"FBC" (space) message & send to 7575

انسان کی بساط

سائنسدان جب دنیا کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ سب سے زیادہ جس چیز کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ‘ وہ زندگی ہے ۔ اپنی مشہور دستاویزی فلم into the universe with Stephen Hawkingمیں ہاکنگ کہتاہے کہ کائنات‘ اگرزندگی کو جنم دے سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ اصل میں زندہ چیزیں بھی ہائیڈروجن اور کاربن جیسے انہی عناصر سے بنی ہیں ‘ جن سے مردہ چیزیں بنی ہیں ۔ ہائیڈروجن ‘ کاربن اور آکسیجن وغیرہ ایک ساتھ کہیں پڑی ہوں ‘ جیسا کہ دنیا میں ہر کہیں یہ عناصر بکھرے ہوئے ہیں تو یہ حیرت کی بات نہیں‘ لیکن ان میں سے کچھ آپس میں مل کر ایک زندہ چیز کی حیثیت اختیار کر جائیں تو یہ بہت زیادہ حیرت انگیز بات ہے۔ مغربی سائنسدان اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ کائنات اگر زندگی پیدا کر سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے ‘لیکن دوسری طرف آپ دیکھیں تو یہ کائنات خود بے جان ہے ۔ ستارہ ایک بہت بڑی چیز ہوتاہے ‘لیکن اس میں دماغ نہیں ہوتا‘ مرکزی اعصابی نظام نہیں ہوتا‘ نروز نہیں ہوتیں‘ خون کی شریانیں نہیں ہوتیں‘ ہڈیاں ‘ کھوپڑی اور ٹانگیں نہیں ہوتیں‘ بلکہ بڑے بڑے ستاروں سے لے کر بلیک ہولز تک سب انسان کی طرف سے اپنا نام تک رکھے جانے کے محتاج ہیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ستارے نے آنکھیں کھول کر اپنا مدارخود مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہو ۔ ستارے بے جان ہیں ‘ پھر کائنات کے فیصلے کون کر رہا ہے ؟کبھی کوئی نہیں بتا سکا کہ یہ والا جو ستارہ ہے ‘ یہ عقل رکھتا ہے اور یہ کائنات کے فیصلے کر رہا ہے ۔ اس کے برعکس کھربوں ستاروں میں سے ہر کوئی بجلی کی سی رفتار سے ایک ‘بلکہ کئی مداروں میں بھاگتا چلا جا رہا ہے ۔ 
ہاکنگ یہ تو کہتاہے کہ کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے‘ لیکن یہ کائنات ہے کون ؟ 
یہی صورتِ حال سیاروں کی ہے ۔ مختلف سیاروں میں مختلف قیمتی عناصر موجود ہیں‘ لیکن انسان تو کجا‘ ایک چیونٹی بھی کہیں نظر نہیں آتی ۔ہر طرف resourcesبکھرے ہوئے ہیں ۔ کوئی انہیں استعمال کرنے والا نہیں ۔ کوئی ان کے نام تک رکھنے والا موجود نہیں ‘ سوائے انسان کے ‘ پھر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ انسان اس قابل ہو گیا کہ وہ چیزوں کے نام رکھنے لگا۔ اس نے 92عناصر میں سے ایک ایک کو پہچان لیا۔ یہاں تک جان لیا کہ جاندار بھی انہی بے جان عناصر سے مل کر بنے ہیں ۔ بلیک ہولز جیسی جو چیزیں نظر نہیں آرہیں ‘ ان کا بھی سراغ لگا لیا ‘ جبکہ اگر آپ ڈائنا سار زسے لے کربھینس تک کو دیکھیں تو مرکزی اعصابی نظام (سینٹرل نروس سسٹم)‘ یعنی دماغ جمع ریڑھ کی ہڈی اور پھر جسم بھر میں پھیلی ہوئی nervesتو سب میں موجود ہیں ۔ 
لوگ ڈارون کے نظریہ ء ارتقا کو غلط کہتے ہیں ‘ جس کے تحت چمپینزی اور نی اینڈرتھل مین (Homo Neanderthal)کو انسان کا فرسٹ کزن مانا جا سکتاہے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جانداروں کی خصوصیات کے اعتبار سے انسان اور بھینس میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ۔ جلد سے لے کر گردے‘ پھیپھڑے اور دل تک‘ سبھی کچھ انہی اصولوں پہ کام کر رہا ہے ‘ اسی طرح کی آنتیں ہیں ‘ اسی طرح کا جگر ۔ ڈارون نے اس کے سوا اور کچھ بھی observeنہیں کیا کہ زمین کے بدلتے ہوئے حالات میں زندہ چیزوں میں تبدیلیاں پیدا ہوتی رہیں (اور حتیٰ کہ انسان وجود میں آگیا )۔ 
