دنیا بدل رہی ہے ۔ ہر لحاظ سے اور بہت تیزی کے ساتھ ۔گلوبل وارمنگ ‘عالمی درجہ ٔ حرارت میں جس اضافے کا خدشہ بار بار ظاہر کیا جاتاہے ۔ موسموں میں جو شدت لا نے کے ساتھ ساتھ کرّہ ٔ ارض کے برف زاروں کو پگھلاتا چلا جارہا ہے ‘ وہ بہت شدید ہے ۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی تحقیق کے مطابق ‘سمندروں کے درجہ ٔ حرارت میں چند ڈگری کے اضافے اور نتیجتاً پانی میں آکسیجن کی کمی سے آبی حیات سکڑنا شروع ہو چکی ہے ۔ مچھلیوں کے حجم میں کمی آرہی ہے ۔ خیر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آکسیجن کے بغیرسیّارہ ٔ ارض پہ حیات پھل پھول نہیں سکتی ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ نزلے زکام یا کسی اور وجہ سے سانس لینے میں ذرا سی رکاوٹ ہو تو فوراً دماغ تکلیف محسوس کرتاہے ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ شریان پھٹ جانے یا کسی اور وجہ سے محض تین سے پانچ سیکنڈ کے لیے دماغ کو آکسیجن اور گلوکوز کی فراہمی میں تعطل پیدا ہو تو یہ فالج‘ کومے ‘ حتیٰ کہ موت کا پیغام ہوتا ہے ۔
برطانیہ کی دُرھم یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ‘آب و ہوا میں تبدیلی سے بکری کی ایک قسم الپائن کے قد کاٹھ اور وزن میں تیز ترین کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ 1980ء سے 2014ء کے درمیان پچیس فیصد کمی! بہت سے جانوروں میں یہ اثرات صاف دکھائی دے رہے ہیں‘ لیکن ـظاہر ہے کہ ان میں سے بعض اس معاملے میں دوسروں سے زیادہ حساس ہیں ۔
کیا یہ بات آپ کو عجیب لگتی ہے کہ ایک طرف توجین اور ڈی این اے کی تشریح کے ساتھ ساتھ اور دوسری طرف نینو ٹیکنالوجی پہ دسترس حاصل کرتا ہوا آدمی تخلیق کے فن میں مداخلت کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ دوسری طرف کرّہ ٔ ارض کی آب و ہوا اورزندگی کو دوام بخشنے والی حفاظتی تہوں کی ٹوٹ پھوٹ سے تباہی کی طرف ؟ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔
زندگی ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی ۔ اپنی ساڑھے چار ارب سال کی تاریخ میں کرّہ ٔ ارض مختلف آزمائشوں سے ‘ تباہی کے ادوار سے گزرتی رہی ہے ۔باقیات (Fossils)کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جانوروں اور پودوں کی لاکھوں اقسام کا یہ حیران کن تنوع صرف اسّی کروڑ سال پہلے وجو دمیں آیااور 53کروڑ سال پہلے یہ اپنے عروج پہ پہنچا۔ سائنسی حلقوں نے اس زمانے کو (Cambrian Explosion)کا خاص نام دے رکھا ہے‘ 53کروڑ سال پہلے جانداروں کی اقسام میں اس اچانک تیز رفتار اضافے کو ڈارون مخمصے (Darwin Dilemma)کا نام بھی دیا جاتاہے ۔اس لیے کہ یہاں چارلس ڈارون کے نظریات کی نفی ہوتی ہے ۔ انگریز ماہر ارتقا نے زندگی کی نشو و نما کا جو تصور پیش کیا تھا‘ اس میں وہ رفتہ رفتہ ‘ آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتی ہے ‘جبکہ ہمارے پاس موجود ثبوت اور شواہد یہ ہیں کہ اس موقعے پر جانداروں کی اقسام میں ایک ایسا تیز رفتار اضافہ ہوا تھا‘ جسے ایک دھماکے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔ یہ کیسے اور کیوں کر ہوا تھا؟ اب تک حتمی رائے اس پر نہیں دی جا سکی ہے۔ مغربی محققین نے ا س پر مختلف نظریات پیش کیے ۔فضا میں آکسیجن کی مقدار میں بے انتہا اضافہ بھی ان کا حصہ ہے ۔
زندگی تباہ ہوتی رہی ہے ۔ جانداروں کی باقیات کے مشاہدے سے ان ادوار کا درست تعین کیا جا چکا ہے ۔ وجوہات پہ حتمی اتفاق شاید کبھی نہ ہو سکے گا۔ اپنی آنکھوں سے ہم اس زمانے کو نہیں دیکھ سکتے اور گزرے زمانوں نے بہت سے آثار مٹا ڈالے ہیں ۔ 51کروڑ سال پہلے کا زمانہ بڑے پیمانے پہ زندگی کی ہلاکت کا دور (Msss extinction event)مانا جاتا ہے ۔ زندگی نے دوبارہ قرار پکڑا اور زمانوں تک وہ ہنستی رہی ‘ پھر آج سے پچیس کروڑ سال پہلے کرّہ ٔ ارض کی تاریخ کا مہلک ترین دور نمودار ہوا۔ اسے پرمین دور (Permian mass extinction)کہتے ہیں ۔ اس حادثے نے (جو بھی اس کی وجوہات تھیں ) جانداروں کی 70سے 90فیصد اقسام کو سرے سے ختم کر ڈالا۔ لاکھوں سال بعد حیات واپس اپنے جوبن میں لوٹ سکی ۔ کہا جاتاہے کہ اسی سانحے کے بعد کرّہ ٔ ارض کی تاریخ کے خوفناک ترین جاندار ڈائنا سارز وجود میں آئے۔
ساڑھے 9کروڑ سال پہلے ایسا ہی ایک او رواقعہ پیش آیا۔ کہا جاتاہے بڑے پیمانے کی آتش فشانی نے سمندری حیات کو بڑی حد تک ختم کر ڈالا(آج کے انسان کے لیے یہ واقعہ بڑا خوش آئند ثابت ہوا کہ کروڑوں سالوں میں جانداروں کی انہی باقیات نے پھر تیل اور گیس کے بڑے ذخیروں کا روپ دھار لیا۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے کے اس واقعے کو تو آپ بخوبی جانتے ہیں ‘ جب دس مربع کلومیٹر کی ایک چٹان میکسیکو کے علاقے چک ژولب میں آگری۔ اس سے جو گڑھا پیدا ہوا‘وہ 180کلومیٹر طویل اور 20کلومیٹر چوڑا تھا۔ آج کے انسان کے لیے یہ واقعہ بھی بڑا مبارک تھا کہ دھماکوں ‘ زلزلوں او رسونامیوں کے نتیجے میں ڈائناسار ختم ہو گئے ۔ آج سے چالیس ہزار سال قبل سے دس ہزار سال پہلے کے دور میں شمالی امریکہ کے پچاس فیصد میمل ختم ہو گئے اوربڑی mass extinctionsکے مقابلے میں یہ ایک چھوٹا سا حادثہ تھا ۔
زمین ان برفانی ادوار سے گزرتی رہی ہے ‘ جس میں برف پورے کرّہ ٔ ارض کو ڈھانپ لیا کرتی ۔ ابھی دس ہزار سال پہلے ہی تو آخری برفانی دور (Ice Age)ختم ہوئی ہے ۔ اسی کے بعد جدید انسانی تہذیب کا آغاز ہوا۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر آتش فشانی ‘ برفانی ادوار ‘ آسمان سے برستے پتھروں اور آب وہوا میں تیز رفتار تبدیلیوں سے جاندا ر ہمیشہ سے مٹتے چلے آئے ہیں ۔
یہ ایک دائمی داستان ہے ۔ یہ ایک طے شدہ کہانی ہے ‘ جو اپنے سکرپٹ کے مطابق‘ آگے بڑھ رہی ہے ‘لیکن پہلی بار ہے کہ جانوروں میں سے ایک اپنے خاتمے کے خوف سے کانپ رہا ہے ۔ اس خوف کا سبب ذہانت ہے ۔ آگاہی جہاں لذت اور احساسِ برتری کا سبب بنتی ہے ‘ وہیں بعض اوقات یہ ہمیں سہمے ہوئے چوہے میں بدل ڈالتی ہے ۔ مستقبل کے عظیم حادثات کو ہم اپنے ادنیٰ وسائل اور ٹیکنالوجی کے بل پہ روکنا چاہتے ہیں اور یہ ممکن نہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ انسان نے بجلی پیدا کرنے سے لے کر ایٹم توڑنے تک وہ بے پناہ ترقی کی ہے ‘کرّہ ٔ ارض کی تاریخ میں کسی اور جاندار نے جس کی جسارت نہیں کی۔اس کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس بے پناہ ترقی کے باوجودانسانی اپنے حیاتیاتی دوام کا کوئی راستہ ڈھونڈ نہیں سکا۔ آپ سکندرِ اعظم جیسے فاتح ہیں یا نیوٹن جیسے بڑے سائنسدان ‘موت کو آپ ٹال نہیں سکتے ۔ انسان کو اپنے اوپر ناز تو بہت ہے ۔ اس نے اوزار بنائے‘ پہیہ ایجاد کیا‘ لوہے کو مختلف شکلوں میں ڈھال کر مشینیں بنائیں‘ انجن ایجاد کیا۔ توانائی کی ایک قسم کو دوسری میں تبدیل کرتے ہوئے جہاز اور میزائل اڑانا شروع کیے۔ آج غروبِ آفتاب کے بعد مصنوعی روشنیاں کرّہ ٔ ارض پہ جگمگانے لگتی ہیں اور سحر طلوع ہونے تک جگمگاتی رہتی ہیں ۔ رات کا تصور ہی ختم ہو چکا ۔ یہ سب تو خوش آئند اور مبارک‘ لیکن اگر ایک بڑا حادثہ ہوتا ہے تو دوسری سپیشیز کے ساتھ ساتھ انسان بھی صفحہ ٔ ہستی سے مٹ جائے گا ۔اس کے ساتھ ہی انسانی عظمت بکھر جائے گی ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ انسان کو مرجانا ہے :؎
کتنی دلکش ہو تم‘ کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے