"FBC" (space) message & send to 7575

خودکشی…(2)

میرا آپ سے سوال ہے : کیا کوئی بھی شخص پہلی ہی دفعہ خودکشی کا خیال آنے پر فوراًاپنی جان لے لیتا ہے ؟ میرا نہیں خیال کہ ایک فیصدکیسز میں بھی ایسا ہوتا ہو۔کافی عرصہ انسان اس خوفناک خیال کو resistکرتا ہے ۔ ماں باپ اوربیوی بچوں سمیت زندگی میں بہت سی خوشیاں ہوتی ہیں ‘انسان آسانی سے جن سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔اپنے پیاروں کو اپنی موت کا بھیانک صدمہ کون دینا چاہے گا؟ پھرجانداروں میں زندہ رہنے کی خواہش انتہائی شدید رکھی گئی ہے ۔خوفناک بیماریوں سے دوچار لوگ بھی مرنا نہیں چاہتے ‘ جن کی صحت تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔ انسان ہی نہیں ‘ تمام جاندار جبلی طور پر موت سے دور بھاگتے ہیں ۔ درد سے ہر جاندار نفرت کرتا ہے اور موت شدید درد کے بغیر نہیں آتی‘پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اس انتہائی تکلیف سے گزرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ؟
جواب یہ ہے : مسلسل ذہنی تکلیف جو موت سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔ ایک شخص جو پورا دن بیٹھا اپنے ہاتھ دھو رہا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی وہ اس شدید obsessionسے باہر نہیں نکل پا رہا ۔ یہ احساس بھی اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ میں اپنے پیاروں پر ایک بوجھ بن چکا ہوں ۔وہ جانتا ہے کہ لوگ اسے پاگل سمجھ رہے ہیں ‘ پھر بھی وہ ہاتھ دھونے پر مجبور ہے۔
ایک شخص جو ہرلمحہ ذہنی تکلیف سے گزر رہا ہے ‘ وہ کہاں جائے؟ اسے ہر سانس میں تکلیف محسوس ہو رہی ہے ۔وہ کسی کو سمجھا نہیں سکتا کہ اس پر کیا بیت رہی ہے ؟ لوگ اسے کہتے ہیں کہ خدا کو یاد کرو‘ پریشانی نہ لیا کرو اور ورزش کرو ‘وغیرہ وغیرہ۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر وہ بیس سال بھی ورزش کرتا رہے‘ تب بھی کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس کا دماغ ہے ہی تکلیف میں اور وہ بھی مستقل طور پر۔ اس کے اندر اتنی طاقت نہیں کہ عبادت کر سکے۔ ہاں وہ یہ کر سکتاہے کہ بے قرار ہو کر خدا کو اپنی تکلیف بتائے۔ خدا تو لازماً اس شخص کو جواب دیتا ہے ‘ جو تکلیف میں اسے پکارتا ہے ۔ ایک شخص بے بس ہو کر خدا کو اپنی تکلیف بتا رہا ہے اور خدا اسے نجات کے راستے کی طرف رہنمائی نہیں دے رہا...یہ بات میں نہیں مان سکتا ۔ 
ایک دفعہ میں ایک بائیس سالہ لڑکے سے ملا۔ اس کا باپ اسے علاج کے بعد واپس لے جا رہا تھا۔ اس نے کہا :تین ماہ پہلے یہ ہر وقت خودکشی کی باتیں کرتا رہتا تھا اورمسلسل روتا رہتا۔ اب تو یہ ٹھیک ہو گیا ہے ۔ میں نے اس لڑکے سے بات کی۔ اس کی آنکھوں میں زندہ رہنے کی خواہش تھی اور مستقبل کے منصوبے بھی۔وہ خودکشی کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔اس احساس سے وہ شرمندہ نظر آرہا تھا کہ اسے نفسیاتی علاج سے گزرنا پڑا ؛البتہ ٹھیک ہوجانے کی مسرت کہیں زیادہ تھی ۔ 
ایک بہت بڑی تعداد کو علاج کی ضرورت ہے ۔ ایسی ادویات اور ایسے پروسیجرز موجود ہیں ‘ جو انہیں واپس زندگی کی طرف لا سکتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ انگریزی ادویات کے توسائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں؟ اس پر ہنسی آتی ہے ۔آپ کا پیارا موت کے بالکل قریب ہے اور آپ سائیڈ افیکٹس کو رو رہے ہیں ۔ سچ پوچھیں تو ایسے کیسز میں جو نقصان ہو نا تھا‘ وہ پہلے ہی ہو چکا۔ اب اگر مریض واپس اپنے آپ سنبھالنے کے قابل ہی ہو جائے تو اسے غنیمت سمجھیے ۔اب ‘جتنی بھی ریکوری ہوتی ہے ‘ وہ بونس ہے ۔ بہت سے لوگ پوری طرح بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں ‘ جن میں دس بیس فیصد ہی بہتری آتی ہے ۔ جولوگ اس درجہ تکلیف تک پہنچ چکے ہوں ‘ مجھے تولگتا ہے کہ شاید ان سے قلم اٹھ جاتا ہے ‘ جب تک کہ وہ صحت یاب نہ ہو جائیں ۔ فرض کریں کہ ایک شخص کی عمر 100برس ہو چکی ۔ وہ چل کر وا ش روم نہیں جا سکتا۔ اسے نماز بھول چکی ۔اپنا نام اس نے بمشکل یاد رکھا ہوا ہے ۔ کیا اس پر شریعت اسی طرح نافذ ہوتی ہوگی ؟ جیسا کہ ایک صحت مند شخص پر ۔ 
کوئی بھی شخص پہلی بار خودکشی کا خیال آنے پہ اپنی جان نہیں لے لیتا۔ نویں دسویں کاایک جذباتی اور حساس طالبِ علم توفیل ہونے اور طعنہ ملنے پر یہ قدم اٹھا سکتاہے‘ زندگی کے تیسرے یا چوتھے عشرے میں جیتا ہو اایک بال بچے دار شخص پہلی بار یہ خیال آنے پر اس پہ عمل نہیں کرسکتا ۔ کسی کسی پر البتہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب اس کی ذہنی تکلیف تمام حدود سے گزر جاتی ہے ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب وہ واقعتاً خودکشی کر لیتا ہے یا اس وقت وہ انتہائی جذباتی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ۔
کسی نے اسے شدید تکلیف سے گزارا ہوتاہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ اپنی جان لے کر میں اس شخص کے ضمیر پر ہمیشہ کے لیے ایک بوجھ (Guilt) بن جائوں گا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب زندگی میں اسے تمہاری تکلیف کی پروا نہیں تو موت کے بعد بھلا کیوں ہوگی اور اگر ہوگی بھی تو تمہیں اس کا کیا ثواب پہنچے گا ؟ 
ایک دفعہ میں ایک ادھیڑ عمرشخص سے ملا ۔ اس نے بتایا کہ پندرہ بیس سال تک مذہبی طور پر تکلیف دہ خیالات اسے تنگ کرتے رہے ؛حتیٰ کہ اس کا ذہن مستقل طور پر تکلیف میں ڈوب گیا‘ پھر خودکشی کا خیال آنے لگا۔آخری حربے کے طور پر اس نے علاج شروع کرایا‘ اب علاج کے بعد وہ اس بحران سے نکل آیا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اب میں ایک بار پھر زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔میں یونی پولر اور بائی پولر کے کئی مریضوں سے ملا ۔ان میں سے کئی اب کافی حد تک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو چکے تھے اور اپنے آپ کو سنبھال سکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے‘ جن کاعلاج نہ ہوتا تو ان میں سے کئی خودکشی کر لیتے ۔ 
خودکشی کے خواہشمندوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ‘ جتنے لوگ واقعتاًاس کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ خودکشی کی خواہش کے ساتھ ہی برسوںاور دہائیوں جیتے رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ تکلیف میں گزر رہا ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ دماغ کی کیمسٹری ہی بگڑ چکی ہوتی ہے ۔ وہ اپنی قوتِ ارادی کو جتنا مرضی مضبوط کریں ‘جتنی مرضی محنت کریں‘ خوش نہیں رہ سکتے ۔انہیں علاج کی ضرورت ہے ۔ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں ‘ بظاہر ہٹا کٹا ہونے کے باوجود جن کی ذہنی صحت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اٹھ کر رفع ِ حاجت کرنا بھی انہیں عذاب لگتا ہے۔جو شخص صحت مند ہے ‘ اسے لگتا ہے کہ یہ تو ہڈحرام ہے ۔
یہاںسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ایک شخص کے ذہن میں بار بار خودکشی کا خیال آرہا ہوتاہے تو پھر بھی وہ ماہر نفسیات کے پاس کیوں نہیں جاتا؟ جواب : دنیا کے طعنوں کا ڈر‘ اپنی عزتِ نفس کے پامال ہونے کا ڈر اور خود اپنی ہی نظر میں گر جانے کا ڈر۔
خودکشی کی آخر ی قسط میں سب سے زیادہ اہم بات میں آپ کے گوش گزار کروں گا۔ جس شخص میں بھی خودکشی کا رجحان ہو ‘ اگر وہ اس پر عمل کرے ‘تو اس کے بچ نکلنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ (جاری )
یہاںسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ایک شخص کے ذہن میں بار بار خودکشی کا خیال آرہا ہوتاہے تو پھر بھی وہ ماہر نفسیات کے پاس کیوں نہیں جاتا؟ جواب : دنیا کے طعنوں کا ڈر‘ اپنی عزتِ نفس کے پامال ہونے کا ڈر اور خود اپنی ہی نظر میں گر جانے کا ڈر اسے ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روکتا ہے‘جبکہ علاج سے وہ صحت یاب ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں