو ‘ وہ بھلا اتنی ہمت کر سکتاہے ؟نواز شریف میں کبھی بھی اتنی قابلیت نہیں تھی کہ اقتدار میں رہتے ہوئے مقبول رہ سکیں ۔ اس کے مقابلے میں طیب اردوان کو دیکھیں تو ایک ہزار کمروں کا محل اس نے بھی تعمیر کیا ‘لیکن ایک عام شخص ان کی حکومت سے اتنا خوش رہا کہ لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ۔ نواز شریف کو ملنے والی سزااگر غلط تھی تو خلقِ خدا نے 25جولائی کے الیکشن میں اسے مسترد کیوں نہیں کیا؟ صاف جواب یہ ہے کہ سی پیک کے باوجود نواز شریف ایسا کچھ نہیں کر سکے جس کے نتیجے میں ایک عام شخص ان کی خاطر باہر نکلے۔ نسل درنسل نواز شریف کو ووٹ ڈالنے والوں کی بات دوسری ہے ۔ مذہبی جماعتوں ‘ بالخصوص جماعتِ اسلامی کی شکست کی جتنی بھی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں ‘ وہ ثانوی ہیں ۔ اصل سبب میں اگلے کالم میں عرض کروں گا ۔
الیکشن کے روز آر ٹی ایس ڈائون ہونے کے نتیجے میں ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ۔ اصل قصور وار کون تھا؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ امریکہ کے الیکشن میں بھی سسٹم ہیک ہونے کی بات کی گئی ۔ اصل سبب یہ ہے کہ الیکشن کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کی پہلے سے پریکٹس کی جا سکے ۔ آپ ایک حلقے میں آزمائشی پولنگ کر سکتے ہیں ‘ پورے ملک میں کون کر سکتاہے ؟ جس طرح جنگ لڑنے کی محدود سی مشقیں کی جا سکتی ہیں‘ لیکن ملک گیر پیمانے پر اصل جنگ تو تب ہی لڑی جا سکتی ہے ‘ جب دشمن آپ پر ٹوٹ پڑے ۔ 84ہزار پولنگ سٹیشنوں سے نتائج انٹرنیٹ کی مدد سے حاصل کرنا‘ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ایک ہی روز میں کروڑوں لوگوں کی ٹریفک آنا‘ عام دنوں میں اس کی آزمائش نہیں کی جا سکتی ۔ آزمائش کے لیے کہاں سے لائیں گے دو تین کروڑ صارف ؟ بہرحال الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ فیصلہ قابلِ ستائش ہے کہ آئی ٹی ماہرین کی کمیٹی آر ٹی ایس ڈائون ہونے کی تحقیقات کرے گی ۔ سسٹم کو بہتر بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو‘ لیکن بہرحال یہ مدنظر رہے کہ کسی بھی ملک گیر سرگرمی کی ایک خاص حد تک ہی مشق کی جا سکتی ہے ۔
میری رائے میںکوئی بھی دھاندلی نہیں ہوئی ۔ آر ٹی ایس ڈائون ہونے سے پہلے بھی تحریکِ انصاف جیت رہی تھی اور بعد میں بھی ۔ نیز یہ کہ نون لیگ کے علاوہ جتنی بھی پارٹیاں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں ‘ وہ پچھلے الیکشن میں اس سے بھی کم سیٹیں جیتی تھیں ۔ پھر یہ سب لوگ کیوں اکھٹے ہو کر تحریکِ انصاف کے خلاف شور مچا رہے ہیں؟ کیا ان سب کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ماضی میں بڑے پیمانے کی کرپشن کی تحقیقات نہ شروع ہو جائیں ؟ ملک میں کہیں حقیقی احتساب نہ شروع ہو جائے ؟ بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ کپتان ان سب کا مشترکہ اور اصل دشمن ہے ۔ سب مل کر تحریکِ انصا ف کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ پرانی روایتی سیاست بحال ہو سکے ۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان نے بہت سا کچرا اپنے پاس اکھٹا کر لیا ہے‘ لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کی نظر میں وہ کسی بھی وقت کوئی بھی اقدام اٹھا سکتاہے ۔ اس کا کوئی بھروسہ نہیں !