"FBC" (space) message & send to 7575

نظریہ ٔ ارتقا آسان ترین الفاظ میں !

اگر آپ انسانی تاریخ کو پڑھیں تو یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اس کا بہت بڑا حصہ غلط فہمیوں پر مشتمل ہے ۔ افریقہ میں جو قدیم ترین انسانی فاسلز ملے ہیں ‘ ان کی عمر تین لاکھ سال ہے۔ تو ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کا انسانی علم یہ کہتا ہے کہ انسان تین لاکھ سال سے اس کرّہ ٔ ارض پہ اپنی زندگی گزار رہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ تین لاکھ سال میں سے ابتدائی اڑھائی لاکھ سال میں وہ کیا کر رہا تھا؟ اس کے بعد کیا ہوا کہ یکایک وہ مردے دفنانے اور عبادت کرنے لگا؟ ان پچاس ہزار سال میں سے بھی قریب اڑتالیس ہزار سال تک انسان بہت بڑی غلط فہمیوں کا شکار تھا ۔ اس کا خیال یہ تھا کہ کرّہ ٔ ارض کائنات کا مرکز اور محور ہے ۔
یہ پانچ صدی پہلے کا قصہ ہے ‘ جب انسان دور تک دیکھنے والی دوربین بنا کر کائنات کا جائزہ لینے کے قابل ہوا۔ آہستہ آہستہ انسان اس قابل بھی ہو گیا کہ وہ اوپر خلا میں جا کرنظر بھر کے کرّہ ٔ ارض کا جائزہ لے سکے ۔ اس کے ساتھ ہی انسان کو معلوم ہوتاہے کہ وہ تو خوش فہمیوں کی جنت میں جی رہا تھا۔ کرّہ ٔ ارض کائنات کا محور و مرکز قطعاً نہیں ‘بلکہ ہم تو صحرا کا ایک ذرّہ ہیں ۔ 
اسی طرح انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا حصہ ان غلط فہمیوں پہ مشتمل ہے ۔ انسان آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ کائنات کا نظام چلانے کے لیے انسان کی موجودگی ناگزیر ہے ۔ مشہور فلکیات دان سٹیون ہاکنگ کا کہنا یہ تھا کہ اگر انسان باقی رہنا چاہتاہے تو اسے اگلے سو سال میں خلا میں (زمین کے علاوہ)کسی اور جگہ زندگی بسانی ہوگی ۔ انسان آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ ختم ہو گیا تو کائنات بھی ختم ہو جائے گی ۔ جب آپ کائنات کی وسعتوں میں پیدا اور فنا ہوتے سورجوں اور ان کی زمینوں کو دیکھتے ہیں تو یہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک آدمی خود کو ناگزیر سمجھتا ہے‘ لیکن اس کی موت کے بعد بھی دنیا کا نظام اسی روانی سے چلتا رہتاہے ۔ انسان اپنے علم کی بنیاد پر اپنے آپ کو لافانی سمجھتا ہے ‘لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایک بہت بڑا عالم اگر ایک ایکسیڈنٹ میں مر جاتاہے تو اس کا علم اسے بچا تو نہیںسکتا۔ یا تو انسان اس قابل ہو جائے کہ وہ اپنی عمر میں اضافے‘ بڑھاپے اور موت کو روک سکے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان لافانی ہو چکا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتاہے ‘ جیسا کہ بہت بڑے پیمانے پر آتش فشانی پورے کرّہ ٔ ارض پہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ بڑے پیمانے پر سونامی آتے ہیں۔ یا سمندروں کا پانی پچاس فٹ تک اونچا ہو جاتاہے تو انسان کیسے surviveکرے گا ؟
چاند اور مریخ سمیت آس موجود کوئی سیارہ ایسا تونہیں کہ وہاں زندگی قائم رہ سکے ۔ وہاں آکسیجن‘ بھاری آب و ہوا ‘ اوزون‘ مقناطیسی میدان‘ بارش اور پودوں سمیت زندگی کو قائم رکھنے والے اہم نظام تو موجود ہی نہیں ‘ پھر کیسے مستقل بنیاد پر انسان کسی اور سرزمین پہ زندہ رہ سکے گا ؟ فرض کریں کہ اگر ایک انسان کامیابی کے ساتھ مریخ پر جاتاہے تو پھر وہ اس کی ہڈیوں اور musclesوغیرہ کو جو نقصان کم کششِ ثقل سے ہوگا‘ اس کے بعد وہ واپس زمین پر زندگی گزارنے کے قابل تو نہیں رہے گا۔خلا میں زندگی گزار موت سے بدتر ہے ۔ رفع حاجت کرنا ہی ایک عذاب ہے ۔
اسی طرح ڈارون کے نظریہ ٔ ارتقا کو انسانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد غلط سمجھتی ہے ۔ بر صغیر میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ ڈارون انسان کو بندر کی اولاد کہتاہے اور یہ بات کسی طرح بھی مانی نہیں جا سکتی ۔لوگوں نے اس بات میں بڑی ذلت محسوس کی کہ ہمیں بندروں کی اولاد کہا جائے ۔ 
ڈارون بڑے پیمانے پر فاسلز کے مشاہدے کے بعد جو نتائج اخذ کر رہا تھا ‘جسے بعد میں سائنسی دنیا نے تسلیم کر لیا‘ وہ اس سے بہت مختلف تصورات تھے ۔ نظریہ ارتقا کی روشنی میں جب انسان مختلف جانداروں کے آبائو اجداد تو معلوم ہوتاہے کہ پیچھے جا کر مختلف جانداروں کے آبائو اجداد مشترک نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے شیر اورچیتے کے فاسلز کا مشاہدہ کرتے جائیں تو انکشاف ہو کہ لاکھوں سال پیچھے جا کر ان کا جد امجد ایک ہی ہے ۔ یہی نہیں‘ بلکہ اس سے کچھ لاکھ سال پیچھے جا کر علم ہو کہ چیتے ‘ شیر اورجیگوار کا جدِ امجد بھی ایک ہی ہے ۔ اس سے کچھ لاکھ سال پیچھے چلے جائیں تو آپ کو علم ہوگا کہ چیتے‘ شیر‘ جیگوار اور حتیٰ کہ بلی کا جدّامجد بھی ایک ہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانور تھا‘ جس کا نام چیکر (فرضی نام ) فرض کر لیں ۔ یہ ان سب کا جدّامجد تھا۔ اسی سے آگے جا کر شیر‘ چیتے‘ جیگوار اور بلی کی الگ الگ سپیشیز پیدا ہوئیں۔ 
شیر ‘ چیتے اور بلی کی جگہ گھوڑا اور خچر لے لیں اور لاکھوں سال پیچھے کا سفر کرتے جائیں ۔ یہی نتائج نمودار ہوں گے ۔ یہ نتائج ہوا میں تصور نہیں کیے جا رہے‘ بلکہ ان کی بنیاد ڈی این اے پر ہے ۔ ایک ایک جین کی معلومات مل رہی ہیں‘ جس کی مدد سے اناٹومی کے ماہرین جانداروں کی ایک ایک ہڈی کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان نتائج پر پہنچ رہے ہیں ۔اس میں بے ایمانی کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے اگر آپ دو مختلف کمپنیوں کی گاڑیوں کے پرزے ایک دوسرے میں گھسیڑنے کی کوشش کریں تو جو شخص گاڑیوں کا ماہر ہے ‘ وہ آنکھیں بند کے بتا سکتاہے کہ کہاں جعل سازی کی گئی ہے ۔ 
اسی طرح جب آپ چمپینزی‘ گوریلے اور دوسرے پرائمیٹس کے آبائو اجداد کا جائزہ لیتے جائیں تو پھر ان کا جدّامجد ایک ہی نکلتا ہے ‘ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی‘ آپ لاکھوں سال کی بجائے کروڑوں اور اربوں برسوں میں سفر کرنا شروع کریں تو پھر پرائمیٹس اور میملز کے جدّامجد مشترک نکلنا شرو ع ہو جاتے ہیں ۔ اس سے پیچھے جائیں توہو سکتاہے کہ پرائمیٹس‘ میملزاور حتیٰ کہ رینگنے والے جانوروں‘ یعنی ریپٹائلز (سانپ وغیرہ) کے اجداد بھی ایک ہی تھے ۔ اس سے پیچھے جائیں تو مچھلی اور ریپٹائلز کے جدّامجد مشترک نکل آئیں ۔ اس سے پیچھے جائیں تو پتا چلے کہ دنیا میں پرائمیٹس‘ میملز ‘ ریپٹائلز‘ پرندوں اور مچھلیوں سمیت ہر جاندار کا جدّامجد ایک ہی تھا۔ اور یہ جدّامجد کون تھا؟ اپنے ذہن پہ زور ڈالیے۔ 
تمام جانداروں کا یہ جدّامجد تھا ایک زندہ خلیہ ۔ یہ زندہ خلیہ تخلیق ہوا ہائیڈرو کاربنز سے جو کہ زمین کی مٹی میں پائے جاتے تھے۔ خدا نے اس میں پانی ملایا اور اس سے پہلا زندہ خلیہ پیدا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ'' دہر‘‘ کی پہلی آیت میں خد اکہتا ہے کہ انسان پر زمانے میں ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔ اب اگر میں ان سب چیزوں کا انکار کرنا چاہتا ہوں ‘لیکن مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ڈی این اے کو کیسے پڑھا جاتا ہے تو میری کون سنے گا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے گاڑیوں کا ایک مکینک یہ کہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جو یورینیم افزودہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے ‘ وہ غلط ہے ۔ یورینیم افزودہ ہو ہی نہیں سکتی۔ظاہر ہے کہ دنیا اس بات پہ ہنسے گی ۔ یہی تو ہو رہا ہے ۔ جب نام نہاد دانشور لوگ یہ کہتے ہیں کہ ارتقا کبھی ہواہی نہیں ‘تو ڈی این اے ‘ فاسلز‘ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ وغیرہ کے ماہرین اسی طرح ہنستے ہیں ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں