"FBC" (space) message & send to 7575

زمین پر آزمائش کا ڈیزائن

خدا نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے ۔ اس آزمائش کی نوعیت کیا ہے ؟ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا کی طرف سے اس آزمائش کا ڈیزائن کیا ہے ۔یہ آزمائش ہر فرد کے لیے مختلف ہے ‘ اس کی استطاعت کے مطابق۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہ پہلی جماعت کے بچّے سے ماسٹرز کا سوال پوچھا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح خدا کہتاہے کہ ہم کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ؛حالانکہ آپ زندگی میں دیکھیں تو آپ کو بے شمار لوگ اپنی تکالیف تلے دبے روتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ اس کی وضاحت کون کرے گا؟ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی استطاعت‘ اس کی capacityدوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔ اسی آزمائش پر اگر آپ تحقیق کریں ‘ اگر مختلف لوگوں کے مسائل کا جائزہ لیں‘ تو آپ پر ایک عجیب انکشاف ہوگا۔انسانوں میں سے اکثر تو بہت چھوٹے چھوٹے سے مسائل پر بلکتے ہوئے نظر آئیں گے اور کہیں ایک ایسا عجیب شخص ہوگا کہ جو انتہائی اذیت ناک حالات میں بھی پرسکون ہوگا۔ مثال کے طور پر میں تین چار ایسے والدین سے ملا‘ جن کی اولادیں ایب نارمل تھیں ۔ جو اٹھنے بیٹھنے‘ کھانے اور رفع حاجت کے لیے اپنے والدین پر منحصر تھیں ۔ایسے بچوں کے والدین کو باری بار ی ان کے ساتھ ڈیوٹی دینا ہوتی ہے ۔ انہیں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یوں انسان کی ساری زندگی ‘ اس کے سارے منصوبے‘ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ سارے ذاتی پروگرامز پر ایک انتہائی معصوم بچّہ حاوی ہو جاتا ہے ‘ جسے ہر لمحہ اپنے ماں باپ کا ساتھ درکار ہوتاہے ۔
کچھ ہی عرصے میں ایسے والدین کے دل میں اللہ اپنے ایب نارمل بچّے کے لیے رحم اور محبت کا ایک دریا بہا دیتاہے ‘ جس کے بعد اس خوفناک مشقت سے گزرنا ان کے لیے آسان ہو جاتاہے ۔ میں اس طرح کے جتنے بھی والدین سے ملا‘ مجھے وہ لوہے کی طرح مضبوط دکھائی دئیے‘ لیکن یہ ایک آدھ دن میں نہیں ہوتا۔ جب ایک تکلیف انسان پہ آتی ہے تو اس وقت اس کا فوری اثر زیادہ تکلیف دہ ہوتاہے ‘ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ‘ انسان کا دماغ اس صورتِ حال کے ساتھ سمجھوتہ کرنے لگتاہے ۔ اس سے گزرنے کے راستے ڈھونڈ لیتاہے ۔ خدا کی طرف سے دماغ کی یہ خاصیت کہ آہستہ آہستہ وہ ٹراما سے نکلتاہے ‘جس کی وجہ سے ہر آنے والے لمحے میں صدمے کا اثر کم ہونے لگتاہے ‘ ایک اس قدر بڑی نعمت ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی انسان کبھی بھی ٹراما (جیسا کہ کسی عزیز کی موت کا صدمہ )سے باہر نہ نکل سکتا۔ 
انسان تو اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے چیزوں کو جلد بازی میں دیکھ رہا ہوتاہے ‘ جبکہ خدا کے سامنے ایک مکمل تصویر ہوتی ہے ۔ اس شخص پر کتنا غم آئے گا۔ اس غم سے نکلنے کے لیے اسے کتنا عرصہ درکار ہوگا۔ ٹراما سے نکلنے کے بعد اس کی کیا حالت ہوگی ۔ اس دوران اس شخص کو کس طرف سے کیا خوشی/ریلیف ملے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شخص جو اپنے بچّے کی موت پر صدمے سے بری طرح نڈھال ہوتاہے ‘دو سال بعد دوسرے بچّے کے ساتھ کھیل رہا ہوتاہے ؛حتیٰ کہ یہ غم مکمل طور پر اس کے دل سے نکل جاتاہے ۔ 
کچھ لوگ تو موت تک اپنی بیماری اور مصیبت کو صبر سے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں ۔ کچھ معمولی باتوں‘ جیسا کہ نند بھاوج کی لڑائی پر ہی مرنے مارنے پہ تلے ہوتے ہیں ۔ بہرحال جس طرح پہلی جماعت کے بچّے سے پی ایچ ڈی کا سوال پوچھا نہیں جا سکتا‘ اسی طرح کم استطاعت والے بندے پر زیادہ بڑی مصیبت ڈالی نہیں جا سکتی۔ یہاں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ نے آپ کے اندر کتنی استطاعت (Capacity)رکھی ہے توآپ اپنے مسائل اور غموں کا جائزہ لے لیں ۔ آپ کی استطاعت ان غموں /مسائل سے کچھ زیادہ ہے ۔ اس لیے کہ جس نے تخلیق کیا ہے ‘ اس کا اندازہ تو غلط نہیں ہو سکتا۔ جب ایک کمپنی وزن اٹھانے والی گاڑی بناتی ہے تو وہ صاف صاف لکھ دیتی ہے کہ یہ گاڑی ایک ہزار کلو وزن اٹھا سکتی ہے ۔ اس سے زیادہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کتنا وزن اٹھا سکتی ہے ۔ یہی معاملہ انسان کا ہے ۔ ہاں ؛ البتہ یہ الگ بات کہ انسان کو کم علمی کی وجہ سے اپنی capacityکم لگتی ہے۔ 
مسائل وہی ہیں ۔ رشتے نہ ہونا‘ اولاد کا نافرمان ہونا‘ شوہر کی کنجوسی /درشتی‘ بھابھی کی کام چوری‘ بچوں کا فیل ہونا ‘ گھر والوں کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا ‘ کم آمدنی ‘ جائیداد پہ قبضہ ‘ ساس بہو کی کشمکش ‘ بیٹی کے سسرال والوں کی زیادتی۔شکل و صورت ‘ قد کاٹھ ‘ رنگت اور نین نقش سے جڑے ہوئے احساسِ کمتری کی مختلف قسمیں ۔ اصل مسئلہ وہی ہے کہ دنیا بنی جو آزمائش کے لیے ہے‘ تو آزمائش تو پھر ہونی ہے ۔ بس اس کے ہیڈز بدل جاتے ہیں ۔ 
انسانی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ بڑے انسانوں پر ہمیشہ بڑی آزمائشیں آئیں ۔ انہی بڑی آزمائشوں سے گزر کر وہ غیر معمولی بنے ۔انسانی صلاحیت میں اضافے کیلئے آزمائش اور تکلیف ناگزیر ہے ۔پیغمبروں پر تو جیسے یہ آزمائشیں ٹوٹ ہی پڑیںاور سب سے بڑھ کر تو سرکارؐ پر۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ جس ہستی کیلئے یہ کائنات تخلیق کی گئی‘ طائف کی گلیوں میں بچے اسے پتھر مارتے ہوئے آوازے کس رہے تھے اور ان ؐ کا جسم لہو لہان تھا۔ حضرت ابراہیم ؑکو اللہ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کا حکم دیا ۔ حضرت امام حسینؓ پر جو بیتی ‘ وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ حیرت انگیز طور پر انہی ہستیوں کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔ 
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ انسان کے بیانات‘ خدا سے اس کے مطالبات بدلتے رہتے ہیں ؛ اگر تو ایک لڑکی کی شادی نہ ہو رہی ہو اور اس کی عمر گزرتی جا رہی ہو تو ماں باپ کے نزدیک اس کی شادی ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے ۔ دوسری طرف جب اس کی شادی ہو جاتی ہے اور سسرال والے تنگ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ کنواری رہتی ‘ اسی طرح جب ایک شخص شدید بیماری سے گزرتا ہے‘ تو وہ دوسری سب نعمتوں ‘ بشمول مال و دولت اور مرتبے کو بھی اپنی صحت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے ‘جبکہ غربت زدہ شخص کو پیسہ دوسری سب نعمتوں سے بڑھ کر عزیز ہوتا ہے ۔ 
اسی طرح ایک بڑا غم چھوٹے غموں کو بے اثر کرتا ہے ۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے غم 
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
اور
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ ایک بچّے کے نزدیک اس کا کھلونا ٹوٹنا ایک بہت بڑ اصدمہ ہوتاہے ‘ جبکہ اس کے والدین کی نظر میں یہ ایک معمولی بات ہوتی ہے ۔ اسی طرح ایک جوان کے لیے محبوب کا بچھڑنا ہی سب سے بڑا غم ہوتاہے ‘ جبکہ ایک بوڑھے کے نزدیک یہ بے وقوفی ہوتی ہے ‘ اسی طرح مختلف درجات پر انسان کے standardsبدلتے چلے جاتے ہیں ۔ 
سوال تو صرف اتنا سا ہے کہ کون ہے وہ ذات ‘ جس نے انسان کو آزمائش کیلئے تخلیق کیا ‘ کیوں کیا اور آزمائش کے یہ سب ہیڈز تخلیق کیے۔ باقی سب غیر اہم! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں