"FBC" (space) message & send to 7575

دلچسپ تحقیقی نوٹس

میرے مطالعے سے کچھ دلچسپ تحقیقی نوٹس اور کچھ نادر خیالات قارئین کی نذر: ۔
1۔ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارتقا کے نتیجے میں انسانی دماغ کا سائز دو گنا تک بڑھا ہے ۔ اس کا وزن صرف تین پائونڈ ہے‘ لیکن یہ جسم میں آکسیجن اور گلوکوز کی صورت میں پیدا ہونے والی توانائی کا بیس فیصد ہڑپ کر جاتا ہے ۔انسانی دماغ کو سب سے بڑا خوف سانس رک جانے کا ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شیر خوار بچوں کے سر پر بھی جب نہلاتے ہوئے پانی ڈالا جاتاہے تو وہ بری طرح ری ایکٹ کرتے ہیں ۔ 
2۔ زندہ چیزوں میں بھی ہائیڈروجن ایٹم استعمال ہوئے ہیں اور خود ہائیڈروجن گیس میں بھی ہائیڈروجن ہے ‘ لیکن یہ ہمارا مغالطہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس مردہ ہے ۔ سب اشیاء زندہ ہیں اور سب تسبیح پڑھتے ہیں ۔ (سجان اللہ) 
3۔ جب ایک عنصر کے مرکز میں پروٹون کی تعدا دبدلتی ہے‘ تووہ ایک عنصر سے دوسرے میں بدل جاتاہے ۔سب سے ہلکے پانچ عناصر ہائیڈروجن سے بورون تک پانچ عناصر بگ بینگ میں بنے تھے ؛ اگرچہ ستاروں میں بھی ہائیڈروجن سے بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ ان پانچ سے آگے سارے عناصر ستاروں میں بنے ہیں ۔ انتہائی درجۂ حرارت اور دبائو میں عناصر کے ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ فیوژ ہوتے ہیں اور بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ اسے نیوکلیر فیوژن کہتے ہیں ۔ بڑے ستاروں میں مرکری بن سکتاہے ‘ جس کا نمبر80 ہے ۔ اس کے مرکزے میں اسی پروٹون ہیں ۔ بہت سے عناصر سپر نووا کے دوران بنتے ہیں ۔ اس میں یورینیم تک‘ یورینیم کا92نمبر ہے ‘ جو سب سے بھاری عنصر ہے ‘ اور نیچر میں کافی تعداد میں پایا جاتاہے ۔کوئی قدرتی عمل ایسا نہیں ‘جو کہ اس سے بھاری عنصر قدرتی طور پر بنا سکے‘ اس کے بعد particle accelatorsانسان نے بنائے ہیں ‘ جن میں ذرات کو انتہائی رفتار سے ٹکرایا جاتاہے اور ایٹموں کے مرکز میں پروٹون کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ سائنسدانوں نے 1993ء میں 93واں عنصر neptuneum بنایا تھا۔ اس کے بعد تعداد بڑھتی چلی گئی ‘ پھر پلوٹونیم بنایا گیا‘ 94نمبر‘جو کہ یورینیم پر ہائیڈروجن کے ایٹم ٹکرا کر بنایا گیا۔
4۔ ہماری کہکشاں میں 400ارب ستارے ہیں اور تقریباً اتنی ہی زمینیں بھی ان ستاروں کے گرد گردش کر رہی ہیں ۔ 
5۔ دماغ میں کل دو قسم کے خلیات ہوتے ہیں ۔ ایک نیورون اور دوسرے نان نیورونل۔ نیوران وہ خلیات ہیں ‘ جو کہ سگنل بھیجتے اور وصول کرتے ہیں (اور محفوظ بھی؟) اور‘ جبکہ باقی تمام خلیات نیورون کے کام کو سپورٹ کرتے ہیں ۔یہ دوسری تمام اقسام کے خلیات نان ایکسائٹ ایبل ہیں ۔ ان تمام کومجموعی طور پر neurogliaیا nerve glue کہا جاتاہے ۔ 
نیورونز کا بنیادی کا م کمیونیکیشن ہے ‘ یعنی کہ معلومات کا بھیجنا اور موصول کرنا ۔ ہر نیوران کے دوسرے نیورانز سے سینکڑوں سے ہزاروں تک کنکشن ہوتے ہیں ۔ سیری برم میں کچھ نیورانز اس سے بھی انتہائی زیادہ لنکس رکھتے ہیں ۔ دماغ کے سو بلین سے زیادہ خلیات اکھٹے کام کرتے ہیں ‘ ان کے ریلیشن شپ مسلسل تبدیل ہورہے ہوتے ہیں ۔ اسی سے وہ مشین بنتی ہے ‘ جس نے ہمیں اس سیارے پر اس قدر کامیاب بنا ڈالا ہے ۔ 
6۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ہر چیز چار عناصر مٹی‘ آگ‘ پانی اور ہوا سے مل کر بنی ہے ۔
7۔ 1600کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے‘ ایک لاکھ سال میں وہ دو سیکنڈ کے برابر رفتار کم ہو جاتی ہے اور اس رفتار سے گھومنا ضروری ہے ‘ ندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ۔ حرارت کی مساوی تقسیم۔ 
8۔ دو طریقے ہیں extinct lifeکا مطالعہ کرنے کے؛ ایک تو ان کے فاسل کا مشاہدہ۔ دوسرا‘ جدید طریقہ شاید 1990ء کے قریب سے آغاز ہوا ہے ۔ وہ ہے ؛باقیات میں موجود خلیات کے ڈی این اے اور جینز کا مشاہدہ ۔ جینز genetic materialہوتاہے ‘جو کہ ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتاچلا جاتاہے ۔ ڈی این اے بہت دیر تک surviveکرتاہے ۔سائنسی تحقیقاتی معلومات کے مطابق؛ سات لاکھ سال پرانا گھوڑے کا جینوم موجود ہے اور چار لاکھ سال پرانا انسان نما مخلوق کا۔ نی اینڈرتھل کا اتنی ہی صحت کے ساتھ موجود ہے ‘ جتنا کہ آج کے کسی انسان کا۔ 
9۔ ہبل سپیس ٹیلیسکوپ 1990ء میں خلا میں بھیجی گئی تھی ۔ سائنسدان آج 200نوری سال کے اندر اندر ہر ستارے کو جانتے ہیں الگ سے ۔ 
10۔ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو nerve impulsesخوراک کی movementکو سلو کر دیتی ہیں ‘ اسی لیے پریشانی میں نظامِ انہضام فوراً متاثر ہوتاہے ‘ بلکہ آج جو 90فیصد مریض نظامِ انہضام کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ‘ ان کا اصل مسئلہ ذہنی پریشانی ہی ہوتاہے ۔ 
11۔ دم دار ستاروں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ سورج اور نظامِ شمسی کی تعمیر کے بعد بچ رہنے والے میٹریل میں سے ہیں ۔ ان کا ایک مبینہ کردار رہا ہے؛ زمین پر پانی کے نقطہ ٔ آغاز‘ اور یہاں تک کہ اس پر زندگی کے آغاز کے بارے میں ایک مبینہ کردار۔ اور نظامِ شمسی کی ابتدا کے بارے میں وہاں سے کچھ معلومات مل سکتی ہیں ۔ یہ دمدار سیارے نظامِ شمسی کے وجود میں آنے کے وقت کے اجزا پر مشتمل ہیں ۔ اور ان سے ماہرین 4.6ارب سال پہلے کے اجزا کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ 
12۔ کہا جاتاہے کہ کرّۂ ارض کی ابتدا کا ماحول مختلف تھا۔ آب وہوا مختلف تھی۔ آکسیجن کی بجائے سلفر ڈائی آکسائیڈ ‘ کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ یعنی گرین ہائوس گیسز زیادہ تھیں ۔ آتش فشانی زیادہ تھی۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ اس دور میں موجودہ زندگی surviveنہیں کر سکتی تھی ۔ 
13۔ بیکٹیریا جب ڈی کمپوز ‘یعنی لاش کے گوشت کا صفایا کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت کیا ہورہا ہوتاہے ؟ اس وقت وہ سلفیٹ کو اندر لے جا رہے ہوتے ہیں اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کو باہر نکال رہے ہوتے ہیں ‘اپنے اجسام سے ؟ اور زندہ اجسام کے ساتھ وہ یہ سلوک کیوں نہیں کر سکتے ؟ 
14۔ ذہنی امراض کے شکار افراد؛ حتیٰ کہ نارمل انسانوں میں سے بھی بعض نیند میں بعض اوقات اپنے قریب کسی دوسرے شخص ‘بلکہ بھوت کی موجودگی محسوس کرتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہ انہیں گھو ر رہا ہوتاہے ۔ سائنسدانوں نے اب اس کی حقیقت دریافت کر لی ہے اور لیبارٹری میں اس بھوت کو پیدا بھی کیا گیا ہے ۔ اور یہ ہوتاہے سینسری موٹر سگنلز میں خلل پڑنے سے ۔ واضح رہے کہ sensorimotor brain signalsہی کی مدد سے انسان اپنے وجود کا احساس کرپاتاہے ۔ اس نظام میں بعض اوقات خلل پڑے تو انسان اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کی موجودگی کو محسوس کرنے لگتاہے ۔ 
15۔ ڈائنا سارز کے ختم ہونے کے بعد جلد ہی زمین میملز سے بھر گئی تھی ۔ اور یہ ہوا تھا؛ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے۔ کرّہ ٔ ارض کی تاریخ میں 53کروڑ سال پہلے ایک بہت بڑاوا قعہ ہوا تھا ۔ اسے؛ cambrian explosionکہتے ہیں ۔ اس موقعے پر fossil recordمیں rapid diversification ہوئی تھی‘ animal life میں ۔ rapid diversification of animal life in fossil record. اسے کرّہ ٔ ارض کی تاریخ میں most significant eventsمیں سے ایک کہا جا تاہے ۔ all modern animal groupsمنظر ِعام پر آئے یکایک۔
اسے ڈارون ڈائلیما Darwin dilemma بھی کہا جاتاہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں