13جنوری کی شام 6 بجے‘ پولیس ٹریننگ سکول کے پرنسپل ابرار حسین نیکوکارہ‘ روات میں اپنے دفتر آئے۔ کچھ دیر بعد گولی چلنے کی آواز آئی۔سٹاف کے لوگ بھاگ کر اندر آئے تو وہ مر چکے تھے ۔مرنے سے پہلے انہوں نے ایک تحریر میں خودکشی کی وجہ تحریر کی تھی۔ تحقیقات مکمل ہونے تک اسے صیغہ ٔ راز میں رکھا گیا ہے ؛البتہ گھریلو ناچاقی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ جنوری 2013ء میں رینٹل پاور پراجیکٹس سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے افسر کامران فیصل کی لاش ان کے دفتر سے برآمد ہو ئی تھی ۔ کامران فیصل کی موت پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا ۔ رائے عامہ کے ایک بڑے حصے کو یقین تھا کہ یہ خودکشی نہیں ‘بلکہ ایک قتل تھا کہ تحقیقات روکی جا سکیں ۔ بعد میں غالباً ایسے کوئی شواہد نہ مل سکے ‘ جن کی بنیاد پر اسے قتل قرار دیا جا سکتا۔ بعد میں کئی ایسے افسران نے خود کشیاں کیں ‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے ملک کی بڑی یونیورسٹیوں سے ماسٹرز کر رکھا تھا ۔ اس کے بعد مقابلے کا انتہائی سخت امتحان اور انٹرویو پاس کیا‘ جس کے لیے پاکستان بھر سے ہزاروں امیداروں سے انہیں مقابلہ کرنا پڑا ۔ حکومت کی طرف سے انہیں پرکشش تنخواہ ‘ گھر‘گاڑی اوروہ دیگر سہولیات حاصل تھیں ‘ لوگوں کی ایک عظیم اکثریت جس کا خواب ہی دیکھ سکتی ہے ۔
ملک کے حالات جو بھی ہوں ‘ ان افسران کو آسانی سے فارغ نہیں کیا جا سکتا۔ یوں انہیں محفوظ مستقبل کی ضمانت بھی حاصل تھی ‘ پھر بھی انہوں نے اپنی جان لے لی ۔اس کا جواب یہ ہے کہ غربت خودکشی کی وجوہات میں سے صرف ایک ہے ۔ جذباتی صدمات دوسری وجہ ہیں ‘ جن میں شدید بے عزتی بھی شامل ہے ۔ یہ خوف بھی کہ مستقبل میں میرے پوشیدہ راز منظر عام پر آجائیں گے ‘ جن کے نتیجے میں مجھے شدید بے عزتی سے گزرنا پڑے گا ۔
کبھی آپ ان مختلف situationsپر غور کریں ‘ جن میں انسان کا دماغ مختلف جذباتی کیفیات سے گزرتا ہے ۔جتنی دیر دماغ غصے میں رہتاہے ‘ اتنی دیر وہ بہت تکلیف میں ہوتا ہے ۔اس کے جسم اور دماغ میں توانائی بہت تیزی سے خرچ ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جھگڑے کے بعد انسان نقاہت محسوس کرتا ہے ۔ اگر انسان کوشش کر کے اس غصے کو کنٹرول کر لے‘ تو وہ اس تکلیف سے بچ سکتا ہے ۔ اگر وہ اس غصے کو ظاہر کر کے جھگڑا شروع کر دے ‘تو پھر اس غصے کی شدت اور اس کے دورانیے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر سامنے موجود شخص سے آپ کی انا کا تصادم بھی شروع ہو جائے گا‘پھر آپ کی ساری ذہانت اور توانائی اس امر پر خرچ ہوگی کہ آپ خود کو درست اور مظلوم اور اسے غلط اور ظالم ثابت کریں ۔
یہی صورتِ حال دوسری جذباتی کیفیات میں بھی ہوتی ہے ۔ اگرآپ خود کو خیالات کی اس رو کے سپرد کردیں کہ میرے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے تو پھر آپ اپنے جذبات کے غلام ہیں ۔ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر یہ بتاتے ہیں کہ آپ نے اپنے ساتھ کوئی بھی ہمدردی نہیں کرنی ۔ آپ نے یہ کہنا ہے کہ ہاں میں اسی کا مستحق ہوں ۔دنیا میں بہت سے لوگ اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال سے گزر رہے ہیں ۔ میں اس خوفناک صورتِ حال سے انشاء اللہ سلامت گزر جائوں گا تو پھر ایک نہ ایک دن انسان ان حالات سے نکل ہی آتا ہے ۔ کیفیات تو بدل جاتی ہے ۔ جیسے ہی غصہ ختم ہوتا ہے ‘ ندامت انسان کو آلیتی ہے ۔ تھوڑی دیر پہلے انسان جس شخص کو غلط ثابت کرنے کی پوری کرشش کر رہا تھا‘ اب اسی سے معافی مانگ رہا ہوتا ہے ۔
ماں باپ‘ بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے رشتوں میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے۔ ہر انسان میں کچھ برائیاں اور کچھ اچھائیاں ہوتی ہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں سوائے ایک مقدس ہستیؐ کے کوئی بھی شخص برائیوں سے پاک نہیں دیکھا جا سکا۔ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ دبائو ڈال کر اپنے خونی رشتوں کی برائیوں کو دور کر دیں گے‘ جو کہ سو فیصد غلط ہے ۔انسان کسی دوسرے کو کبھی بھی ٹھیک نہیں کر سکتا ؛البتہ مسلسل کوشش سے اپنے اندر تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔یہ تبدیلی اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ آدمی تلخ بات کا جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر لے۔
اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دوسرا شخص بالآخر نادم ہو جائے گا۔ خونی رشتوں میں صرف ایک بات یاد رکھنے کی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ آپ نے ان کی اچھی عادات سے فائدہ اٹھانا ہے اور ان کی بری عادتوں پہ صبر کرنا ہے ۔ ان خونی رشتے داروں میں بڑی بڑی اچھی عادات بھی ہوتی ہیں ۔ انسان‘ البتہ برائیوں کو نوٹ کرتا رہتا ہے اور اچھائیوں کو for grantedلیتا ہے ‘جو کہ صریحاً ناشکری ہے ۔
اب میں آپ کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ جن لوگوں کو نفسیاتی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘ ان کو اکثر لوگ ایک مشورہ دیتے ہیں کہ اللہ اللہ کیا کرو ‘ ورزش کرو‘ اپنے خیالات کو مثبت رکھو اور ڈاکٹر کے پاس نہ جانا ‘ورنہ بدنام ہو جائو گے۔ آج بھی میں ایک صحافی کی فیس بک پوسٹ دیکھ رہا تھا ‘ جس میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا ایک وزیر ماہر نفسیات سے علاج کرا رہا ہے ۔پڑھے لکھے لوگ بھی نفسیاتی علاج کو بدنامی اور طعنے کے طور پر برتتے ہیں ۔جہاں تک نماز روزے کا تعلق ہے تو اللہ کو یاد کرنے سے اچھی بات تو کوئی نہیں ہو سکتی ؛البتہ ایک چیز ہوتی ہے کلینیکل ڈپریشن ‘ جب انسان مسلسل ذہنی دبائو کی وجہ سے کلینیکل ڈپریشن کا شکار ہو جاتاہے تو دوا اور علاج کے بغیر وہ کسی صورت بھی recoverنہیں کر سکتا ۔ خواہ وہ اپنی قوت ارادی کے بل پر جتنا مرضی زور لگاتا رہے اور جتنا عرصہ مرضی لگاتا رہے ۔
میڈیکل سائنس پڑھنے کے لیے میں ہر قسم کے معالجین سے ملتا رہتا ہوں ۔ ان میں ڈاکٹر فیصل مراد جیسے بڑے لیپروسکوپک سرجن شامل ہیں ۔ بیرون ِ ملک قیام پذیر لیپرو سکوپک سرجن ڈاکٹر عامر نثار اپنی فیلڈ کے ایک لیجنڈ ہیں ۔ملک کے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر ملک حسین مبشر ایک لیونگ لیجنڈ ہیں۔ ڈاکٹرفیصل مراد سمیت بڑے بڑے معالجین ان کے studentرہے ہیں ‘ اسی طرح بڑے بڑے نیوروفزیشنز سے میں ملتا رہا ہوں ۔ ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے کلینک پر ایسے کئی مریض دیکھے جو خودکشی کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے داخل کیے جاتے اور ایک دو ماہ بعد پرسکون اور بدلی ہوئی ذہنی کیفیت میں ڈسچارج کیے جاتے۔ کچھ ادویات سے ٹھیک ہو جاتے ۔ کچھ کو شاک اور دوسری تھیراپیز سے گزارنا پڑتا۔ دماغ کی کچھ بیماریاں ناقابلِ علاج بھی ہیں ۔ کچھ بیماریاں lifelongہوتی ہیں ‘یعنی ان کا علاج ساری زندگی جاری رہتا ہے ۔
البتہ علاج سے بہت حد تک ریلیف ملتا ہے ۔ جو بندہ شدید obsession یونی پولر یا بائی پولر کا مریض ہو ‘ جو سارا دن بیٹھا ہاتھ دھوتا رہے ‘ جسے ہر وقت تکلیف دہ خیالات اذیت پہنچاتے ہوں ‘دوسرے اس کی تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ کی ایک مریضوں کی زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے ۔ (جاری )