خدا نے جب انسان کو ایک سیارے میں رہائش پذیر کر کے آزمائش سے گزارنے کا فیصلہ کیا تو اس زمین پر طرح طرح کے جانور پیدا کیے۔ انسان ان پہ کاٹھی ڈال لیتاہے ‘ وزن اٹھواتا ہے ، ان کا دودھ پیتا اور گوشت کھاتا ہے ۔ان جانوروں کو سمجھ بوجھ اس قدر کم دی گئی ہے کہ وہ اس استحصال پر غمزدہ نہیں ہوتے بلکہ پابندی سے راتب ملنے پر خوش رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس کسی انسان کا ذرا سا استحصال کر کے دیکھیں،باقی ساری زندگی وہ آپ کے خلاف تحریک چلاتا رہے گا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کس طرح خدا نے انسان کی ضرورت کی اشیاء زمین میں پیدا کیں اور کس طرح ایک شے کی کثرت اس کی قدر کو کم کر دیتی ہے ۔خاص طور پر ایسے لوگ جو جانور پالتے ہیں ، انہیں ایسی ایسی observation میسر آتی ہے کہ جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ان میں سے انتہائی اہم چیز ہے جانوروں کی فطرت۔اونٹ، کتا، بلی، بھینس اور بکرے کی نفسیات ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوتی ہیں ۔ اگر اونٹوں میں کتے والی خصلت ہوتی ، اگر وہ گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے، اگر ان کے دانت اور ناخن نوکدار ہوتے تو انسان کے پاس انہیں کرّہ ء ارض سے مکمل طور پر ختم کر ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ بلی بھاگ کر دیوار اور چھت پہ چڑھ جاتی ہے۔نئی نئی ماں بننے والی بلی اور کتیا انتہائی aggressiveہوتی ہیں،جبکہ میں نے ایک بھینس کو دیکھا جس نے چند گھنٹے قبل کٹی پیدا کی تھی ۔ بھینس کا مالک کٹی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ دودھ کا پہلا گھونٹ پی سکے۔ بھینس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کی کٹی کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے ۔ اسے گڑ بڑ محسوس ہو رہی تھی ۔ گو کہ کٹی کو کھڑا کرنے والے سے وہ مانوس تھی لیکن اپنی کٹی کو ہلاتے جلاتے دیکھ کر وہ بے چینی سے پائوں زمین پر مار رہی تھی ۔ اس کی جگہ اگر بلی ہوتی تو اس نے تو آگے بڑھ کر پنجہ مار دینا تھا ۔ بھینس جتنی جسامت کے جانور اگر تیز نوکدار پنجوں اور دانتوں کے مالک ہوتے اور اگر ان میں اس طرح کی تیزی پائی جاتی جیسی بلیوں میں ہوتی ہے تو اندازہ ہی کیا جا سکتاہے کہ وہ انسانوں کا کیا حال کرتے ۔
اسی طرح بکروں کی اپنی فطرت ہے ۔کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ یہ جاندار چیزوں کی کثرت ہے ، جس نے انہیں اتنا کم قیمت بنا دیا ہے ‘ ورنہ انسان کبھی زندہ چیزوں کو affordنہ کر سکتا۔ ہم روزانہ بکرے ذبح کر کے کھا جاتے ہیں ‘حالانکہ بکرا تو کجا ، اس کی کھال بھی اگر لیبارٹری میں بنانا پڑتی تو لگ پتہ جاتا۔اس کھال میں touchکا احساس ہے ۔ جہاں سے بھی اس کھال پر انگلی رکھیں، دماغ کو پتہ چل جاتاہے ۔ اس کھال میں ایک ہلکا سا کٹ بھی درد پیدا کرتا ہے ۔ سمجھ بوجھ نہ ہونے کے باوجود جانور احتیاط کرتاہے ۔ اگر ٹانگ میں چوٹ ہو تو عارضی طور پر اس ٹانگ کو استعمال کرنا چھوڑ دیتاہے ‘حتیٰ کہ زخم مندمل ہو جاتاہے ۔اس کھال کی اہمیت کا پوچھنا ہے تو ان سے پوچھیں ، جو کہ روبوٹس پہ کھال چڑھا رہے ہیں ۔
سردی کا موسم آتا ہے تو منڈیوں میں جانوروں کی قلت ہونے لگتی ہے ۔ پہاڑی اور برفانی علاقوں کی منڈیاں بند ہو جاتی ہیں ۔پنجاب اور میدانی علاقوں پر زیادہ بوجھ آجاتاہے ۔ جانوروں کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں ۔ اب قصاب بکروں کے ساتھ ساتھ نوجوان بکریاں بھی ذبح کرنے لگتے ہیں ۔ نوجوان بکری کو یہ لوگ ''پٹھ‘‘ کہتے ہیں ۔ اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے اور جو اس کا عادی ہو جائے تو یہ اسے بکرے سے بھی زیادہ لذیذ لگتا ہے ۔ بندہ ایک دفعہ سوچے تو حیران رہ جاتا ہے کہ اس نوجوان بکری میں بچہ دانی نصب ہے ۔ اسے نسل بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نا کہ گوشت کے لیے ۔ اس بچہ دانی کی قیمت اربوں ڈالر میں بھی لگائی نہیں جا سکتی‘ لیکن صرف اور صرف کثرت کی وجہ سے وہ بکروں جتنی ہی قیمت بلکہ اس سے کچھ کم میں دستیاب ہوتی ہیں ۔ انہیں بے دریغ ذبح کر دیا جاتا ہے ۔
اسی طرح جب آپ تحقیق کریں تو پتہ چلتاہے کہ گھروں میں جو بھینس کا دودھ سپلائی کیا جاتاہے ، اس میں کم از کم پچاس فیصد گائے کا دودھ شامل ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ بھینس سال میں صرف چند مہینے دودھ دیتی ہے اور وہ بھی بمشکل دس بارہ کلو۔بہت اعلیٰ نسل کی بھینس بیس کلو تک دودھ دیتی ہے ‘ جبکہ گائے میں دودھ بہت زیادہ ہوتاہے ۔ وہ حمل کے آخری دن تک دودھ دے سکتی ہے ، گوکہ آخری دو ماہ میں اسے دوہنا نہیں چاہیے ۔ گائے کی بچھڑی بہت تیزی سے بڑی ہوتی ہے ۔ یہ 9، 10ماہ میں بالغ ہوجاتی ہے اور ڈیڑھ برس کی عمر میں ماں بن جاتی ہے ۔ کٹی تو بلوغت تک پہنچتے پہنچتے دو تین سال آرام سے لگا دیتی ہے ۔ گائے کا دودھ مارکیٹ میں فروخت نہیں ہو سکتا۔ اس کا رنگ قدرے زرد ہوتاہے اور یہ پتلا ہوتاہے ۔ اس لیے جو لوگ ایمانداری سے دودھ فروخت کر رہے ہیں ، وہ بھی بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ تو لازماً ملاتے ہیں ورنہ اتنی بڑی انسانی آبادیوں کی ضرورت بھینس کبھی بھی پوری نہ کر سکتی۔ بھینس کا دودھ بالکل سفید ہوتاہے ۔اسے گایوں کے دودھ کو گاڑھا کرنے اور اسے سفید رنگت عطا کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ۔ یہ تو ان لوگوں کی بات ہے جو کہ ایماندار ی سے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اور جو لوگ دودھ میں پانی اور کیمیکلز ملاتے ہیں ، ان سے پناہ ہی مانگی جا سکتی ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ چند صدیوں میں کرّہ ء ارض پہ انسانی آبادی اس قدر تیز رفتاری سے بڑھی ہے کہ اب خالص خوراک تک رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے ۔ تیزی سے وزن بڑھانے والے کیمیکلز کھانے والے جانور اور تیزی سے بڑی ہونے والی فصلیں خراب دودھ ‘ پیزے ، برگر، جنک فوڈ ، چینی اور مایونیز سے بھرپور بیکری کی چیزیں اور ایسی کولڈ ڈرنکس جن کے ایک ایک گلاس میں بیس بیس چمچ چینی شامل ہوتی ہے ۔ انسان کھاتے جا رہے ہیں ، پھیلتے جا رہے ہیں ۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ کم عمر لڑکے لڑکیوں کے علاوہ تقریباً ہر بندہ موٹاپے کا شکار ہو رہا ہے ۔ سوائے ان کے جن کے جینز میں دبلا پتلا رہنا لکھا ہوا ہے ۔
جانوروں میں بہت بڑی نشانیاں موجود ہیں ۔ گو کہ حیاتیاتی طور پر انسان اور بھینس میں کوئی خاص فرق نہیں ۔آپ بے شک دل، گردے، جگر ، جلداور ریڑھ کی ہڈی کو دیکھ لیجیے ۔ سب ایک جیسا ہے ۔ اس کے باوجود انسان کہاں اور بھینس کہاں ۔ انسان کہاں اور باقی سب کہاں۔ اس کے علاوہ آپ دودھ کو دیکھیں تو ششدر رہ جاتے ہیں ۔ دودھ میں بہت بڑی نشانی ہے ۔ دودھ ہے کیا۔کیسے ایک جاندار کے جسم میں پیدا ہونے والی توانائی اس کے بچے اور انسان کے کام آتی ہے ، کیوں نہ اس پر لکھا جائے ؟
حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر اس زمین پر تنہا ہوتا تو اکتا جاتا ۔ انجن تو ابھی کل ایجاد ہوا ہے ۔ ہزاروں برسوں تک ہمارا وزن ان جانوروں ہی نے تو اٹھایا ہے۔ تتلی، جگنو، بلی اور یہ رنگا رنگ مخلوقات اگر نہ ہوتیں تو زندگی کس قدر اداس ہوتی ۔ پیدا کرنے والے کی عظمت کو سلام !