"FBC" (space) message & send to 7575

ملک کی سیاسی صورتِ حال پہ ایک تبصرہ

معاشی حالات خراب ہیں ۔ قرض تیس ہزار ار ب روپے تک جا پہنچا ہے ۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو اپنے پہلے سال میں 9ار ب ڈالرکے قرض اور سود لوٹا نا ہے ‘ جس میں سے چار ارب ڈالر ادا کیے جا چکے ۔ مجھے ایسا لگتاہے کہ موجودہ حکومت کے دو تین برس گزرنے کے بعد حالات بدلنا شروع ہوں گے ۔ اس وقت تک سی پیک کے اثرات نظر آنا شرو ع ہوجائیں گے ۔ چین اور مغرب کے درمیان ہزاروں ارب ڈالر کی تجارت میں پاکستان کو گزرگاہ کا کرایہ ملنا شروع ہو جائے گا ۔ 
بہت سی چیزیں بہتر بھی ہو رہی ہیں ۔ علیمہ خان کی بیرونِ ملک جائیداد سامنے آئی تو ایف بی آرنے ان پہ انتہائی بھاری جرمانہ اور ٹیکس عائد کر دیا۔ اس میں سے پچیس فیصد وہ ادا کر چکیں اور باقی انہیں ادا کرنا ہوگا۔ آج سے دس سال پہلے کسی کا باپ بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ وزیر اعظم کی بہن سے اس طرح وصولی کرے گا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مریم نواز نے ٹی وی پر کہا تھا کہ پتا نہیں کہاں سے یہ میری جائیدادیں نکال کر لے آتے ہیں ۔ میری لندن تو کیا ‘ پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ۔ نواز شریف اور زرداری حکومتوں کے دوران میں کس میں اتنا دم تھا کہ سیاسی اشرافیہ کو اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے سے روک سکے ۔ لانچیں بھر بھر کے سرمایہ دبئی فرار ہوتا رہا۔ ماڈلز ڈالروں کی بوریاں سر پہ اٹھاکے لے جاتی رہیں۔آج سے تین چار سال پہلے کوئی یہ بات کہتا کہ نواز شریف صاحب بیرونِ ملک جائیدادوں کی وجہ سے جیل جائیں گے تو اسے دیوانے کی بڑ ہی کہا جاتا۔ شہباز شریف صاحب آشیانہ ہائوسنگ سکیم‘ رمضان شوگر مل اور ماڈل ٹائون سانحے کے پسِ منظر میں تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ مریم نواز منظرِ عام سے غائب ہیں ۔ انور مجید سمیت زرداری صاحب کے قریبی گرفتار ہیں ۔ جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں سپریم کور ٹ کے حکم پر ایف آئی اے اور نیب تحقیقات کر رہی ہیں ۔ کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ زرداری صاحب کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے گا۔ زرداری صاحب کا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ اس لیے کہ جرائم سرزد ہوئے ہیں اور ثبوت موجود ہیں ۔ تحقیقات کرنے والے سیاسی دبائو سے آزاد ہیں ۔ 
زرداری اور نواز شریف صاحب نے ملی بھگت سے قمر زماں چوہدری جیسا شخص چیئرمین نیب لگایا تھا ‘ جس کا کام چوروں کی آبرو مندانہ رہائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا ۔ آج اس کی سربراہی جسٹس جاوید اقبال کے پاس ہے ۔ وہ تین بار وزیر اعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف کے خلاف ریفرنسز بنا کر انہیں سزا دلوا چکے ہیں۔ زرداری صاحب کے خلاف تحقیقات جاری ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کو ہیلی کاپٹر کیس میں تحقیقات کا سامنا ہے ‘ لہٰذاچیئرمین صاحب میں دم خم تو ہے ۔ انہیں چاہیے کہ افتخار چوہدری یا راحیل شریف کی طرح ہیرو بننے کی خواہش نہ پالیں ۔ قانون کے دائرے میں جب کسی مجرم کو پکڑیں تو اس کے حق میں اٹھنے والے آہ و بقا کو ذرہ برابر حیثیت بھی نہ دیں ۔ کسی بے گناہ پہ ہاتھ ہرگز نہ ڈالیں ۔ باقی وہ قانون کے دائرے میں جس جس کو پکڑتے ہیں ‘ وہ ان کا بگاڑ تو کچھ بھی نہیں سکتا۔ 
پاکستان تیزی سے بدل رہا ہے ۔ پاکستانیوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں ڈھونڈی جا رہی ہیں ۔ غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جائیدادیں بنانے والوں کو حساب دینا ہوگا۔ جب وزیر اعظم کی بہن نہیں بچی تو اور کون ؟یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ وزیر اعظم کی حکومت نے علیمہ خان کے معاملے پر اثر اندا ز ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ اعظم سواتی سے لے کر علیم خان تک‘ بڑے عہدیدارمتنازعہ ہونے پر استعفے دے رہے ہیں ۔ یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ۔ پہلے تو لوگ تادمِ مرگ اپنی کرسی سے چمٹے رہتے تھے ۔ پاکستان میں تو خیر رواج ہی نہیں تھا کہ کوئی سکینڈل سا منے آنے پر خود استعفیٰ دے ۔ 
البتہ ایک خرابی باقی ہے اور وہ یہ کہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے کپتان نے ساری پارٹیوں سے بہت سا کچرا اپنی پارٹی میں بھر لیا تھا‘ جو لوگ نواز شریف کی چاپلوسیاں کرتے تھے‘ پھر مشرف کے ساتھ مل گئے ‘ پھر زرداری کے ہوگئے‘ وہ آن تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں ۔ اگر ان لوگوں کو شامل نہ کیا جاتا تو تحریکِ انصاف کی حکومت میں سے کسی کو استعفیٰ دینے کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔ پہلے ایک ماڈل زیربحث آیا کرتا تھا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد ہوسکتاہے کہ عمران خان پارٹی کے اندر سے صفائی کا آغاز کریں‘ لیکن ایسا ہو نہیں سکا ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اقتدار ملا تو عمران خان صاحب اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھے ۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملک کس قدر خوفناک معاشی صورتِ حال سے دوچار ہے ۔ اس کے لیے کتنا اور کس کس سے قرض لینا پڑے گا ‘ اس کا انہیں بالکل کوئی اندازہ نہیں تھا ۔ وہ تو اپنی ایک خیالی جنت میں زندگی گزار رہے تھے کہ جیسے ہی میری حکومت بنے گی‘ ساری دنیا سے پاکستانی اپنا سرمایہ ملک میں لے آئیں گے ۔وہ اس طرح کے ڈائیلاگ بولتے رہے کہ قرض لینے والا دن میری زندگی کا آخری دن ہوگا ۔ انہیں بالکل بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ریلوے‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل اور دوسری ریاستی کارپوریشنیں‘ جو ہر سال سینکڑوں ارب روپے کا خسارہ کر رہی ہیں ‘ ان کے معاملات کس طرح سے درست کیے جائیں گے ۔ 
اسی طرح سکیورٹی معاملات پر وزیر اعظم عمران خان اپنی ایک خیالی جنت میں رہتے تھے۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ان کے آنے سے پہلے ہی جنوبی اور شمالی وزیرستان ‘ سوات ‘ فاٹا اور بلوچستان سمیت ملک کے زیادہ تر حصوں کو فوج نے کلیئر کر دیا ہے ۔ یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے کہ شمالی وزیرستان کلیئر ہونے کے نتیجے میں امریکی ڈرون حملے ختم ہو چکے ہیں‘ ورنہ تو اس وقت فوج اور حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوتیں اور کوئی بڑا ایڈونچر اپنے ساتھ تباہی لے کر آتا ۔ اس پر بھی میں لکھوں گا کہ ہماری سیکولر لابی کے دلوں میں منظور پشتین کی محبت اتنے زور سے کیوں انگڑائیاں لے رہی ہے ۔ کیوں اس کے ساتھ سیلفیاں بن ر ہی ہیں ۔ سکیورٹی فورسز سے اصل تکلیف انہیں یہ ہے کہ اس نے تیس چالیس ہزار دہشت گرد قتل کر کے ملک میں امن کیوں قائم کر دیا۔ اسے شام اور لیبیا کی طرح تباہ ہونے کے لیے چھوڑ کیوں نہ دیا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جس فوج نے اپنے چھ سات ہزار جوان اور افسر شہید کروائے ہوں اور دشمن کا تیس چالیس ہزار دہشت گرد قتل کیا ہو ‘ اس کے ہاتھ سے فتح چھیننا ممکن ہی نہیں ہے۔ 
آج وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہیں ‘ جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کا چہرہ تھے ۔ دراصل ہمارے اندر ایک خرابی ہے کہ ہم کسی بھی لیڈر کو یا تو مکمل طور پر مانتے ہیں یا بالکل نہیں مانتے ۔اتنی ہماری سوچ ہی نہیں ہے کہ لیڈر کچھ غلط کر سکتاہے اور اسے ٹوکا جا سکتاہے ۔ 
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاسی حکومتوں کی نا اہلی سے جو خلا پیدا ہوا‘ اس کا ایک بڑا حصہ فوج کو پر کرنا پڑا ۔ کافی خلا تو جسٹس ثاقب نثار نے لے لیا تھا‘ جو کہ اب شاید آہستہ آہستہ واپس حکومت کو منتقل ہو جائے گا ۔حکومت نے پرفارم نہ کیا ‘تو بہت سا خلا مستقبل میں کسی اور کے پاس ہی رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں