"FBC" (space) message & send to 7575

منصوبہ ساز

انیسویں صدی کے آغاز میں سویت ریاست الاگیر کے اس قصبے میں پیش ہونے والا مقدمہ تاریخ کا ایک منفرد ترین کیس تھا۔قصبے والوں نے ایک مقامی باکسر پر مقدمہ کیا تھاکہ اس نے قصبے کی خوشحالی سے متعلق منصوبوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ 
اس قصے کا آغاز 42سال پہلے ہوا تھا‘ جب اچانک نمودار ہونے والے ایک اجنبی نے قصبے کو بدل کے رکھ دیا تھا۔ اس کا نام ایغور پاشا تھا ۔ایک دن اچانک اپنی چمچماتی کار میں وہ نمودار ہوا تھا ۔ اس کے پاس دولت کے انبار تھے ۔اس کی آنکھوں میں زندگی تھی ۔ وہ توانائی سے بھرپور تھا ۔ آتے ساتھ ہی لاکھوں کی لاگت سے اس نے پورے قصبے کی بھرپور ضیافت کی ۔ قصبے کی تاریخ میں یہ آج تک کی سب سے شاندار ضیافت تھی ۔ اس کی عمر ساٹھ سال تھی ۔ حیرت میں ڈوبے لوگ ایغور پاشا کے بارے میں جاننا چاہتے تھے ۔ 
آخر ضیافت کے اختتام پر وہ سٹیج پر آیا۔ اس نے کہا : دوستو! کچھ نہ پوچھو۔ یہ بھی نہ پوچھو کہ میں کہاں سے آیا ہوں ۔بس یوں سمجھو کہ تقدیر تم پہ مہربان ہوئی ہے ۔ ایغور پاشا کی شکل میں ایک بہت بڑا منصوبہ ساز خود چل کر تمہارے پاس آیا ہے ۔ اس سے فائدہ اٹھائو ‘ اس سے پہلے کہ وہ کسی اور سرزمین کی طرف چل پڑے ۔ 
آنے والے دنوں میں قصبے والوں کو معلوم ہوا کہ اجنبی کا دماغ منصوبوں سے بھرپور تھا۔ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ تھی ۔ وہ پہاڑوں اور وادیوں کو کسی اور ہی نظر سے دیکھ رہا تھا ۔ اس کے پاس اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار رقم موجود تھی ۔ ایک سال وہ اس قصبے میں مقیم رہا۔ اس ایک سال کے اختتام پر وہاں دو چھوٹے ڈیم بن چکے تھے ۔ بجلی مقامی طور پر پیدا کی جا رہی تھی اور بہت سستی تھی ۔ زمین ہموار ہو چکی تھی ۔ چھ کوئلے کی کانیں کھودی جا چکی تھیں ۔ قصبے کی معیشت فروغ پذیر تھی ۔یہ سب کچھ اس نے اس طرح سے ڈیزائن کیا تھا کہ اپنی جیب سے لگائی ہوئی رقم ایک ہی سال میں وصول بھی کر لی تھی ‘ پھر ایک صبح جب قصبے والے اٹھے تو وہ جا چکا تھا۔اسے ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی‘ لیکن بے سود۔
22 برس گزر گئے ۔ ایک دن اچانک وہ دوبارہ نمودار ہوا۔82برس کی عمر میںاس کی کمر قدرے جھک گئی تھی۔ بال کافی حد تک جھڑ چکے تھے ۔ بہرحال قصبے کا محسن لوٹ آیا تھا۔ ہر طرف ایک ہنگامہ برپا تھا ۔ ایک جلوس کی شکل میں اسے گلیوں سے گزارا جا رہا تھا۔ 
اس کا منصوبہ ساز دماغ بھرپور کام کر رہا تھا۔ اس کی بصیرت بڑھ چکی تھی ۔ آٹھ ماہ پہ مشتمل اس کا یہ دورہ پچھلی دفعہ سے بھی زیادہ شاندار ثابت ہوا تھا۔ قصبے میں تعلیمی ادارے اور آئی ٹی کا ایک کالج بنانے کے علاوہ اس نے چار بڑے ہوٹل تعمیر کیے ۔ ہائی وے پر ان کی مشہور تشہیر کی ۔ قدرتی مناظر سے بھرپور تین پکنک سپاٹ تعمیر کیے ۔ یوں یہ علاقہ ملکی سطح پر سیاحت کا ایک بھرپور مرکز بن گیا ۔ قصبے والے اچھے خاصے دولت مند ہو چکے تھے ۔ایک صبح اچانک وہ دوبارہ غائب ہو گیا۔ 
بیس سال پھر ایک دن اچانک وہ نمودار ہوا۔ دیکھنے والے ششدر رہ گئے ۔ وہ بے حد بوڑھا ہو چکا تھااور بمشکل تمام چند قدم چل سکتا تھا۔ اس دفعہ خرابی یہ ہوئی کہ سب سے پہلے قصبے کے مشہور باکسر ایڈم کی اس سے ملاقات ہوئی۔پورے علاقے میں ایڈم کی ایک دھاک تھی ۔ ایک سازش کے تحت ایڈم نے بوڑھے پر قبضہ کر لیا۔ اسے اپنے گھر لے گیا۔ کئی ماہ تک وہ وہیں قیام پذیر رہا۔ 
بوڑھے پاشا کے ذہن میں کیا منصوبے تھے‘ یہ جاننے کے لیے قصبے میں شدید بے چینی پائی جاتی تھی ۔ ایڈم کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بوڑھے کو دیکھنا چاہے ‘تو کھڑکی کے پار کھڑے ہو کر اسے دیکھ سکتاہے ۔ بات کرنے کی اجازت نہیں کہ ارتکاز کرنے کے لیے اسے سکون اور تنہائی کی ضرورت ہے ۔ بوڑھے کے پاس کاغذوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھااور پنسل اٹھائے وہ کچھ بنا تا رہتا تھا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ وہ کسی بہت بڑے منصوبے پر کام کر رہا تھا ۔
یہ سلسلہ سات ماہ تک چلتا رہا ؛حتیٰ کہ ایک شام بوڑھے کی موت ہو گئی ۔ یہاں سے ایک ہنگامے نے جنم لیا ۔ہزاروں لوگ ایڈم کے گھر کے باہراکھٹے ہوئے ۔ بھرپور نعرے بازی ہوتی رہی ۔ معاملہ عدالت میں گیا۔ اس مقدمے کا مدعا یہ تھا کہ ایڈم نے بوڑھے کا آخری عظیم الشان منصوبہ قصبے والوں سے چھپایا ۔ وہ مستقبل میں خود اس منصوبے پر کام کرکے اربوں کمانا چاہتا تھا ۔
ایڈم نے وہ تمام دستاویزات عدالت میں پیش کیں ‘ جن پر بوڑھاآخری دنوں میں کام کر رہا تھا۔ یہ آڑھی ترچھی لکیروں سے بھرے ہوئے کاغذ تھے‘ جن سے کچھ بھی اخذ کرنا ممکن نہیں تھا‘پھر اس نے اپنا بیان ریکارڈ کرانا شروع کیا۔ ایڈم کہتاہے : 23اکتوبر کی شام اس نے بوڑھے کو قصبے کی قریبی شاہراہ پہ گاڑی میں سوتے ہوئے دیکھا۔ اب یہ منصوبوں اور توانائی سے بھرپور ایغور پاشا نہیں‘ بلکہ ایک 102سالہ بوڑھا تھا۔جسم کی ایک طرف فالج کے اثرات دکھائی دے رہے تھے ۔ 
ایڈم جاننا چاہتا تھا کہ ایغور پاشا نے اس دفعہ کن منصوبوں کے ساتھ قصبے کا رخ کیا ہے ۔ کئی گھنٹے تک وہ اس سے بات چیت کرتا رہا۔ اس گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ اس کے پاس کوئی بھی منصوبہ نہیں تھا۔ اس پہ بڑھاپا غالب آچکا تھا۔ اس کی باتوں سے دانش ختم ہو چکی تھی ۔بھرپور کوشش کے بعد جو منصوبے ‘اس نے پیش کرنے کی کوشش کی‘ وہ بچگانہ تھے ۔ 
ایڈم کو اس پہ ترس آیا ۔ چار دہائیاں پہلے اس کے اپنے خاندان کی زندگی میں ایغور پاشا کی وجہ سے ہی انقلاب آیا تھا۔ ایڈم کا ذہن بہت گہرائی میں سوچ رہا تھا۔ ایغور پاشا کی حالت خراب تھی ۔ وہ امید بھری نظروں سے ایڈم کی طرف دیکھ رہا تھا۔
یہی وہ وقت تھا‘ جب ایڈم نے سب معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا :قصبے والوں کو اگر معلوم ہوا کہ تمہارے پا س کوئی منصوبہ نہیں‘ تو ایک ٹکے کی عزت بھی تمہیں ملے گی نہیں۔ جن گلیوں میں تمہیں کندھوں پر اٹھا کر جلوس نکالے جاتے تھے‘ وہیں بچّے تمہیں پتھر ماریں گے ۔ ہمیں یہ مشہور کرنا پڑے گا کہ تم ایک منصوبے پر کام کر رہے ہو۔اس کے لیے تمہیں سکون اور تنہائی کی ضرورت ہے ۔ وہ اسے اپنے گھر لے گیا۔ اسے بہت سارے کورے کاغذ اور قلم دیا ۔ وہ بیٹھا ان پہ لکیریں لگاتا رہتا۔ کبھی کبھار وہ چھت پر جاتا ‘ جہاں امید بھری نظروں والے مظاہرین اسے دیکھ کر تالیاں بچاتے ۔ وہ مسکراتا‘ ہاتھ ہلاتا اور واپس اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ 
مقامی جج کے خاندان کی زندگی بھی پاشا ہی کی وجہ سے بدلی تھی ۔اس نے فیصلہ یہ دیا کہ ایڈم نے عقل و حکمت سے بھرپور طرزِ عمل اختیار کیا ۔ قصبے والوں کو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ان کے بوڑھے محسن کو زندگی کے آخری ایام عافیت سے گزارنے کا موقع دیا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں