انسانی ذہن اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ یہ خواہش سے آزاد نہ ہو توایک بہت ہی محدود دائرے میں کام کرتا ہے ۔ اکثر ذہن پہ ایک خواہش کا غلبہ ہوتاہے ۔ زیادہ تر انسانی ذہن 99فیصد وقت کسی ایک بڑی خواہش کے زیر اثر سوچ رہے ہوتے ہیں۔باقی چیزوں کو وہ نظر انداز کردیتے ہیں ۔ دوسری چیزوں کو وہ وقت تو دیتے ہیں‘ لیکن اسی طرح جیسے کہ بندہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے موبائل فون استعمال کرتا ہے ‘ اسی طرح انسانی دماغ کی اصل توجہ ہمہ وقت دو تین بڑی خواہشات میں سے ایک پہ مرکوز ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جتنی دیر دماغ غصے میں رہتا ہے ‘ وہ غلط فیصلے کرتاہے ۔ لالچ کے دوران بھی یہی ہوتا ہے ۔ بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں ‘ ایک فیصد سے بھی کم ‘ جن میں دور اندیشی ہوتی ہے ‘جو کہ کسی بھی صورتِ حال میں صحیح اور غلط کا فیصلہ اپنے دماغ سے کر تے ہیں ‘ جو یہ سوچنے کی زحمت کرتے ہیں کہ اس فیصلے کا دیرپا نتیجہ کیا نکل سکتاہے ۔ باقی شارٹ ٹرم میں سوچتے ہیں ۔
جس وقت eventsوقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں تو باقی 99فیصد لوگ حالات کے رخ پہ بہتے چلے جاتے ہیں ؛ اگر اچانک بجلی چلی جائے اورچار لوگ دکان لوٹنا شروع کر دیں‘ تو باقی بھی ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ سوائے اس کے کہ جنہوں نے اپنے نفس پر اخلاقی قوت کا قفل مضبوطی سے لگا رکھا ہو۔ اس وقت ‘ جب کہ پوری امریکی قوم کالوں کو جانوروں کی طرح treatکر تے رہنا چاہتی تھی ‘ ابرہام لنکن نے وہ سخت سٹینڈ لیا ‘ جو وہی لے سکتا تھا۔ اسی طرح مسلم بر صغیر میں انگریز سے شدید مرعوبیت پائی جاتی تھی ۔ اقبالؔ نہ ہوتا تو وہ کبھی جدوجہد پہ آمادہ ہی نہ ہوتا ‘ پھر قائد اعظمؒ کو اقبالؔ نے قائل کیا کہ وہ اس کی قیادت کریں۔ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت تو مایوس تھی ۔ شاید تاریخ میں ایسا وقت دوبارہ کبھی نہ آئے ‘ جب دو اس قدر بڑے ذہن ایک قوم کی اخلاقی اور سیاسی رہنمائی کے لیے بیک وقت موجود ہوں ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سیالکوٹ میں ایک ہجوم نے ڈنڈے مار مار کے دو بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس وقت ان لوگوں کی دانش کہاں چلی گئی تھی ؟ کیاانہیں معلوم نہیں تھا کہ میڈیا رپورٹ کرے گا‘ ری ایکشن ہوگا ‘ وہ گرفتار ہوں گے اور پھانسی چڑھیں گے ۔ ہجوم جب جذبات کے غلبے میں ہوتا ہے تو ساری دنیا میں ایسے ہی واقعات دیکھنے میں آتے ہیں ‘جس میں اہم ترین سچائیاں نظر انداز کر دی جاتی ہیں ۔
بھارت میں گزشتہ تین عشروں میں نسبتاً بہتر معاشی ترقی سامنے آئی ہے‘ پھر بھی آپ دیہات نہیں تو بڑے شہروں میں فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والوں کو دیکھیں ‘ آپ کو انتہائی miseryنظر آئے گی ۔ بہرحال ان تیس سالوں میں بھارت میں ایک خوشحال اشرافیہ وجود میں آئی ہے ‘ جسے مسلمانوں سے نفرت ہے ۔ اس لیے کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ایک طویل عرصہ ان پر حکومت کرتے رہے ۔ انگریز کی واپسی کے بعد پہلی بار انہیں حکومت ملنا تھی ۔ اقبالؔ اور جناح ؒبیچ میں آٹپکے۔
آج بھارت میں ایک ماحول ہے ‘جس میں ہر بندہ کہتاہے ‘ اجی پاکستان اور پاکستانی فوج توکچھ بھی نہیں ۔ دوسرا کہتا ہے‘ بالکل!ہم جب چاہیں انہیں مسل سکتے ہیں ۔ تیسرا اس سے بھی آگے کی ڈینگ مارتا ہے ۔حقائق اس کے برعکس ہیں ۔نتیجہ ہوائی سرجیکل سٹرائیک کی صورت میں نکلتا ہے ۔ جب ہجوم والا ماحول بن جاتاہے ‘تو پھر ڈینگ نہ مارنے والا بزدل کہلائے گا ۔بزدل کون کہلوانا چاہتاہے ‘اوم پوری کی طرح ؟
پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کی نا اہلی ‘ فوج کی آمد‘ بہتر معاشی کارکردگی‘ لیکن عوامی امنگوں کی پامالی ‘ سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ‘ فوجی حکومتوں کی رخصتی‘ سیاسی حکومت کا قیام ‘ سیاسی حکمرانوں کی لوٹ مار ‘ ناقص کارکردگی اور مایوس عوام کافوج کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھنے کا عمل کئی بار دہرایا جا چکا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ اس بار فوج نہیں‘ بلکہ عمران خان کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھاجا رہا ہے ۔
تقسیم ہوئی تو بھارت کا رویہ پہلے دن سے جارحانہ تھا اور پاک فوج پہلے دن سے اس کی مزاحمت کررہی تھی ‘ پھر افغانستان میں یکے بعد دیگرے دو عالمی طاقتوں نے مداخلت کی تو اس فوج پر دبائو بڑھا۔ اس کی شہادتیں بڑھیں ۔ پاک فوج پہلے دن سے بقا کی انتہائی خوفناک جنگ سے نبرد آزما رہی ۔ اس نے یہ جنگ اس قدر خوبصورتی سے لڑی کہ شاذ ہی کبھی کوئی خودکشی ریکارڈ پہ آئی ہوگی۔ اس کے برعکس آپ بھارت‘ امریکی اور برطانوی فوجوں کو دیکھیں تو خودکشیاں عام ہیں ۔
پاکستان میں فوج کی حمایت اور مخالفت کے ادوار طویل ہیں ۔ مشرف نے جب امریکی جنگ میں شمولیت اختیار کی تو فوج کی مقبولیت میں کمی آئی؛حتیٰ کہ وہ وقت آیا‘ جب افسروں کو وردی میں بازار جانے سے روک دیا گیا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب فوج کو گالی دینا فیشن بن گیا تھا ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ قوم کو ادراک ہوا کہ امریکی مخالفت میں ہذیان کی آخری حدوں کو چھونے والے ملّا سفید جھوٹ بول رہے تھے ۔ پاکستان کے پاس جنگ میں کودنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔دوسری طرف فوجی جوان اور افسر شہادتیں نچھاور کر رہے تھے۔ آخر کار فوج کی حمایت میں آواز اٹھنے لگی ۔آج وہ وقت ہے‘ جب فوج کی حمایت فیشن ہے ۔
بیچ میں آجاتا ہے شریف خاندان ‘ جس نے اقتدار کے دوران اپنے کاروبار اور اثاثوں میں کئی ہزار گنا اضافہ کیا‘ جس کے اقتدار کا ہدف صرف اور صرف دولت کمانا تھا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی کے دوران جب شریف خاندان اپنی دولت کو بیرونِ ملک منتقل کر رہا تھا‘ اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پنامہ لیکس جیسی بلا کبھی نازل ہوگی۔ اس وقت اخبارات بڑی حد تک کنٹرول کر لیے جاتے تھے ۔ ٹی وی صرف سرکاری تھا۔سوشل میڈیا کے ذریعے ہر خفیہ دستاویز عوام تک پہنچنا شرو ع ہو جائے گی‘یہ بعید از قیا س تھا۔یہ بھی کہ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم اس طرح سے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دے گی ۔ 2007ء میں چلنے والی عوامی تحریک کی وجہ سے عدالتیں اس قدر طاقتور ہو جائیں گی ؟ یہ کسے معلوم تھا۔
بیچ میں کپتان بھی آجاتا ہے ‘ جو کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے خلاف ایک نجات دہندہ کے طور پر سامنے آتا ہے ‘لیکن آخر کارجسے اقتدار تک پہنچنے کے لیے اپنی پارٹی کوبھی کرپٹ سیاسی لیڈروں سے بھرنا پڑتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد زمانہ بدل گیا ہے ۔ جتنا بڑا سچ یہ ہے کہ عمران خان ذاتی طور پر دولت اکھٹی کرنے کا شوقین نہیں ‘ اتنا ہی بڑا سچ یہ کہ کپتان حکومت کی معاشی مسائل حل کرنے کی کوئی تیاری نہیں ۔
مجھے نہیں معلوم کہ فیصلہ کیا آئے گا؛ البتہ آج ایک بہت بڑی حقیقت یہ ہے (جس کا اقرار فیشن کے خلاف ہے ) کہ فوج اپنی حدود سے بہت باہر نکل چکی ۔ا س کے نتیجے میں ردّعمل پیدا ہو سکتا اور بتدریج بڑھ سکتاہے۔فوج دوبارہ نامقبولیت کے راستے پر چل سکتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں اسے دیرپا نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس وقت میری یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی ۔ اس لیے کہ جس وقت eventsہو رہے ہوتے ہیں ‘تو جس طرف کی ہوا چل رہی ہوتی ہے ‘ ساری مخلوق اسی طرف بہتی چلی جاتی ہے۔سوائے‘ ایک فیصد لوگوں کے‘ جو اپنا دماغ استعمال کرتے ہیں ۔