بیماری کیا چیز ہے ؟ ہمارے جسم کا کوئی نہ کوئی عضو اپنا کام کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے ۔ گردے خون صاف کرنا چھوڑ دیں یا دل کے دھڑکنے کی قوت میں کمی آجائے ۔ بیمار شخص زندہ لاش کی طرح ہوتاہے ۔اس کی پوری توانائی اپنے آپ کو زندہ رکھنے میں صرف ہو رہی ہے اور اپنے جسم کے زندگی برقرار رکھنے والے (life sustaining)افعال کو جاری رکھنے میں ۔ وہ زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ وہ دوڑ نہیں سکتا ‘ کھیل نہیں سکتا۔ اسے مذاق پہ ہنسی نہیں آتی ۔ ٹھنڈی ہوا اسے اچھی نہیں لگتی ۔جب وہ دوسروں کو ہنستے کھیلتے ‘ زندگی سے لطف اندوز ہوتے دیکھتا ہے ‘تو اس کا دل اُداس ہو جاتا ہے ۔
اگر تو یہ بیماری عارضی ہو تو ایک نہ ایک دن زندگی اس کے بدن میں لوٹ آتی ہے ‘لیکن کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں ‘ جو ساری زندگی ختم نہیں ہوتیں۔ عمر بھر کی بیماری (Lifelong Disease)کیا ہوتی ہے ؟ یہ ایک ایسی بیماری ہے ‘ جو زندگی بھر انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ ساتھ تب ہی چھوڑتی ہے ‘ جب وہ قبر میں اترتا ہے ۔ان بیماریوں میں سے ایک پارکنسن ہے ۔ اس بیماری میں انسان کا سینٹرل نروس سسٹم (دماغ جمع ریڑھ کی ہڈی ) اس طرح سے متاثر ہوتاہے کہ اسے حرکت کرنے میں بے حدس دقت محسوس ہوتی ہے ۔ یہ بیماری وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ قوت پکڑتی چلی جاتی ہے ؛ حتیٰ کہ وہ وقت آتا ہے ‘ جب محمد علی جیسے باکسر کو بولنے اور گلاس اٹھانے میں دقت پیش آنے لگتی ہے ۔ وہ شخص جو کبھی تیز دوڑ سکتا تھا‘ بمشکل آہستہ آہستہ چلنے لگتا ہے ۔ جسم میں لرزش بھی شروع ہو جاتی ہے ۔ پارکنسن کا درد وہی محسوس کر سکتا ہے ‘ جسے خود یہ اذیت ناک بیماری لاحق ہو یا وہ شخص ‘ جس کے اہل وعیال میں سے کوئی اس کا شکار ہوا ہو ۔سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی بیماری کا درد‘ اُس کا شکار ہی جان سکتا ہے ۔
اسی طرح ایک بیماری ہے؛ گنٹھیا ۔ اس میں جہاں جہاں دو ہڈیاں آپس میں ملتی ہیں ‘ ان کے جوڑدرد کرنے لگتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ جوڑ سخت ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ نا صرف یہ کہ مریض تکلیف میں مبتلا رہتاہے ‘بلکہ آہستہ آہستہ کلائی اور دوسرے جوڑوں کو حرکت دینا مشکل ہوتا چلا جاتاہے ۔ گوشت ختم ہونے لگتاہے؛حتیٰ کہ ٹانگیں اور بازو سوکھی ہوئی لکڑیوں جیسے ہوجاتے ہیں ۔
life longبیماریوں میں اکثر اوقات مریض کی پوری زندگی متاثر ہوتی ہے ۔ بعض اوقات اس بیماری کی وجہ سے اس سے کوئی شادی کرنا پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنے دوستوں کو ‘ اپنے رشتے داروں کو شادی کرتا اور اپنے بچوں سے کھیلتے دیکھتا ہے ۔ وہ انہیں بھاگتے دوڑتے‘ منصوبے بناتے اور ان پہ عمل درآمد کرتا ہوا دیکھتا ہے ۔وقتی طور پر وہ اداس ہو جاتا ہے ‘لیکن بہرحال اسے خود پہ قابو پانا ہوتاہے ۔
بعض اوقات بچہ پیدا ہی بیمار ہوتا ہے ۔اس کے دماغ اور جسم کی growthبہت سست ہوتی ہے ۔ ا س کے ساتھ کے بچے فر فر باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ وہ سکول جاتے ہیں ‘ کھیلتے کودتے ہیں ۔ ادھر یہ معصوم بیمار بمشکل اٹک اٹک کر چند الفاظ ہی بول سکتا ہے ۔ اسے رفع ء حاجت کے لیے بھی اپنے والدین کی مدددرکار ہوتی ہے۔اکثر صورتوں میں اس کی شادی نہیں ہو سکتی ۔
حیرت انگیز طور پر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ بیمار لوگ اور ان کے والدین زندگی سے اور خدا سے شکوہ کرتے ہوئے نہیں پائے جاتے‘ بلکہ صحت مند لوگ ان کی نسبت اپنے نصیب سے کہیں زیادہ شاکی ہوتے ہیں ۔ میں چار ایسے لوگوں سے ملا ہوں ‘ جن کی اولاد ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار تھی ۔ ان چار میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا ‘ جو بیٹھا رو رہا ہو یا حد درجہ جذباتی کیفیت میں زندگی گزار رہا ہو‘ جبکہ میں زندگی میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا ہوں ‘ جو کہ ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند تھے‘ لیکن کسی محرومی کی وجہ سے ‘ وہ مسلسل جذباتیت کا شکار تھے ۔ بہرحال lifelongبیماری سے گزرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ انسان کی پوری زندگی شدید متاثر ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ دو تین عشرے تک کسی بیماری کی دوا کھانے والے کے گردے یا جگر خراب ہو جاتا ہے۔ یوں وہ جوانی ہی میں موت کی طرف بڑھ جاتا ہے ۔
ذہنی و جسمانی طورپر معذور بچوں کے والدین ان سے صحت مند بچوں کی نسبت کہیں زیادہ محبت کرنے لگتے ہیں ۔ یہ بچہ اپنی تکلیف کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ نہیں رکھتا‘لیکن ان کے والدین خصوصاً ماں اس کے چہرے کے تاثرات سے ہی سب کچھ سمجھ جاتی ہے ۔ اس بچّے کی ضروریات کا خیال دوسروں سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے ‘ور نہ جانوروں ‘ خصوصاً پرندوں میں جو بچّہ کمزور اور بیمار ہوتاہے ‘ والدین اسے نظر انداز کر کے اپنی پوری توجہ صحت مند بچّے پہ مبذول کردیتے ہیں ‘ جس کے surviveکرنے کے امکانات بیمار بچّے کی نسبت کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔
بہت سی بیماریاں ایسی بھی ہیں ‘ جنہیں ہم بیماری سمجھتے ہی نہیں ؛حالانکہ ہر وہ خواہش‘ جو اپنی حدود سے باہر ہو‘ وہ بھی بیماری کے زمرے میں آتی ہے‘مثلاً :دولت اکھٹی کرنے کی لا محدود خواہش ‘ جس کے لیے بندہ اپنا زیادہ تر وقت صرف کرنے لگتا ہے ۔ اسی طرح جب کسی کو دوسروں پہ اپنی Dominanceثابت کرنے کا بھوت سوار ہو جائے‘ توپھر وہ ہمیشہ لوگوں سے الجھتا رہتا ہے ۔ اگر اس دوران لوگ ان کا یہ مباحثہ دیکھ رہے ہوں‘ تو پھر انا کی یہ جبلت تنہائی والے مباحثے سے کہیں زیادہ طاقتور ہو کر لڑائی پہ اکساتی ہے ۔غالباً حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ جس نے اپنے دوست کو تنہائی میں نصیحت کی‘ اس نے اسے سنوار دیا اور جس نے محفل میں نصیحت کی ‘ اس نے اسے اور بگاڑ دیا ۔ خیر ‘ اپنی بات پر داد سمیٹنے کی یہ خواہش ‘ جسے فیس بک نے اب سائنسی بنیادوں پہ استوار کر دیا ہے ‘ یہ بھی تو ایک بیماری ہی ہے اور چھوٹی موٹی نہیں ‘ بہت بڑی بیماری ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے ‘ جو کہ انسان کو ہمیشہ باقی رہنے والی دشمنی تک لے جا سکتی ہے ۔ جن صوفیا نے نفس کو پڑھا ‘ انہوں نے ہمیشہ اس پہ نظر رکھی اور اپنے طرزِ فکر کو کبھی داد وصولی پہ منحصر نہیں ہونے دیا۔ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ لالچ ‘ حسد‘ بغض اور لوگوں کوزبردستی اپنے نظریات پہ قائل کرنے کی خواہشات بھی بیماری کے زمرے میں آتی ہیں ۔
بات ہو رہی تھی lifelongبیماریوں کی‘ جو لوگ عمر بھر کی بیماری سے گزر رہے ہیں ‘ کبھی ان کی زندگی پہ ایک نظر ڈالیے اور پھر اپنا جائز ہ بھی لیں ۔اس درجہ miseryکہ ہم لوگ جس میں اپنی زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ زندگی سے ہمارے شکوے ختم ہونے میں نہیں آتے‘ پھر ایسا کیوں ہے کہ یہ بیمار لوگ صحت مند لوگوں کی نسبت کہیں صابر ہیں ؟ اصل میں blessedکون ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہم ہی بیمار ہیں؟