آج کا کالم میرے مطالعے میں سے کچھ اہم نوٹس پر مشتمل ہے‘ لیکن اس سے پہلے ایک وضاحت ۔ یہ نوٹس کہیں کسی کتاب یا دستاویز سے حرف بحرف کاپی شدہ ہرگز نہیں اور اگر یہ کہیں سے نقل کیے گئے ہوں تو میں اس کا ذمہ دار ہوں ۔ آج کے دور میں تو جسے گوگل سرچ انجن استعمال کرنا آتا ہو‘ وہ با آسانی سرقہ پکڑ سکتا ہے ‘البتہ بے شمار ادق دستاویزات کا مطالعہ کر کے ان میں سے دلچسپ حقائق کا انتخاب اور پھر اس سے کہیں بڑھ کر ان معلومات کو آسان الفاظ میں قارئین کے سامنے پیش کرنا ایک مشکل کام ہے ‘ جس میں کافی وقت صرف ہوتا ہے ۔
1 ۔ جب انسان انتہائی خوفناک صورتِ حال میں بھی عقلمندی کے ساتھ ری ایکشن دیتاہے تو اس وقت اس کی عقل دماغ کے حصے amygdalaکے خوف پہ غالب آجاتی ہے ۔ شہیدوں میں یہی ہوتا ہے ۔
2۔ جیٹ سٹریمز کی شکل میں ایک پورا نظام رکھا گیا ہے جو کہ کرّہ ٔارض کو گرم رکھتا ہے۔ ان سٹریمز کے مطالعے میں حیرت کی بہت بڑی چیزیں موجود ہیں ۔ اس وقت انسان کی سرگرمیوں ‘ جیسا کہ فاسل فیول جلانے کے نتیجے میں شمالی جیٹ سٹریمز جنوب کی طرف منتقل ہو رہی ہیں ۔ اگر انٹارکٹکا پورا کا پورا پگھل جائے تو سمندروں کا پانی 200فٹ اوپر جائے گا ۔
3۔جب ایک عنصر کے مرکز میں پروٹون کی تعدا دبدلتی ہے تووہ ایک عنصر سے دوسرے میں بدل جاتاہے ۔ یہ کام ہمارے سورج سمیت ہر ستارے کے مرکز میں ہو رہا ہوتاہے ۔ اسی عمل میں توانائی اور روشنی پیدا ہوتی ہے ‘ جس سے کرّہ ٔ ارض جیسے سیاروں کو حرارت میسر آتی ہے جو ہماری زمین پر زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ آج انسان بھی اس قابل ہو چکا ہے کہ وہ ایک عنصر کو دوسرے عنصر میں بدل سکتاہے ۔
4۔ یورینیم 92واں عنصر وہ سب سے بھاری عنصر ہے ‘ جو کہ نیچر میں کافی تعداد میں پایا جاتاہے۔ کوئی قدرتی عمل ایسا نہیں جو کہ اس سے بھاری عنصر قدرتی طور پر بنا سکے ۔ اس کے بعد particle acceleratorانسان نے بنائے ہیں ‘ جن میں ذرات کو انتہائی رفتار سے ٹکرایا جاتاہے اور ایٹموں کے مرکز میں پروٹون کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ اس رفتار پر ٹکرا کر سائنسدانوں نے 1993ء میں 93واں عنصر Neptunium بنایا تھا۔ اس کے بعد تعداد بڑھتی چلی گئی ‘ پھر پلوٹونیم بنایا گیا‘ 94نمبر جو کہ یورینیم پر ہائیڈروجن کے ایٹم ٹکرا کر بنایا گیا۔ پلوٹونیم سے ایٹم بم بنایا گیا‘ جو کہ ناگا ساکی پر گرایا گیا۔
5 ۔ہماری کائنات میں 92عناصر قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں ۔ انسان سمیت سب زندہ او رمردہ چیزیں انہی 92عناصر سے بنی ہیں۔ سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ متوازی طور پر کئی کائناتیں موجود ہو سکتی ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ ان میں سے کسی کائنات میںعناصر کی تعداد 92سے زیادہ ہو ۔ اگر ایسا ہو تو ہمارے لیے یہ عناصر جادوئی خصوصیات کے حامل ہو سکتے ہیں ‘البتہ اُس کائنات کے رہنے والوں کے لیے وہ عام سے عناصر ہو ں گے ۔
6۔ انسان سب جانوروں پر اس لیے حاوی ہے کہ اس کے دماغ میں عقل والا حصہ سیریبرل کارٹیکس دوسرے سب جانداروں سے زیادہ ہے ۔ دماغ کے سو بلین سے زیادہ خلیات اکھٹے کام کرتے ہیں ‘ ان کے ریلیشن شپ مسلسل تبدیل ہورہے ہوتے ہیں ۔ اسی سے وہ مشین بنتی ہے ‘ جس نے ہمیں اس سیارے پر اس قدر کامیاب بنا ڈالا ہے ۔
7۔ امیون سسٹم‘ بلڈ برین بیرئیر اور سیریبروسپائنل fluidسمیت جسم میں کئی حفاظتی نظام کا م کر رہے ہوتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے ہم صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہیں ۔
8۔ یہ بھی قطعاً ثابت نہیں کہ سائز میں دماغ بڑا ہونے سے ذہانت زیادہ ہوتی ہے ۔ بعض بڑے ذہین فطین آدمیوں کے دماغ کا وزن اور حجم نسبتاً کم ہوتاہے ۔ ہومو نی اینڈرتھل کے دماغ کا سائز ہومو سیپینز سے بڑا تھا لیکن ہومو سیپینز اس سے ہزاروں گنا زیادہ سمارٹ ہے ۔
9۔مردوں کی نسبت خواتین میں دماغ کے دائیں اور بائیں حصے کے درمیان زیادہ کنکشنز ہیں ‘شاید اسی لیے ان کی کمیونی کیشن کی صلاحیت مردوں سے زیادہ ہے ۔ وہ جلدی آپس میں دوستی کرتی اور معلومات کا تبادلہ کرتی ہیں ۔
10۔ہمارے چاند کی جس طرف دھوپ ہو‘ وہاں 130Cاور جہاں سایہ وہاں -180Cڈگری تک درجۂ حرارت گر تا رہتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک سیارے یا چاند پر بھاری آب وہوا (Thick Atmosphere)نہیں ہوگی ‘ اس پر پانی نہیں ہوگا تو اس کے موسموں میں انتہائی شدت آجائے گی۔ رات اور دن کے درجہ ٔ حرارت میں بہت زیادہ فرق آجائے گا۔ زندہ چیزیں بہت نازک ہوتی ہیں ‘ وہ اتنے بڑے فرق کو سہہ نہیں سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی زمین کے کسی ملک میں موسم بدلنے لگتا ہے تو بہت سے لوگ ‘ بالخصوص بچے بیمار ہو جاتے ہیں ۔
11۔نیچر ڈاٹ کام پر ایک ریسرچ شائع ہوئی ہے ۔ کنگز کالج لندن سے تعلق رکھنے والا Behavioural genetics(جینیاتی ماہر) رابرٹ پلومن کے مطابق ہم ذہانت کے جینزپچھلے پندرہ برس سے تلاش کر رہے ہیں لیکن کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ۔ سینکڑوں جینز کے بارے میں خیال کیا جا تاہے کہ ان میں سے ہر ایک انسانی ذہانت کا حصہ بنتا ہے ۔
12۔ انسان 1920ء تک یہ سمجھتا تھا کہ کرّہ ٔ ارض میں کے سارے ستارے صرف ہماری کہکشاں ملکی وے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس بارے میں ماہرینِ فلکیات ہارلو شیپلے اور ہیبر کرٹس میں گرما گرم بحث بھی ہوئی لیکن پھر ایڈون ہبل نے جو مشاہدات کیے ‘ اس نے ثابت کیا کہ ملکی وے توکہکشائوں میں سے صرف ایک کہکشاں ہے ۔
13۔ 1974ء میں برٹش ماہرِ فلکیات سر مارٹن ریس( Rees)نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ کچھ کہکشائوں کے مرکز میں کئی ملین حتیٰ کہ بلین سورجوں کے برابر کمیت رکھنے والے بلیک ہولز موجود ہیں ‘ جنہیں supermassive black holesکہا جاتا ہے ۔
14۔ سٹیون ہاکنگ کہتاہے کہ بیسویں صدی سے پہلے کسی انسان نے یہ نہیں سوچا تھا کہ کائنات پھیل یا سکڑ سکتی ہے ۔ لیکن آج سب کو معلوم ہے کہ کائنات تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ اس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ کائنات جیسی ہے ‘ ویسی ہمیشہ سے پائی جاتی تھی ۔ سٹیون ہاکنگ کہتاہے کہ آخری آئس ایج تقریباً دس ہزار سال قبلِ مسیح سے پہلے ختم ہوئی تھی او ریہ وہی وقت ہے ‘ جب آرکیالوجسٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ تہذیبوں کا آغاز صحیح معنوں میں شروع ہوا تھا۔سٹیون ہاکنگ کہتاہے کہ ارسطو اور دوسرے یونانی مفکرین یہ سوچتے تھے کہ کائنات اور انسانی نسل ہمیشہ سے موجود تھی اور موجود رہے گی کیونکہ وہ کائنات کی تخلیق کا نظریہ اس لیے پسند ہی نہیں کرتے تھے کہ انہیں بہت زیادہ divine interventionپسند نہیں تھی ۔
15۔ دو طریقے ہیں extinct lifeکا مطالعہ کرنے کے۔ ایک تو ان کے فاسل کا مشاہدہ‘ دوسرا جدید طریقہ ہے اور وہ ہے باقیات میں موجود خلیات کے ڈی این اے اور جینز کا مشاہدہ ۔ جینز genetic materialہوتاہے جو کہ ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتاچلا جاتاہے ۔ ڈی این اے بہت دیر تک surviveکرتاہے ؟ڈی این اے او رجینز پڑھنے کی صلاحیت حاصل ہونے کے بعد جن فیلڈز کو فائدہ ہوا ‘ ان میں Palaeontology،Evolutionary biology، Archaeology اورforensic science۔ سات لاکھ سال پرانا گھوڑے کا جینوم موجود ہے ۔ نی اینڈرتھل کا جینوم اتنی ہی صحت کے ساتھ موجود ہے ‘ جتنا کہ آج کے کسی انسان کا۔