لیکن دوسری طرف انسان؛ چونکہ ہر چیز کی گہرائی میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتاہے اور وہ خوردبین کے عدسوں سے ایک ایک خلیے کو بھی چھان پھٹک چکا ہے‘ تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ آخری درجے کی نفاست کے ساتھ کسی نے ہمیں ڈیزائن کیا ہے ۔ یہ ڈیزائننگ ‘ یہ وائرنگ اس قدر واضح ہے کہ ایک ماہر ڈاکٹر ‘اگر آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرنے والی ایک تار میں سے کرنٹ روک دے تو آپ کے پائوں میں اٹھنے والا شدید درد دماغ تک نہیں جا سکے گا ۔ یہ کرنٹ منقطع ہونے کے بعد آپ کی ٹانگ بھی کاٹ دی جائے تو آپ کو ذرہ برابر درد بھی محسوس نہیں ہوگا ۔ تو یہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی نے جسم میں تاریں بچھائیں ‘تا کہ اس کے ایک ایک حصے میں ذرا برابر تکلیف؛ حتیٰ کہ چیونٹی کے کاٹنے کا درد بھی پلک جھپکنے میں دماغ تک پہنچے‘ تاکہ جاندار اپنی جان بچانے کی کوشش کریں ۔ یہی صورتِ حال زخم لگنے کی ہے ۔ جیسے ہی زخم لگتا اور خون رستا ہے ‘ ایک نظام متحرک ہوتاہے اور خون خود ہی جم کر زخم کا منہ بند کر دیتا ہے ۔ یہی صورتِ حال دماغ میں بلڈ برین بیرئیرتک ہے ۔ اس سسٹم کے تحت اس قدر سختی اور باریکی کے ساتھ خون کو چھان کر انتہائی ضروری مواد ہی دماغ تک جانے کی اجازت ہوتی ہے ۔ 
پھر‘ جس نے بھی چہرے کی ڈیزائننگ کی ہے ‘ اس نے آخری درجے کا کمال کر دیا ہے‘ اس لیے کہ آپ کے منہ سے آگے حلق سے خوراک کی نالی شروع ہوتی ہے اور ناک سے آگے گلے ہی سے سانس کی نالی شروع ہوتی ہے ۔ اب ہماری سانس کی نالی کا راستہ ناک کی صور ت میں اوپر ہے اور خوراک کی نالی کا راستہ منہ کی صورت میں نیچے ہے ۔اب آپ ایک گرافک ڈیزائنر سے کہیں کہ آپ کی تصویر میں منہ اوپر اور ناک نیچے کر دے ۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان دونوں کی جگہ بدلنے سے چہرے میں کس قدر بھیانک بد صورتی پیدا ہوجاتی ہے ؛حالانکہ جاندار کو زندگی sustain کرنے میں پھر بھی کوئی مسئلہ نہ ہوتا ‘تو کوئی تھا کہ جوخوبصورتی پیدا کرنا چاہتا تھا۔
چہرے میں 14ہڈیاں اور ان ہڈیوں کے اوپر 43عدد مسلز ہیں ‘ جو کہ چہرے کو ایک خوبصورت ساخت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں ‘ پھر ان میں سے ایک ایک مسل تک خون کی شریانوں کے ذریعے ان کی غذا پہنچتی ہے اور ان میں سے ایک ایک مسل کو ہم اپنی nervesکے ذریعے کنٹرول کر سکتے ہیں ‘ لیکن دوسری طرف جہاں life sustaining حرکات کا تعلق ہے تو انسان نہ تو اپنا دل خود دھڑکا رہا ہے ‘ نہ وہ پھیپھڑوں کو خود حرکت دے رہا ہے اور نہ ہی وہ خوراک نگلتے ہوئے سانس کی نالی کو خود بند کر رہا ہے ۔ 
اس کے باوجود آپ خوبصورتی دیکھیں کہ انسان جو کہ اپنا دل کی دھڑکن خود کنٹرول نہیں کر رہا ‘ وہ اپنی آنتوں میں سے غذا کے اخراج کو ایک دو گھنٹوں کے لیے بخوبی روک سکتا ہے ‘ورنہ کتنی شرمندگی ہوتی۔سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ کہ اربوں چہروں میں یہی 14ہڈیاں ‘یہی 43مسلز اور یہی جلد موجود ہے ‘ اس کے باوجود ہر چہرہ دوسرے چہرے سے کس قدر مختلف ہے۔ بقول شاعر:؎ 
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت 
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
اور یہی نہیں ‘ ہرایک کی انگلیوں کے نشان مختلف ہیں ۔اپنے ایک ایک بندے کو اس نے کس قدر اہمیت دی ہے !بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ انسان حیرت میں ڈوب کر رہ جاتا ہے ‘ اسے احساس ہوتاہے کہ وہ خدا کیا چیز ہے ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ تو پھر بندہ خدا سے کہتاہے کہ اے اللہ ‘ مجھے کیوں اس دنیا میں خجل خراب کر رہا ہے ۔ کوئی مال پانی پھینک ‘ ہم بھی کوئی تھوڑی بہت عیاشی مار لیں ۔ اور دنیا میں انسان نے کیا کرنا ہے ۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کا بوجھ میں اپنے کندھوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں ؛حالانکہ کوئی چیز بھی انسان کے اختیار میں نہیں ۔ ایک بڑا آتش فشاں اور آسمان سے آگرنے والا ایک دمدار ستارہ‘ زمین کو زندگی سے پاک کر سکتاہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں