"FBC" (space) message & send to 7575

خواہش اور حقائق

کسی عظیم دانشور نے کہا تھا: زندگی کو ضرورت میں بسر کرو‘ خواہش میں نہیں ۔ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور خواہش بادشاہ کی بھی ادھوری ہی رہتی ہے۔ یہ سو فیصد سچ ہے ۔ جس لمحے میں بھوک اور نیند جیسی بنیادی ضروریات پوری کر دی جاتی ہیں ‘ جب پہلا نوالہ حلق سے اترتا ہے‘ تو وہ لمحہ اس قدر آسودگی کا ہوتاہے کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 
آپ دیکھتے ہیں کہ ایک امیر کا بچّہ کھلونا گاڑی چلا رہا ہے ۔ جب کہ غریب کا بچّہ پاس کھڑا ترسی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا ہے ۔ یہ کتنا تکلیف دہ منظر ہے۔یہ سراسر نا انصافی نظر آتی ہے‘ لیکن اب آگے دیکھیے کیا ہوتاہے ۔ کچھ ہی دن میں امیر بچّے کا دل اس گاڑی سے بھر جاتاہے ۔ یہ گاڑی اسے پہلے جیسی تسکین نہیں دے سکتی؛چنانچہ وہ کسی اور کھلونے کے لیے اسی طرح بے تاب ہونے لگتاہے ‘ جیسا کہ پہلے اس گاڑی کے لیے تھا ۔ باپ اس کی دوسری خواہش بھی پوری کر دیتاہے‘ لیکن پھر یہ خواہشات بڑھتے بڑھتے باپ کی پہنچ سے بھی باہر نکل جاتی ہیں۔ آخر ایک دن آتاہے کہ جب اسے اپنے بیٹے کو انکار کر نا پڑتا ہے ۔ اس وقت امیر اور غریب کا بچّہ برابر ہوجاتے ہیں ۔ 
دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ جب ایک بچّے کو اس کی خواہش کے باوجود ایک کھلونا نہیں مل رہا ہوتا تو اس وقت اس کا دماغ اس تکلیف دہ صورتِ حال سے ایڈجسٹ کر رہا ہوتاہے ۔ ایڈجسٹ کرنے کی یہ صلاحیت خدا نے ہر دماغ میں رکھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لمحے جب انسان کسی کو ایک قیمتی گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر حسد محسوس کرتاہے ‘ وہ احساس کچھ دیر میں کم ہوتا چلا جاتاہے ۔ اسی طرح انسان ہر قسم کی تکلیف دہ صورتِ حال سے ایڈجسٹ کرتا چلا جاتاہے ۔ہاں ‘ البتہ اگر وہ یہ ارادہ کر لے کہ میں نے فلاں شخص سے بغض اور حسد کو برقرار رکھنا ہے تو پھر وہ اندر ہی اندر جلتا رہے گا ۔ اس کی ساری زندگی بھی کسی سے انتقام کی خواہش میں بسر ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر وہ اسے قبول کر لے اور مبارک باد دے دے تو پھر یہ کیفیت منٹوں میں ختم ہو جاتی ہے ۔ 
اسی طرح تجسس کی وجہ سے خدا نے انسان میں یہ رجحان رکھا ہے کہ وہ ہر نئی اور خوبصورت چیزکو حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے ‘ پھر جو چیز اسے مل جاتی ہے ‘ اس میں اس کی دلچسپی ختم ہو تی چلی جاتی ہے ۔ کھلونا گاڑی سے اصل گاڑی ‘ اصل گاڑی سے جہاز ‘ جہاز سے راکٹ اور پھر؛ حتیٰ کہ اس تجسس کی وجہ سے انسان ایک نئے سیارے پر جانا چاہے گا۔ جس طرح ایک بچّے کا کھلونا سیل سے چلنے والی ایک گاڑی ہے ‘ اسی طرح ایک بڑے ماہرِ فلکیات کا کھلونا ایک نئے سیارے تک رسائی ہے ۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک اپنے کھلونے کو پانے کی خواہش کر رہا ہے ۔ اسی میں سب کی آزمائش ہو رہی ہے ۔اگر تو یہ کھلونا اسے مل جاتاہے تو آزمائش کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔
اس دنیا میں مختلف قسم کے ان تکلیف دہ حالات سے ہر انسان کو گزرنا پڑتاہے ‘ چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر ۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ جب میں نے یہ دیکھا کہ قیمتی بسترا ور خاک پہ سونے والوں کے خواب ایک جیسے ہیں اور دونوں کی قبر ایک جیسی ہے تو پھر مجھے خدا کے انصاف پہ یقین آگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ یہ دیکھیں کہ دونوں کے دماغ میں کیمیکلز کا اخراج بھی ایک جیسا ہی ہے ۔ آخری تجزیے میں دماغ میں کیمیکلز کا یہ بیلنس ہی انسان کو خوشی اور غم پہنچاتا ہے ۔جس شخص کے پاس پہلے ہی کئی قیمتی گاڑیاں کھڑی ہوں ‘ اسے ایک نئی گاڑی اتنی لذت نہیں پہنچاسکتی ‘ جتنی کہ ایک غریب کو اپنی پہلی سائیکل ۔ پھر زیادہ سے زیادہ چند مہینوں میں وہ اس نئی گاڑی یا سائیکل کا عادی ہو جاتاہے ۔ پھر وہ اس کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی ۔ ایک زمانہ تھا‘ جب ہم موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے کی خواہش میں مرے جاتے تھے۔ اب دونوں باہر کھڑی ہیں اور دل یہ کرتاہے کہ ڈرائیونگ نہ ہی کرنی پڑے ۔ 
دوسری طرف یہ خواہشات ایسی ہیں کہ کبھی پوری ہو ہی نہیں سکتیں۔جس طرح ایک غریب بچّے کو سائیکل کی خواہش ہے‘ اسی طرح ایک عظیم بادشاہ کے سر پہ ہمسایہ سلطنت کو فتح کرنے کا بھوت سوار ہوتاہے ۔سرکارؐ کے فرمان کے مطابق ایک سونے کی وادی حاصل ہونے کے بعد دوسری وادی کی خواہش ۔ ادھر دوسری طرف جس کی ٹانگیں ناکارہ ہیں ‘ اسے سائیکل چاہئیے‘ نہ گاڑی ‘ اسے تو چلنے کے قابل ٹانگ چاہئیے ۔ ادھر جس کی ٹانگیں ٹھیک ہیں ‘وہ موٹر سائیکل کی خواہش میں مرا جا رہا ہے ۔اسے پیدل چلنا عذاب لگتا ہے ۔ 
جین گوڈال ایک بہت بڑی محقق ہے ۔ اسے دنیا میں چمپنزیوں کی سب سے بڑی ماہر کہا جاتاہے کہ اس نے کئی عشرے تک ان کا مطالعہ کر کے چمپنزیوں کے بارے میں انسانی علم میں انتہائی اضافہ کیا۔ وہ ایک مادہ چمپنزی کو فلماتی رہی اور اس نے اس کی پوری کہانی لکھی۔ وہ دکھاتی ہے کہ ایک مادہ چمپنزی جس کا نام اس نے ''فی فی ‘‘ رکھا‘ اس کے ہاں ایک بچّہ پید اہوا۔ یہ انتہائی ضدی تھا۔ جب اس کی ماں کا دودھ چھوڑنے کی عمر ہوئی تو اس نے دودھ چھوڑنے سے انکار کر دیا اورلڑ جھگڑ کر پیتا رہا۔فی فی نے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے ۔ فی فی دوبارہ حاملہ ہوئی ۔ اس نے ایک نیا بچّہ جنم دیا ‘لیکن پہلا ضدی بچّہ زبردستی دودھ پیتا ہی رہا۔ پھر ایک دن نیا بچّہ اچانک غائب ہو جاتاہے ۔ اب اس کے ساتھ ہوا‘ کیا یہ ریکارڈ نہیںہو سکا ۔ شاید بڑے ضدی بھائی نے ہی اسے غائب کر دیا۔ اس کے بعد سے فی فی نے اس بڑے ضدی لڑکے کو دودھ سے منع کرنا چھوڑ ہی دیا‘بلکہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کر دیا۔ اب وہ خاصا بڑا ہو چکا تھا ۔ پھر ایک دن فی فی بیمار ہوئی ۔کچھ دن وہ بیمار رہی اور پھر مر گئی ۔ یہ بڑا ضدی بچہ ‘ جسے اپنا آپ سنبھالنے کے قابل ہونا چاہیے تھا‘ وہ غم اور صدمے کی شدت سے اس کے پاس ہی بیٹھا رہا۔غم کی شدت سے وہ بھی بیمارہو گیا اورچند دن تک اپنی ماں کے سرہانے بیٹھا بیٹھا ہی مر گیا ۔ اگر اس کی ماں مناسب وقت پر اسے مار پیٹ کے دودھ چھڑا دیتی ‘ اگر وہ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ہمراہ ادھر ادھر پھرتا اور دنیا کا جائزہ لیتا تو یقیناوہ ماں کی موت سہنے کے قابل ہو جاتا۔
قصہ مختصر یہ کہ ہر خواہش پوری نہیں کی جا سکتی۔ یہ سب سے بڑا سچ ہے ۔ یہ بھی کہ زمین کی تاریخ میں اربوں قسم کے جن جانداروں نے یہاں زندگی گزاری‘ نیند‘ بھوک اور افزائشِ نسل کی ان کی ضروریات خدا ہی پوری کر سکتا ہے ۔ آپ صرف نیند پر ہی غور کریں کہ کیسی چیز اللہ نے بنائی‘ تھکی ہوئی مخلوقات کو از سر نو تازہ دم کرنے کے لیے ۔ نیند نہ ہوتی تو پیہم بقا کی جنگ لڑتی مخلوقات آخر تھک ہار کے گر جاتیں۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنی جلدی انسان اپنی زندگی کے خوفناک حقائق سمجھ کر خود کو ان سے ہم آہنگ کر لے اتنا ہی اس کے زندہ و کامران رہنے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر انسان اپنے آپ کو اپنی خواہشات کے حوالے کر دے گا تو پھر یقینا اسے تکلیف پہ تکلیف پہنچتی رہے گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں