جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ‘ نت نئے انکشافات آدمی ‘ سیّارہ ٔ ارض او رکائنات کی تاریخ سے پردہ اٹھاتے چلے جا رہے ہیں ۔ نت نئی ٹیکنالوجیز ایجاد ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔اس ساری صورتِ حال کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ آنے والا وقت بہت ہی دلچسپ ہوگا۔
آج کے دور میں کیمیکلز والی خوراک سمیت انسان کو بہت سی مضر چیزوں سے واسطہ ہے‘ لیکن بجلی اور انجن سمیت کئی ٹیکنالوجیز نے اس کی زندگی آسانیوں سے بھی بھر دی ہے ۔آج انسان کی زندگی انتہائی آرام دہ ہو چکی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر موٹاپا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔ اس لحاظ سے آج کا انسان خوش قسمت ہیں کہ آج بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ چکا ہے ۔ وہ چیزیں بچوں کو نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں ‘ ارسطو جیسے دانشورجنہیں سمجھنے کے لیے ساری زندگی غور و فکر کرتے رہے ۔
کوریا کی معروف الیکٹرانکس کمپنی نے ایک ایسا کمپیوٹر ایجاد کر لیاہے ‘ جسے معذور افراد ہاتھ کی بجائے‘ اپنی آنکھوں سے استعمال کر سکیں گے ۔ یہ آنکھوں کی حرکات اورایک خاص انداز سے پلکوں کے بند ہونے سے ہدایات لیتاہے ۔
دوسری طرف ماہرین نے سائبیریا سے ملنے والی ایک 45ہزار سال پرانی انسانی ٹانگ کے جینز کا کامیابی سے مطالعہ کیاہے۔ جین وہ وراثتی مواد رکھتے ہیں ‘ جن سے ایک جاندار کی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں ۔ آپ کا قد کاٹھ‘ بالوں کا رنگ؛ حتیٰ کہ روّیہ‘ سبھی کچھ ان جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ قدیم ترین باقیات میں جینز کے مطالعے سے ہمیں انسانی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتاہے ۔ قدیم انسان کی افریقا سے ہجرت اور یورپ میں ایک اور انسانی نسل نی اینڈرتھل مین سے اس کی ملاقات کی بہت سی کہانیاں اس ٹانگ پر لکھی ہیں۔عالمی نشریاتی اداروں نے اس دریافت کو خصوصی اہمیت دی ہے ۔
باقیات (فاسلز) کا علم یہ بتاتا ہے کہ کچھ لاکھ سال پہلے کرّہ ٔ ارض کے مختلف حصوں میں جانداروں کی 9عدد ایسی سپیشیز زندہ تھیں ‘ جو دو ٹانگوں پر چلتی تھیں اور جن کے سر بڑے تھے ۔ ان میں سے ایک کا نام ہومو اریکٹس اور دوسری کا نام نی اینڈرتھل تھا۔ ان میں سے نی اینڈرتھل یورپ کے سرد علاقوں میں مقیم تھا۔ بعد میں یہ 9کی 9سپیشیز صفحہ ٔ ہستی سے مٹ گئیں ۔ صرف ہومو سیپینز (انسان )باقی رہ گئے ‘ جنہوں نے قریب تین لاکھ سال پہلے ہوش کی آنکھ کھولی۔ کچھ ماہرین کی نظر میں ہومو سیپنز کی پیدائش بھی باقی سپیشیز کے معدوم ہوجانے کی ایک مرکزی وجہ تھی ۔ جو بات مکمل صحت اور مکمل ریکارڈ کے ساتھ کہی جا سکتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ ان 9سپیشیز میں سے کچھ کے خاتمے میں انسان کا کوئی کردار تھا یا نہیں‘ لیکن حال ہی میں اس نے بے شمار سپیشیز کے خاتمے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
عالمی میڈیا کی ایک اور نمایاں خبر بولنے والے پرندوں ‘ بالخصوص انسانی آواز کی کامیاب نقل اتارنے والے طوطوںکے جینز کا مشاہدہ اور انسان سے اس کا موازنہ ہے ۔ مشہورجرنل ''سائنس‘‘میں چھپنے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انسانوں اور ان پرندوں میں بولنے سے متعلق ایک ہی طرح کے جینز متحرک ہوتے ہیں ۔ یہ وہ جینز ہیں ‘ جو کہ دماغ کے ان خلیات کو آپس میں نت نئے روابط استوار کرنے کا حکم دیتے ہیں ‘ جو آپ کے پھیپھڑوں ‘ گلے اور ناک وغیرہ کے ان اعضا کی حرکات کو کنٹرول کرتے ہیں ‘ جن کے ذریعے آواز پیدا ہوتی ہے ۔
انسان کا بھیجا ہوا خلائی مشن "Voyager 1"نظامِ شمسی سے باہر نکل چکا ہے ۔عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سورج کی پہنچ سے دور اور کسی دوسرے کی جانب بڑھتے ہوئے خلا کا طویل سفر پرسکون ہوگا‘لیکن وائیجر ون کو اب تک تین بڑی شاک ویوز سے واسطہ پڑچکا ہے ۔ یہ وہ لہریں ہیں ‘ جو ہمارے سورج کی طرف سے پیدا کردہ دھماکوں کے نتیجے میں جنم لے رہی ہیں ۔ وائیجر ون وہ واحد مشن ہے ‘ جو نظامِ شمسی سے باہر بھیجا گیا ہے ۔ 38ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ‘ اسے کسی دوسرے سورج تک پہنچنے کے لیے قریب 70ہزار سال درکار ہیں ۔
بچّوں کے زیر استعمال پنسل کا سکّہ کاربن گریفائٹ کہلاتاہے ۔ دس سال پہلے اس کی ایک نئی قسم گریفین دریافت ہوئی تو سائنس دانوں کو اس نے حیران کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ اب تک دریافت ہونے والا سب سے باریک‘ لیکن سب سے مضبوط میٹریل تھا۔ انسانی بال سے دس لاکھ گنا باریک مگر سٹیل سے دو سو گنا مضبوط۔ یہی نہیں ‘اپنے اندر سے بجلی کی ترسیل کے دوران یہ اسے بالکل بھی ضائع ہونے نہیں دیتا اور اسے دنیا میں بجلی کا سب سے اعلیٰ موصل مانا جاتاہے ۔ اب‘ گریفین کی جو نئی خاصیت سامنے آئی ہے ‘ اس نے توانائی کے سکڑتے ہوئے ذخائر کے پسِ منظر میں امیدوں کے نئے در کھول دیے ہیں ۔ یہ مثبت چار ج رکھنے والی ہائیڈروجن گیس کو اپنے اندر سے گزرنے دیتی ہے ۔ ہائیڈروجن ایک بہت اچھا ایندھن ہے ۔ یہ ایک دھماکے سے جلتی ہے ؛لہٰذا ہائیڈروجن پہ چلنے والی گاڑیوں میں ایک خاص طرح کا مضبوط انجن درکار ہوتاہے ۔ دنیا بھر میں پانی سے کار چلانے کے دعویداروں اور خود پاکستان میں "انجینئر "آغا وقار نے کامیابی سے جو تماشا لگایا تھا‘ اس کا پس منظر بھی پانی میں موجود ہائیڈروجن ہی تھی ۔آغا وقار کے دعوے میں بنیادی طور پر یہ مسئلہ حائل تھا کہ پانی سے ہائیڈروجن کو الگ کرنے کے لیے جو توانائی درکار ہوتی ہے ‘ وہ اس کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے ۔ سینیٹر طارق چوہدری کو اس دریافت کے بارے میں بتایا تو ان کا کہنا یہ تھا : آکسیجن جلاتی ہے اور ہائیڈروجن جلتی ہے ۔ ان کے اشتراک سے پانی وجود میں آیا تھا اور بروزِ حشر یہ جو سمندروں کے بھڑکنے اور جل اٹھنے کا ذکر ہم سنتے ہیں ‘ یہ بھی اسی طرح وقوع پذیر ہوگاکہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو الگ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد صرف اور صرف ایک چنگاری ہی کی ضرورت ہوگی اور کرّہ ٔ ارض دہک اٹھے گا۔
ترجمہ : ''اور جب سمندر جوش دئیے جائیں گے ‘‘ سورۃ التکویر 6۔
ہائیڈروجن کائنات کا سب سے ہلکا اور سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر ہے ۔ سورجوں (ستاروں ) کی پیدائش میں یہی گیس بنیادی خام مال ہے ۔ گریفین کی اس خصوصیت نے اب ان امیدوں کے در کھولے ہیں کہ ایک دن گاڑیاں ہوا سے ہائیڈروجن لے کر انہیں استعمال کر سکیں گی۔ یہ اس لیے بھی خوش آئند ہے کہ عالمی برادری کوئلے‘ تیل اور گیس کے مسلسل استعمال سے پیدا ہونے والی گندگی اور کرّہ ٔ ارض کے درجہ ٔ حرارت میں اضافے سے پریشان ہے ۔حال ہی میں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اورفضا کو سب سے زیادہ آلودہ کرنے والے ممالک امریکہ اور چین نے معاہدہ کیا ہے کہ وہ نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی کریں گے ۔ اب ‘ساری نظریں انڈیا پر مرکوز ہیں ‘ جو دنیا میں تیسرے نمبر پر یہ آلودگی خارج کرتاہے ۔ اقوامِ متحدہ کے تحت دنیا بھر کے ممالک نے کاربن کے اخرا ج میں کمی پر غور او روعدے وعید کیے ہیں ۔ عالمی درجہ ٔ حرارت میں مسلسل اضافے ہی کا نتیجہ ہے کہ سمندروں کا پانی اونچا ہو رہاہے اور فلپائن کی طرح جزائر پہ آباد ممالک پر اپنے ناپید ہونے کا اندیشہ طاری ہے ۔