میرے مطالعے میں سے کچھ دلچسپ نوٹس پیش ِخدمت ہیں:۔
1۔ زندہ چیزیں ایک دوسرے کو انتہائی حد تک سپورٹ کرتی ہیں‘ مثلاًیہ کہ پودے نہ ہوںتو آکسیجن نہ ہو۔ آکسیجن نہ ہو تو جانور زندہ نہ رہ سکیں‘لیکن پودوں کی نسلیں آگے بڑھانے میںسب سے اہم کردار پرندوںکا ہوتاہے‘ لیکن یہ پرندے خود پودوںکی آکسیجن کے محتاج ہیں۔ یہ سب کچھ عجیب ہے ۔وہی بات ہو گئی کہ پہلے مرغی تخلیق ہوئی تھی یا انڈہ؟
2۔بار بار خدا یہ کہتاہے کہ زمین سے بنایا‘ مٹی سے بنایا۔ ایک بہت اہم آیت ملاحظہ ہو ''وہ تمہیں اس وقت بھی جانتا تھا ‘ جب تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تب بھی ‘ جب تم اپنی مائوں کے پیٹ میں تھے ۔ اس لیے اپنی بڑائی بیان نہ کرو‘‘( سورۃ النجم 32)۔ مٹی ایک ایسی چیز ہے ‘ جس میںزندگی کو‘ زندہ خلیات کوultimateسپورٹ ملتی ہے ۔ جراثیم مٹی میںسب سے زیادہ پنپتے ہیں۔ جراثیم بھی زندہ چیزیں ہیں ہماری طرح۔
3۔زمین پر جو زندگی ہے ‘ کاربن اس کا بلڈنگ بلاک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کاربن بانڈز بنا سکتی ہے بہت زیادہ۔ آکسیجن کے ساتھ یہ چار بانڈز بنا تی ہے اور یہ لانگ چینز آف ایٹمز بنا لیتی ہے ‘ جنہیں polymersکہا جاتاہے ۔ مٹی اور پانی جب ملتے ہیںتو کاربن سمیت مختلف عناصر آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بانڈز بناتے ہیں۔
4۔orangutansمیں میٹا بولزم انسانوں سے بھی زیادہ سست ہوتا ہے ۔ میٹابولزم میں فرق کی وجہ سے ‘ انسان بکروں وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ ان کی نسل جلدی بڑھتی ہے اور جلدی بڑی ہوجاتی ہے ۔ orangutansبھی گریٹ ایپس میں آتے ہیں ۔ ان میں بچے کے پہلے چھ سات سال ماں کی رہنمائی میں طے ہوتے ہیں ۔
5۔وارم بلڈڈ جانداروں ‘ میملز اور birdsمیں digestionسے گرمی پیدا ہوتی ہے‘ ‘ جس سے باڈی ٹمپریچر فکس رکھا جاتاہے ‘ جیسا کہ انسان کا 98.6سینٹی گریڈ۔اس لیے ان کی خورا ک کی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں ‘ جبکہ کولڈ بلڈڈ میں ‘ ریپٹائلز میں وارم بلڈڈ کے مقابلے میں دس فیصد پر بھی گزارا ہو سکتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میملز کے مقابلے میں ریپٹائلز (سانپ اور مگر مچھ وغیرہ )کو صرف دس فیصد خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔
6۔ دنیا کے سب سے بڑے cave systemsمیں سے کچھ جزیرہ بورنیو موجود ہ ہیں ۔ یہاں پانی موجود ہے اور ایسے غاروں کی گہرائیوں میں مستقل اندھیرا رہتا ہے‘ لیکن وہاں بھی زندگی موجود ہے یہ دنیا کا تیسرا بڑا جزیرہ ہے ۔بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ خدا اتنی مخلوقات کا پیٹ کیسے بھرتا ہے ۔ تین ملین چمگادڑیں ایک غار میں ۔
7۔بندر اور دوسرے جانور جہاں درختوں کا پھل کھاتے ہیں ‘ وہیں درخت ان کے ذریعے اپنے بیج پھیلاتے ہیں۔ زندگی کی مختلف قسمیںایک دوسرے کو سپورٹ کرتی ہیں۔ چمپینزی ‘ جو کہ زیادہ تر vegetarianہیں ‘ روزانہ سات گھنٹے کھانا کھاتے ہیں ۔ زیادہ تر وہ فروٹ کھاتے ہیں‘ لیکن پتے وغیرہ بھی کھا لیتے ہیں ۔ ان میں نر بچے پالنے میں مادہ کا ہاتھ نہیں بٹاتے ‘ جبکہ کئی جانداروں میں نر اور مادہ مل کربچوںکو پالتے ہیں۔ایک چمپینزی دوسرے چمپینزی سے اتنا مختلف ہوتاہے‘ جتنا کہ ایک انسان دوسرے انسان سے ۔ چمپینزیوں میں بھی ہر رکن کا ایک رینک ہوتا ہے ۔ dominanceشو کی جاتی ہے ۔ اپنی حدود سے باہر نکلنے والے کی پھینٹی لگتی ہے ۔
8۔جین گوڈال دنیا میں چمپنزیوں کی سب سے بڑی ماہر۔ چمپینزی اپنی dominanceکیسے ظاہر کرتاہے ؟شور مچا کر‘ کوئی چیز سر سے اوپر اٹھا کربھاگنا۔ان حرکتوں سے ایک چمپینزی اپنا aggressionشو کرتا ہے ۔ کہتا ہے کہ dominanceشو کرنے کے بعد dominant maleدرخت سے اترتا ہے اور پھر ڈرے سہمے چمپینزیوںکے پاس جاتا ہے ‘ ان کے منہ سے منہ لگا کر اور دوسرے اشاروں سے وہ ان کا خوف دور کرتاہے اور خوف ختم ہو جاتاہے گروپ کا ۔ ساری حرکتیں انسانوں والی۔ چمپینزیوں کی جہاں رات پڑتی ہے ‘ وہیں درختوں پر تیس چالیس فٹ کی بلندی پر sleeping nest بنا لیتے ہیں ۔ 3 سے 5 منٹ میں ‘ وہ ایسا بستر بنا لیتاہے ‘ جہاں وہ اس قدر آرام سے سوتا ہے ‘ جتنے آرام سے ہم انسان اپنے بیڈ پر سوتے ہیں !
9۔جانور جب ایک دوسرے کو خوفزدہ کرتے ہیں ‘ مثلاً ایک baboonجب ایک چمپینزی کی طرف جھپٹا مارتا ہے‘ لیکن اصل میں اس کا ارادہ نہیں ہوتا لڑنے کا‘ بلکہ وہ ایک دوسرے کو بھگانا چاہتے ہیں تو اس میں وہ ساری عقل displayہو جاتی ہے ‘ جو کہ ہم انسانوں میں ہے ۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ چیزوں کو نام نہیں دے سکتے ۔ لمبا منصوبہ نہیں بنا سکتے ‘ مثلاًلوہا چھپا کر اگلے روز کا انتظار نہیں کر سکتے کہ بیبون وہاں سے گزرے گا‘ تو اس کے سر میں ماروں گا۔ باقی حسیات سے informationلے کر اس پر reactionدینا تو ہو بہو انسانوں جیسا ہے‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ۔ ایک شیر خوار چمپینزی بچے flint پر جین گوڈال نے بھرپور ریسرچ کی تھی ۔ چھ ماہ کی عمر میں اس نے اپنی ماں کی کمر پر سواری کرنا سیکھا‘ وہ اسے کمر پر بٹھا کر چلتی رہتی تھی اورخوراک ڈھونڈتی تھی ۔
10۔ ایک جانور کو جنگل میں کینسر ہو گیا ہے ۔ وہ اذیت ناک موت مرتاہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اس پر مہربان نہیں‘ لیکن جب آپ مرنے والے کے جسم سے چیونٹیوں اور بیکٹیریا کو کھاتے دیکھتے ہیں اور جب آپ ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کے سر پہ اپنی زندگی نثار کرنے والی ماں کو دیکھتے ہیں تو لگتاہے کہ پیدا کرنے والے نے مکمل انتظام کیا ہے ۔ ماں کا وجود‘ زندگی کی سب سے بڑی حفاظت۔
11۔بیبون پروانوں کو ان کے بل سے باہر ہی کھا سکتے ہیں ‘لیکن چیمپنیزی ایک گیلی stickکو بل کے اندر ڈال کر ان کو اس سے چمٹا کر باہر نکال کر بھی کھا لیتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹی سی شاخ کو بھی اس کے پتوں سے آزاد کر کے ‘ اسے ایک ٹول کے طور پر اس تعمال کرتے ہیں اور یہ ایک ٹول کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ٹول کو بنانے کے بھی برابر ہے ۔ جین نے ہی سب سے پہلے یہ بتایا تھا کہ چمپینزی ٹول بناتے اور استعمال کرتے ہیں اور اس سے سائنسی دنیا ہل کے رہ گئی تھی ‘ کیونکہ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف اور صرف انسان ہی ٹول استعمال کرتا ہے ۔
جین گوڈال کہتی ہے کہ جب louis leakeyکو یہ پتا چلا کہ چمپینزی اوزار استعمال کرتے ہیں تو اس نے کہا کہ اب ہمیں انسان اور اوزارکی نئی تعریف کرنی پڑے گی یا پھر ہمیں چمپینزی کو انسانوں کے گروہ میں شامل کرنا پڑے گا۔ لوئس لیکی ماہرpalenthropologistاور archelogistتھااور اس نے افریقہ میں انسانوں کے ارتقا پر گراں قدر تحقیق کی تھی اور اس کی وجہ سے بہت سارے محقق میدان میںاترے ۔لوئس لیکی کہتا ہے کہ چمپینزی کمپیوٹر نہیں بنا سکتا‘ پتھرسے اوزار بھی نہیں بنا سکتا ۔ اسکے باوجود انسانوں کے قریب ترین اگر کوئی دماغ ہے تو وہ چیمپنزی کا ہی ہے ۔
جہاں جین گوڈال نے تحقیق کی‘ اس جگہ کا نام Gombeہے ۔ وہاں بیبون اور چمپینزی اکھٹے رہتے ہین اورا ان میں جھڑپ بھی ہوجاتی ہے ۔ اس میں ایک کم عمر کا چیمپینزی بعض اوقات بڑی عمر کے بی بون کو اس لیے ڈرا دیتا ہے کہ وہ ہاتھ میں چھڑی کو بطور اوزار استعمال کرتا ہے ۔ جین نے ایک دن دیکھا کہ کچھ چیمپینزیوں نے ایک چھوٹے بیبون کو پکڑ کر مارا اور پھر اسے کھایا۔ اس discoveryنے سائنسی دنیا کو ہکا بکا کر دیا۔ اس سے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ وہ صرف سبزی خور ہیں ۔گومبی کی تحقیق کی شہرت ہوتی جا رہی تھی ۔ طالبِ علم اور سائنسدان گومبی میں جین گوڈال کا کام دیکھنے آتے تھے ۔ آنے والے برسوں میں حیاتیات‘ کمیونی کیشن ‘ نفسیات سمیت مختلف شعبوں سے ماہرین نے گومبی کا رخ کیا کہ جین گوڈال کا کام دیکھ سکیں !