جینز کی کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ اسے سمجھے بغیر فقط ادھورا علم ہی حاصل ہو سکتاہے۔ سادہ ترین الفاظ میں یہ ایک جاندار کی جانب سے اپنی اولاد کو دی جانے والی وہ وراثتی خصوصیات (Genetic Material)ہیں ‘ جو ہزاروں‘ لاکھوں نسلوں تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔ جانداروں کے جسم میں سب سے چھوٹی اینٹ خلیہ کہلاتی ہے ۔ ان خلیات کی تعمیر کی ساری معلومات جینز ہی میں لکھی گئی ہیں ۔اسے خلیات کا پروگرام یا سافٹ وئیر سمجھیے ۔ جسم کے خلیات نے جہاں قد کاٹھ اور شکل و صورت کو ترتیب دینا ہے ‘ وہیں دماغ میں موجود عصبی خلیات نے ہماری سوچ‘ طرزِ فکر اور روّیے کو ایک طے شدہ سانچے میں ڈھالنا ہے ۔ مختصر ترین الفاظ میں کسی بھی جاندار کا دماغ‘ ہیئت‘ اس کا رنگ‘ بال اورناخن‘ سبھی کی تعمیر کے احکامات جینز میں درج ہیں ۔ یہی وہ پسِ منظر میں ‘ جس میں یہ کہا جاتاہے کہ فلاں شخص یا فلاں قوم کے جینز ہی میں خرابی ہے ‘ اسی لیے کہا جاتاہے ''باپ پہ پوت ‘ پتا پہ گھوڑا‘ بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘اسی وجہ سے خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ بعض جسمانی اور ذہنی بیماریاں بھی نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں ۔یہ بات درست نہیں کہ پاکستانی قوم کے جینز ہی میںایسی خرابی موجود ہے کہ کبھی یہ ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتی ۔ دوسری بات یہ کہ انسان تواب جینز کے اندر کی خرابیاں دور کرنے کی طرف بھی بڑھ رہا ہے ۔
گزشتہ دہائیوں میں انسانی جینز پر قابلِ قدر کام ہوا ہے ۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا حیاتیاتی اشتراک ''ہیومن جینوم پراجیکٹ‘‘ تھا۔ 1984ء میں امریکی حکومت کے فراہم کردہ فنڈز سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ دو عشروں میں مکمل ہوا۔ انسانی دماغ اور جسم‘ اس کے روّیے اور شکل و صورت‘ نسل درنسل منتقل ہونے والی بیماریوں کا سبب بننے والے تمام جینز کی شناخت کے بعد ان کا ایک نقشہ ترتیب دیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چوہے کی طرح ‘ انسان میں بھی کل 30ہزار جینز پائے جاتے ہیں ۔انسان؛ اگرچہ انہیں سمجھنے کے ابتدائی مراحل ہی میں ہے ‘لیکن یہ پراجیکٹ بے حد فائدہ مند ثابت ہوا۔ اس سمت میں انسان پیش رفت کر رہا ہے کہ قبل از وقت ان بیماریوں کا کی شناخت اور روک تھام کی جا سکے ‘ ماں باپ سے جو اولاد میں منتقل ہو سکتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ انسان اپنے جسم اور دماغ کو پوری طرح سمجھ جائے گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کون سے وہ جینز ہیں ‘ جنہوں نے جانوروں میں سے ایک جانور ‘ بنی نوعِ انسان کو اس کرّہ ٔ ارض کا مالک تو بنا ہی ڈالا‘ دوسرے سیاروں پہ ڈول ڈالنے کی صلاحیت بھی عطا کی ۔ جینز کو پوری طرح سمجھنے کے بعد ممکن ہے کہ ذہانت میں اضافے اور قد کاٹھ سمیت‘بہت سی چیزوں میں انسان مداخلت کے قابل ہو جائے ۔
حال ہی میں سائبیریا سے ملنے والی انسانی ٹانگ کی ایک ہڈی کی عمر کا تعین 45ہزار سال کیا گیا ہے ۔ سائنسدانوں نے کامیابی سے اس میں موجود جینز کا مشاہدہ کیا ہے ۔ ایک بوسیدہ ہڈی ماضی کی کتنی ہی داستانیں بتاتی چلی جا رہی ہے ‘ مثلاً: یہ کہ آدمی کب افریقا سے نکل کے یورپ اور ایشیا کی طرف بڑھا اور کب اس کی یورپ کی اس عجیب و غریب انسانی نسل نی اینڈرتھل مین (Neanderthal Man)سے ملاقات ہوئی ۔ برسبیلِ تذکرہ یہ کہ نی اینڈرتھل مین کے جینز کا مشاہدہ بھی مکمل صحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ موجودہ انسانوں سے چھوٹے قد اور قدرے بڑے سر والے اس آدمی کی باقیات پوری صحت کے ساتھ موجود ہیں ۔ 23ہزار سال پہلے پھر وہ ناپید ہو گیا۔ اس شاندار انسانی نسل کی تباہی کی مکمل کہانی اب تک سامنے نہیں آسکی۔ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کا کہنا یہ ہے کہ وہ آدم خور تھا‘ اس لیے ختم ہو گیا۔
انسانی علم میں شاندار اضافے کا ایک سبب وہ جاندار ہیں ‘ اپنی ہلاکت کے بعد جو برف کی تہوںمیں دفن ہوگئے (یا برف میں دفن ہو کے مر گئے)۔ اس ضمن میں قدیم ترین جاندار سات لاکھ سال پرانا ایک گھوڑا ہے ۔انسانی علم نا صرف وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے‘ بلکہ نسل درنسل وہ درستگی کے ساتھ منتقل ہورہا ہے ۔کسی او رجاندار میں ایسا ماجرا دیکھنے میں نہیں آیا۔ آسمان کی بلندیوں سے نازل ہونے والی آفات سے لے کر سمندری طوفانوں تک ‘ ایک ایک شے کی حقیقت جاننے کی ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔ کبھی سمندر کا سفر کرنے والے وہ خوش قسمت ملّاح ایک دوسرے کو ان سمندری آفات سے آگاہ کرتے تھے‘ جن سے بچ نکلنے میں وہ بمشکل کامیاب ہوتے ۔ ریڈیو کی دریافت کے بعد جب وہ بحری جہازوں اور کشتیوںمیں نصب ہو اتو کھلے سمندر میں موجود جہازوں سے یہ اطلاعات دور دراز کے ساحلوں تک پہنچنے لگیں ۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہوائی جہازوں سے ان سمندری عفریتوں کا جائزہ لیا جانے لگا‘ پھر خلا میں کرّہ ٔ ارض کے گرد گھومنے والے ایسے سیٹیلائٹ روانہ کیے گئے ‘ آج جو زمین کے چپے چپے پہ نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ساحلوں پہ ریڈار نصب ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج ہم سمندری طوفان کی سمت‘ نوعیت‘ شدّت ‘ ہر چیز تو جانتے ہیں ... امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا 2005ء کے سمندری طوفان اوفیلیا کے مرکز میں بغیر پائلٹ کے ایک طیارہ بھی اتار چکا ہے ۔
کائنات کے اسرار‘ اپنے اندر کا ماجرااور سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی میں ترقی۔طب کے میدان سے لے کر میدانِ جنگ تک‘ اسی بل پہ مغرب نے ہمیں زیر کر رکھا ہے ۔ جو جتنا زیادہ جانتا ہے ‘ اتنا ہی زیادہ طاقتور ہے ۔
سائنسدانوں نے جب زندہ چیزوں کے خلیات کا مشاہدہ کیا‘ جیسا کہ مینڈک سے لے کر انسان تک تو انہیں بہت قیمتی معلوما ت حاصل ہوئیں ۔ یہ معلومات بتاتی ہیں کہ چند کروڑ سال پہلے گوریلے‘ بندر‘ چمپینزی‘ اور نی اینڈرتھل انسان کا جدّ امجد ایک ہی تھا۔آپ اس سے پیچھے چلتے چلے جائیں‘ سب پرندے پیچھے جا کر ایک جدّ امجد سے جڑ جائیں گے ۔جانداروں میں پرندے سب سے آخر میں وجود میں آئے ۔جب کہ میملز ان سے پرانے ہیں ۔ ریپٹائلز ان سے پرانے ہیں اور مچھلی ان سب سے پرانی۔ وہ بتاتے ہیں کہ زندگی پانی میں شروع ہوئی تھی ۔ جب کہ کروڑوں برسوں میں نت نئی سپیشیز سامنے آتی رہیں ۔ ہم نے یہ ساری کہانی نویں جماعت میں بیالوجی میں پڑھی تھی ۔ ہم نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ جب کہ بیالوجی کے استاد کا کہنا یہ تھا کہ بے شک نہ مانو ‘لیکن امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے اسے یاد ضرور کر لو ۔
قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے : زمانے میں انسان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز ہی نہ تھا ۔اسی طرح وہ بار بار ذکر کرتاہے کہ مٹی سے آدم کو پیدا کیا‘لیکن ساتھ ہی یہ ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے پانی سے ہر زندہ شے کو پیدا کیا ۔ان سب چیزوں کو ملا کر جو پڑھنے کے قابل ہو جائے‘ پوری تصویر وہی دیکھ سکتا ہے ۔آدمؑ کے علاوہ جتنے بھی جاندار تھے‘ مکھی سے لے کر شیر تک ‘ ان سب کوزمین پر ہی پیدا کیا گیا تھا۔ انہیں کس طرح سے پیدا کیا گیا ؟ کیا ہارون یحییٰ ٹھیک کہتا ہے کہ سب جانور پلک جھپکنے میں اسی طرح وجود میں آگئے تھے‘ جیسا کہ ہم آج انہیں دیکھتے ہیں یا جیسا کہ سائنسدانوں کی ایک عظیم اکثریت متفق ہے کہ وہ سب کچھ ایک طویل تدریجی عمل میں ہوا تھا ۔ میرے خیال میں سائنسدان ٹھیک بتا رہے ہیں اور وہ بھی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ۔