"FBC" (space) message & send to 7575

جسم اوردماغ کی فریاد

یہ ہزاروں برس پہلے کی بات ہے ۔ پہیہ ایجاد ہو چکا تھا ‘ جب کہ انجن کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ ڈاکوئوں سے بچنے کے لیے لوگ قافلوں کی شکل میں چلا کرتے۔ یہ ایسے ہی ایک قافلے کا ذکر ہے۔ ہزاروں افراد پر مشتمل یہ قافلہ جنوبی ایشیاء سے مشرقِ وسطیٰ جا رہا تھا ۔ ملک احمد نامی ایک فربہ اندام شخص سب لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا۔یہ بہت سا مال و متاع ‘ بالخصوص اشیائے خورو نوش کے تھیلے اٹھائے رکھتا تھا۔ لوگ اس سے جب اس بارے میں سوال کرتے تو وہ کہتا کہ برے وقت کا کوئی پتہ نہیں ‘جس قدر ہو سکے‘ مال اکٹھاکر لینا چاہیے ۔ 
جو لوگ قافلوں میں سفر کے عادی تھے‘ وہ اس کی ان حرکتوں پہ ہنستے رہتے۔ وہ اتنا مال اکٹھا کر چکا تھا کہ اس کے دو عدد اونٹ مکمل طور پر بھر چکے تھے۔ ایک دن قافلے والوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ مستقبل کے اندیشوں سے لرزتے ہوئے اس شخص نے گندم کا ایک تھیلا اپنی پیٹھ پر لاد رکھا تھا کہ اونٹوں پرتو مزید سامان کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔ لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اس طرح سے یہ طویل سفر مشکل ہوجائے گا۔ موٹاپے کی وجہ سے تیز چلنا پہلے ہی اس کے لیے مشکل تھا‘ لیکن وہ اسی حالت میں سفر کرنے پر مُصر تھا ۔ 
چند روز بعد لوگوں نے دیکھا کہ ملک احمد کی پشت پر لدے ہوئے تھیلوں کی تعداد دو ہو چکی تھی ۔ لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اپنے سفر کو یوں اذیت نہ بنائے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ برے وقت کا کیا پتہ۔ یہ نہ ہو کہ کل کلاں قحط پڑ جائے اور اسے بھوکا رہنا پڑے۔ اس لیے جس قدر سامان اکٹھاکیا جا سکتاہے ‘ کر لینا چاہیے‘ بلکہ وہ تو الٹا سمجھانے والوں کی حالتِ زار پر افسوس کر رہا تھا کہ وہ بھی اپنی پیٹھوں پر اناج کے تھیلے اٹھا کیوں نہیں لیتے ۔
قافلہ اپنی منزل کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ ایک صبح جب جرس ِ کاررواں بلند ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ ملک احمد بدستور اپنی جگہ پرلیٹا ہوا ہے ۔ اس کا سر اناج کے ایک تھیلے پر دھرا تھا ۔ جب انہوں نے اسے ہلایا تو اس کا سر تھیلے سے نیچے گر گیا۔ وہ مر چکا تھا۔ قافلے والے کہتے ہیں کہ ملک احمد نے اپنا یہ سفر بڑی مصیبت میں بسر کیا ۔ بھرپور سامان سے لدے ہوئے دو اونٹو ں کے باوجود اس نے اناج کے دو تھیلے اپنی پیٹھ پر لادے رکھے۔ جو سامان وہ اکٹھاکر رہا تھا‘ وہ اس کے کسی کام نہ آیا ۔ 
اس کہانی پہ ہنسنے کی ضرورت نہیں ۔ ا س لیے کہ یہ ہم سب کی کہانی ہے ۔ ہم سب ملک احمد ہیں ۔ ہمیں بہت کچھ اللہ نے دیا ہے‘ لیکن مستقبل میں بھوکے مرنے کا خوف زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے پر اکسائے رکھتا ہے ۔ خوراک ہمیں اس کثرت سے مہیا ہے کہ زیادہ کھا کھا کر ہم سب کا وزن بڑھ چکا ہے ۔ اس کے باوجود بھوک کا خوف ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جو لوگ بالکل خالی ہاتھ ہیں ‘ ان کی بے قراری تو سمجھ آتی ہے‘ لیکن جن لوگوں کے پاس کافی مال اکٹھا ہو چکا ہے ‘ وہ خالی ہاتھ والوں سے بھی زیادہ مضطرب ہیں ۔ 
ڈاکٹر عاصم حسین ‘ آصف علی زرداری ‘ نواز شریف ‘فریال تالپور‘شرجیل میمن‘ ان میں سے ہر ایک اس قدر مال اکٹھا کر چکا ہے کہ جسے وہ اور اس کا پورا خاندان ساری زندگی کھاتے رہیں تو ختم نہ ہو‘ لیکن اس کے باوجود ایک شدید اضطراب ہے ۔مال اکٹھا کرنے کی دھن میں ان کی صحت خراب ہو چکی ہے ۔ اس کا اندازہ یوں ہوتاہے کہ جو شخص بھی گرفتار ہوتاہے ‘ وہ سب سے پہلے ہسپتال اور ڈاکٹر تک رسائی مانگتا ہے ۔ وزن گرنا شروع ہو جاتا ہے ۔معلوم ہوتاہے کہ دنیا بھر کی بیماریاں اسی کو لاحق ہیں ۔
جب کہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ بنایا جا ہی نہیں سکتا۔ آپ روزانہ کا ایک کروڑ روپیہ کمانا شروع کر دیں ‘مگر آپ مستقل طور پر ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو جائیں یا آپ کے گردے ناکارہ ہو جائیں‘ آپ کو قبض رہنے لگے ‘ مائیگرین کی تکلیف ہو جائے توآپ کا یہ سارا مال و متاع بے کار ہے‘ اسی طرح آپ دنیا بھر کی دولت اکٹھی کر لیں ‘لیکن آپ کا ایک بیٹا دوسرے ذہین بیٹوں کی نسبت احمق ہو تو آپ اس غم سے نہیں نکل پائیں گے کہ اس کمتر بیٹے کا کیا بنے گا ۔آپ کے بعد کون اس کا خیال رکھے گا ۔آپ کے پاس اس چیز کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کسی لا علاج بیماری کا شکار نہیں ہو جائیں گے ۔ 
خدا نے یہ دنیااس طرح سے بنائی ہے کہ اسے ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ بنایا جاہی نہیں سکتا۔ یہ بنی ہی آزمائش کے لیے ہے ۔باکسر محمد علی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ وہ انتہائی امیر ‘ طاقتور اور مشہور شخص تھا ۔ انسانی تاریخ کے سب سے بہترین کھلاڑیوں کی فہرست بنائی جائے تو وہ سرفہرست ہے ۔ اس کا ایک گھونسہ حریف کو چاروں شانے چت کر دیتا تھا۔ اس کے بعد اسے پارکنسن کی بیماری لاحق ہو ئی ؛حتیٰ کہ وہ وقت آیا ‘ جب دنیا کے اس طاقتور ترین شخص کو بولنے اور پانی کا گلاس پکڑنے میں بھی دقت ہونے لگی ۔ 
باکسرمحمد علی نے تو خیر چار عشروں پہ محیط اپنی بیماری کا عرصہ نہایت صبر اور استقامت سے گزارا ۔ اسے کبھی روتے پیٹتے نہیں دیکھا گیا۔ کہاجاتاہے کہ یہ بیماری ہی اس کی زندگی کی سب سے خوفناک فائٹ تھی‘ جس میں وہ آخر کار وہ فاتح ثابت ہوا ۔ 
انسان جب دولت کے ڈھیر اکٹھے کر رہا ہوتاہے ‘تو وہ دنیا کی اس سب سے بڑی حقیقت کو نظر انداز کر رہا ہوتاہے کہ مستقبل کو تو predict کیا جا ہی نہیں سکتا۔ انسان اس لیے زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کر تا ہے کہ وہ مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتاہے۔ ملک احمد کی طرح اس خوف کا شکار ہے کہ کل اسے بھوکا نہ مرنا پڑے۔ 8اکتوبر2005ء کو جب پاکستان میں ایک بدترین زلزلہ آیا تو کتنے ہی بڑے بڑے تاجر پلک جھپکنے میں عمارتوں کے ملبے تلے دم توڑ گئے۔ ان کے ذہنوں میں بھی تو بڑے بڑے منصوبے تھے ۔ مستقبل تو predictکیا جا ہی نہیں سکتا‘ورنہ کیا معمر قذافی اس طرح سڑک پہ قتل کیا جاتا۔ صدام حسین یوں پھانسی چڑھایا جاتا ؟ اسی ملک میں ‘ جہاں یہ دونوں حکمران کوس لمن الملک بجایا کرتے تھے ۔ 
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مستقبل کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ ملک احمداناج ڈھوتے ڈھوتے مر گیا اور یہ اناج وہ استعمال ہی نہیں کر سکا۔ اسی طرح انسان مال اکٹھاکر تا ہوا مر جاتا ہے ۔ پھر پتہ چلتاہے کہ یہ مال تو اس کا تھا ہی نہیں ‘بلکہ یہ ورثا کا مال تھا۔ یہ ان میں تقسیم ہونا تھا اور میں خواہ مخواہ اسے ڈھوتے ڈھوتے مر گیا ۔ اس مال کو پیٹھ پر لادنے کی وجہ سے زندگی کا میرا سفر بھی خاصی تکلیف میں کٹا ۔
زندگی کے اس سفر کو حکمرانوں کی طرح صرف دولت اکٹھی کرنے کے پاگل پن میں نہ گزاریں۔ آپ کے جسم اور دماغ کی کچھ ضروریات ہیں ۔ غور و فکر ‘ ورزش‘ سیر و تفریح اور عبادت‘ آپ کا جسم اور دماغ ان کی بھیک مانگ رہا ہے ۔ آپ کا جسم آپ سے فریاد کررہا ہے کہ اسے اضافی وزن سے چھٹکارا دلائیں ۔ خدارا... اپنے جسم و دماغ کی فریاد پر غور کریں ...!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں