زندگی میں کبھی نہ کبھی ہر شخص ‘ بالخصوص طالب علموں کے ساتھ ایسا ضرورہوتاہے کہ ضروری ڈیٹا غلطی سے ڈیلیٹ ہو جاتا ہے ۔ 2007 ء میں پنجاب کالج آف کامرس کی طرف سے ہم گریجویشن کے طلبا ناران گئے۔ اس وقت تک سمارٹ فونز کا استعمال بہت کم تھا۔ عادل نامی ایک لڑکا ڈیجیٹل کیمرے سے اپنے گروپ کی تصاویر بنا رہا تھا۔ آخری دن ا س نے چھیڑاچھاڑی کرتے ہوئے غلطی سے ایک بٹن دبا کر سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا۔ جب بھانڈا پھوٹا تو اس پورے گروپ کی شکلیں دیکھنے والی تھیں۔
مجھے وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے ۔''خود سے خدا تک ‘‘ پرنٹنگ کے لیے پبلشر کو دینا تھی ۔آخری شب میرے عزیز ترین دوست ناصر افتخار نے ‘جو خود آئی ٹی کاایک زبردست ماہر ہے ‘ غلطی سے ایک بٹن دبایا اور مسودہ ڈیلیٹ ہو گیا۔یہ وہ مسودہ تھا‘ بڑی محنت سے جسے اس نے آخری بار ایڈیٹ کیا تھا ۔ ہم دونوں گلبرگ میں ''اخوت‘‘ کے ہاسٹل میں قیام پذیر تھے ۔کافی دیر تک ہم بیٹھے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے رہے ۔ ہمارے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر نے ہمیں یہ پیشکش کر رکھی تھی کہ فروری کے سالانہ لیکچر میں ان کے ہاتھ سے کتاب کی رونمائی ہو۔ اتنے بڑے اعزاز سے ہم محروم رہ گئے ‘ صرف ڈیٹا ڈیلیٹ ہونے کی وجہ سے‘ناصر افتخار نے پھر ریکوری کے سافٹ وئیرز چلائے اور جو کچھ ریکور ہوسکتا تھا‘ وہ ریکور کیا‘ لیکن جو ہونا تھا ‘ وہ ہو چکا تھا۔ خیراب تو آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں ''خود سے خدا تک ‘‘ کا تیسرا ایڈیشن چھپ رہا ہے اور یہ ایک شاندار تصنیف ہے۔اس سے پہلے میں نے ایسی چیز کبھی نہیں پڑھی ۔
آج سمارٹ موبائل فونز کی صورت میں ہم سب نے ایک ایک صندوق اٹھا رکھا ہے ۔ اگر کسی شخص کے ہاتھ یہ چھوٹا ساصندوق لگ جائے تو وہ چند منٹ میں ہماری پوری زندگی کا جائزہ لے سکتا ہے ۔ ہمارے اچھے اور برے اعمال اس کے سامنے کھل جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر پاس ورڈز لگائے جاتے ہیں ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی تاک میں رہتے ہیں کہ یہ پاس ورڈ ہاتھ لگ جائے تو پتا چلے کہ میرا شریکِ حیات کس سرگرمیو ںمیں ملوث ہے ۔ لڑائیوں سے بڑھ کر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ‘ اسی طرح جب موبائل فون گم ہوتا یا چھین لیا جاتاہے تو سب سے بڑا مسئلہ اپنے ڈیٹا تک رسائی اور اس سے بھی سنگین مسئلہ دوسروں سے اس ڈیٹا کی حفاظت ہوتا ہے ۔اب تو ایسے آپشن بھی موجود ہیں کہ موبائل چوری ہونے پر آپ اس کا ڈیٹا انٹرنیٹ کی مدد سے گھر بیٹھے ڈیلیٹ کر سکیں ۔
اس کے باوجودماہرین کے لیے آپ کا موبائل ان لاک کرنا اور ڈیلیٹ شدہ ڈیٹا کو دوبارہ recover کرنا کوئی مسئلہ نہیں ۔ آئی ٹی ماہرین کہتے ہیں کہ اپنا استعمال شدہ موبائل کبھی فروخت مت کریں‘ کیونکہ ڈیٹا ریکور ہو سکتا ہے۔
لیکن ‘اگر آ پ غور کریں توجو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے ‘ ا س کے ناقابلِ تردید شواہد کہیں نہ کہیں محفوظ ہو تے جا رہے ہیں ۔ جب ہارڈ ڈسک اور میموری کارڈ وجود میں آئے تو شروع میں ان کا سائز بہت بڑا اور ا ڈیٹا محفوظ کرنے کی گنجائش بہت کم تھی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چپس چھوٹی اور ان میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت بڑھتی چلی گئی۔ آج ایک چھوٹے سے میموری کارڈ میں اس قدر ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت موجود ہے کہ جو وہم و گمان سے بھی باہر ہے ۔ یہ گنجائش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس ذات نے کرّہ ٔ ارض کی مٹی کے نیچے سلیکان ‘ کاپر اور چاندی جیسے عناصر رکھے ‘ جن میں ڈیٹا محفوظ کر کے دوبارہ جتنی دفعہ چاہیں دیکھا جا سکتاہے ‘ اس کا مقصد انسان کو ایک کھلا پیغام دینا تھا۔یہ پیغام یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز ریکارڈ ہوتی جا رہی ہے ۔ منہ سے نکلی ہر آواز‘ آنکھ سے دیکھا گیا ہر منظر ۔ آپ کا ہاتھ جس چیز کو چھوتا ہے ‘ وہاں فنگر پرنٹس رہ جاتے ہیں ۔ اب تو سائنس اس طرف جار ہی ہے ‘ جہاں ڈیٹا ڈی این اے میں محفوظ کیا جائے گا۔وہ وقت شاید قریب آچکا ہے کہ جب انسان کے اعضا اس سے بات چیت کر رہے ہوں گے۔
لیکن اگر کرّہ ٔ ارض کی مٹی کے نیچے سلیکان جیسے عناصر نہ رکھے جاتے تو انسان کے وہم و گمان سے بھی یہ چیز باہر ہوتی کہ ایک منظر کو ریکارڈ کر کے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتاہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں ہوتا۔ وقتی طور پر ڈیلیٹ ہوتاہے ‘لیکن بعد میں recoverکیا جا سکتا ہے اور اگر ڈیلیٹ ہونے سے پہلے یہ ڈیٹاکہیں اور کاپی ہو چکا ہے تو پھر ماہرین کا کہنا ہے کہ سب کچھ الم نشرح ہو سکتاہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ڈیٹا جب پیش کر دیا جائے تو آپ انکار نہیں کر سکتے۔ جب آپ کی ویڈیو‘ آپ کا تحریر شدہ ٹیکسٹ‘ آپ کی آواز آپ کے سامنے پیش کر دی جائے‘ تو آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے ۔ آپ کو ماننا پڑتا ہے ۔ٹی وی پروگراموں میں سیاستدانوں کو نہیں دکھایا جاتا کہ کل تو آپ نواز شریف کے حامی تھے‘ آج مخالف کیسے ہو گئے ؟
حشر کے دن یہی تو ہونا ہے ہمارے ساتھ ۔ انسان ہمیشہ سے اس بات پر معترض رہا ہے کہ جب میں مر جائوں گا اور میری ہڈیاں مٹی ہو جائیں گی تو کیامیں پھر پیدا کیا جائوں گا؟ لیکن دوسری طرف انسان خود اس طرف بڑھ رہا ہے کہ وہ ناپید (Extinct)ہو جانے والی سپیشیز کو دوبارہ پیدا کرنے کے قابل ہو سکے ۔ یہاں بھی ڈیٹا ہی کام آتا ہے ۔ ڈی این اے میں سب تفصیلات لکھی ہوئی ہیں۔ ڈائنا سار اور نی اینڈرتھل جیسی جن مخلوقات کو انسان نے کبھی دیکھاہی نہیں‘ ان کی شکل کو وہ جزئیات تک میں جانتا ہے ۔
ڈی این اے انسان کے ساتھ کلام کر رہا ہے ۔ صرف ڈی این اے ہی نہیں ‘ زمین انسان کے ساتھ کلام کر رہی ہے ۔دنیا میں جب بھی کوئی چھوٹا بڑا واقعہ پیش آتا ہے تووہ اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے ۔آج مٹی اور چٹانوں میں موجود فاسلز انسان کے ساتھ کلام کررہے ہیں ۔ آب و ہوا انسان کے ساتھ کلام کر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گریٹ آکسیڈیشن ایونٹ اور پانچ عالمگیر ہلاکتوں (Mass Extinctions)کا ڈیٹا انسان تک پہنچ چکا ہے ۔ ہومو سیپین کی کل تاریخ تین لاکھ سال ہے ۔ زیادہ تر ایجادات پچھلے پچاس ہزار سال میں ہوئی ہیں ‘لیکن کروڑوں ‘ اربوں سالوں پہلے زمین پر جو کچھ ہوتا رہا‘ انسان اس سے واقف ہے۔ اس زمین نے‘ اس فضا نے‘ اس مٹی نے ‘ فاسلز نے اور سب سے بڑھ کر ڈی این اے نے یہ سب ڈیٹا انسان کو منتقل کر دیا ہے ۔
دنیا میں ڈیٹا بہت زیادہ ہے‘ لیکن جہاں اتنی چھوٹی چھوٹی چپس میں اتنا زیادہ ڈیٹا سٹور ہو رہا ہو‘ جہاں جانداروں کے خلیات کے اندر ہی ڈیٹا محفوظ ہورہا ہو‘ وہاں کیا کوئی منظر ایسا ہوگا ‘جو سٹور ہونے سے رہ گیا ہو۔ ایک میموری آپ کے دماغ میں بھی تو ہے ۔ یہ ایسی میموری ہے ‘ جو عقل سے کام لے سکتی ہے ۔ ایک ادھیڑ عمر ‘فربہ اندام عورت کو آپ تین بچوں کے ساتھ دیکھتے ہیں اور آپ کو ایک سیکنڈ میں معلوم ہو جاتاہے کہ وہ بیس سال پہلے آپ کے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی ۔ یہ صلاحیت اب انسان کمپیوٹر کو بھی منتقل کررہا ہے کہ تبدیل شدہ چہروں کو پہچان سکے۔ (جاری )