"FBC" (space) message & send to 7575

دلچسپ نوٹس

اکثر میں دلچسپ چیزیں پڑھتے ہوئے اپنے پاس نوٹس بناتا رہتا ہوں۔ آج ان میں سے کچھ قارئین کی نذر۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہ بہت دلچسپ ہوں گے ۔ 
1۔ History channelکی ڈاکومنٹری secrets of human brain۔ اس میں کہتا ہے کہ ارتقا کے دوران دماغ کا سائز ڈبل ہو گیا ہے ۔ اس کا وزن صرف تین پائونڈ ہے‘ لیکن انسان کا دماغ اتنا بڑا ہے کہ بیس فیصد توانائی جسم میں خوراک اور آکسیجن سے پیدا ہونے والی لے لیتا ہے ۔
دماغ کا سب سے نیچے والا حصہ برین سٹیم۔یہ ریپٹائلز اور میملز کے ساتھ ہم شیئر کرتے ہیں ‘ یعنی سانپ ‘ بکرے اور انسان میں یہ حصہ ایک ہی جیسا ہے ۔ یہ ضروری کام کرتاہے زندگی برقرا ر رکھنے کے ۔ جیسے دل دھڑکنا۔ respiration‘یعنی سانس لینا۔ ہاضمہ اور بلڈ پریشر ۔ دماغ کا دوسرا حصہ جو کہ زیادہ evolvedہے۔ لاکھوں سال بعد بنا ہے ۔ وہ lymbicسسٹم ہے ۔ لمبک سسٹم کے اندر amygdalaہے۔ یہ دو ٹشوز ہیں ؛ ایک ہمسفیر میں ایک۔ اور یہ انگلی کے ناخن سے بڑے نہیں ۔ یہ brainکا سنٹرل کمانڈ سسٹم ہیں‘emotional reactionsدینے کے لیے ۔ ان اموشنز میں ہی خوف شامل ہے ۔ (جس پر زندگی کا انحصار ہے )۔ خوف سے واسطہ پڑا‘ یعنی دشمن سے تو amygdalaفوراً برین سٹیم سے جڑا ہونے کی وجہ سے اسے متحرک کردے گا اور دل تیز دھڑکنے لگے گا‘ لیکن انسانوں میں the cortexبھی processing of fearمیں شامل ہوتاہے ۔
امریکن نیوی میں جو ٹریننگ کروائی جاتی ہے ‘ اس میں معلوم ہوا ہے کہ جب بندے کو پتا چلے کہ وہ سانس نہیں لے سکتا تو اس سے بڑا خوف‘ یعنی ڈوبنے کے خوف سے زیادہ بڑا خوف کوئی نہیں ہے ۔ یہاں زیادہ تر کارٹیکس ہار جاتاہے اور امیگڈلا جیت جاتاہے ۔ بندہ عقل کی بجائے جذبات کو فالو کرتاہے ۔ عام حالات میں دماغ جسم کے ساتھ communicationکرتاہے‘ لیکن خطرناک صورت حال میں دماغ کیمیکل ہارمونز خارج کرتاہے ۔ امیگڈلا ایک چین ری ایکشن شروع کرتاہے ۔وہ ایڈرینالن اور کورٹیسول؟ ہارمونز خون میں خارج کراتاہے ۔ یہ سٹریس ہارمونزجسم کو ایکشن کے لیے تیار کرتے ہیں ۔ یہ فوراً سانس‘ دل کی رفتار کو تیز کرتے ہیں ۔جسم کو زیادہ توانائی ملتی ہے ۔ سینسز تیز ہو جاتی ہیں ۔ یادداشت تیز۔ جسم کو درد کا احساس کم ہو جاتاہے ۔
اگر یہ خوف پہ غالب ہوسکیں تو خوفناک صورتِ حال میں بھی آدمی عقلمندی کے ساتھ ری ایکشن دیتاہے ۔ یہ amygdalaپر غالب آجائے تو آدمی جان بچانے کے خوف پہ غالب آسکتاہے ۔ وہ شہید ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔
2۔ ایک تحقیق شائع ہوئی ہے کہ صرف ہائیڈروجن کے مرکز میں نیوٹران نہیں ہوتا۔ باقی سب میں پروٹون کے علاوہ نیوٹرون بھی ہوتے ہیں ۔نیوٹرون مرکزے میں پروٹون کو جوڑنے والے گلو کا کا م کرتے ہیں‘ ورنہ ایک ہی جیسے چارج‘ یعنی پازیٹو چارج والے پروٹون ایک دوسرے کو دفع کرتے‘ لیکن جو بہت ہیوی عناصر ہیں ‘جیسے کہ یورینیم۔ ان میں پروٹون اتنی زیادہ تعداد میں اکھٹے کم جگہ پر پیک ہوتے ہیں کہ نیوٹران انہیں peaceful رکھنے میں ناکام رہتے ہیں اور چنانچہ وہ توانائی خارج کرتے رہتے ہیں ۔ اور ذرات بھی ۔ 
زندہ چیزوں میں بھی ہائیڈروجن ایٹم استعمال ہوئے ہیں اور خود ہائیڈروجن گیس میں بھی ہائیڈروجن ہے ‘ لیکن یہ ہمارا مغالطہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس مردہ ہے ۔ سب زندہ ہیں ۔ سب تسبیح پڑھتے ہیں ۔ 
جب ایک عنصر کے مرکز میں پروٹون کی تعدا دبدلتی ہے‘ تووہ ایک عنصر سے دوسرے میں بدل جاتاہے ۔ سب سے ہلکے پانچ عناصر ہائیڈروجن سے بورون تک پانچ عناصر بگ بینگ میں بنے تھے ؛ اگرچہ ستاروں میں بھی ہائیڈروجن سے بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ ان پانچ سے آگے سارے عناصر ستاروں میں بنے ہیں ۔ انتہائی درجہ ٔ حرارت اور دبائو میں عناصر کے ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ فیوژ ہوتے ہین اور بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ اسے نیوکلیئر فیوژن کہتے ہیں ۔ بڑے ستاروں میں مرکری بن سکتاہے ‘ جس کا نمبر اسی ہے ۔ اس کے مرکزے میں اسی پروٹون ہیں ۔ بہت سے عناصر سپر نووا کے دوران بنتے ہیں ۔ اس میں یورینیم تک ۔ یورینیم 92نمبر ہے ۔ یورینیم 92واں عنصر وہ سب سے بھاری عنصر ہے ‘ جو کہ قدرت میں ‘ نیچر میں کافی تعداد میں پایا جاتاہے کوئی قدرتی عمل ایسا نہیں جو کہ اس سے بھاری عنصر قدرتی طور پر بنا سکے ۔ اس کے بعد particle accelatorsانسان نے بنائے ہیں ‘ جن میں ذرات کو انتہائی رفتار سے ٹکرایا جاتاہے اور ایٹموں کے مرکز میں پروٹون کی تعداد بڑھائی جاتی ہے اس رفتار پر ٹکرا کر۔
سائنسدانوں نے 1993ء میں 93واں عنصر neptuneum بنایا تھا۔ اس کے بعد تعداد بڑھتی چلی گئی ‘ پھر پلوٹونیم بنایا گیا۔ 94نمبر‘ جو کہ یورینیم پر ہائیڈروجن کے ایٹم ٹکرا کر بنایا گیا۔ پلوٹونیم سے ایٹم بم بنایا گیا اور ناگا ساکی پر گرایا گیا؛اگر کائنات میں 92عناصر پائے جاتے ہیں‘ تو کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں 192ہوں اور وہ سٹیبل ہوں اور وہ اس کی تشکیل میں شامل ہوں ‘ جادوئی‘ حیران کن عناصر؟
3۔ پرندوںمیں چونچ انتہائی اہم ہے ۔ یہ سوچا جاتاہے کہ پرندے ڈائنا سار سے ارتقا ہوئے تھے‘ کیونکہ ایک ایسا فاسل ملا تھا‘ جس کی شکل ڈائنا سار جیسی‘ لیکن اس کے پر اور پنکھ موجود تھے۔ پرندوں میں کچھ خاص جینز ہوتے ہیں ‘جو کہ چہرے کی ساخت سے متعلق ہوتے ہیں ۔ یہ جانوروں میں نہیں پائے جاتے۔ جب ان خاص جینز کو ایک مرغے کے ڈی این اے میں silentکیا گیا تو جو مرغا پیدا ہوا اس کی چونچ کی جگہ جبڑے تھے۔ dino chick کا نام دیا گیا اسے۔ Dino chickبہت دلچسپ چیز ہے ‘پڑھنے کے لیے ۔
4۔سٹیم سیل سے اعضا بنانے کی طرف تیاری ہے ۔ سٹیم سیل سے جلد اور بال بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اس سے پیوند کاری کے لیے اصل اعضا ء لیب میں بنانے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے (جن کو جسم مسترد نہیں کرے گا کہ وہ اپنے جسم سے تیار ہوں گے )یہ اسی پراسیس کو سمجھ کر سیکھنے کی طرف قدم ہے ‘ جس میں بچے کے اعضا تیار ہوتے ہیں‘ بچہ دانی میں ۔
5۔ مردوں میں دماغ کا وزن 1345گرام ایوریج ہے ‘ یعنی 1.3کلو۔ عورتوں میں 1.2کلو۔مردوں میں amygdalaبڑا ہوتاہے ۔ انہیں خوف شایداسی لیے کم آتا ہے‘ چوہے کاکروچ سے۔ 
6۔ انسانی جسم میںخون کی روانی سیمو لیشن (کمپیوٹر ماڈل )کر لی گئی ہے ۔ کمپیوٹر سیمولیشن سے ساری کہانی سمجھ آجاتی ہے ۔ چاہے‘ آپ نظامِ شمسی کی سیمولیشن بنائیں یا خون کی ۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
Darwin's natural selection theory is in conflict with Cambrian explosion? 
7۔ 18ملین ڈگری تک درجہ ء حرارت جاتاہے ہائیڈروجن کا ‘ تب سورج کی پیدائش ہوتی ہے ۔ تھرمو نیوکلیئر فیوژن شرو ع ہوتاہے 18ملین ڈگری پر۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں