کبھی آپ نے غور کیا ہے ‘ ان چیزوں پر جو کہ ہم کھاتے ہیں ۔ آپ غور کریں ‘ آپ پر بہت سے راز کھلنا شروع ہو جائیں گے یا کبھی آپ تجربہ کریں ۔ آپ ایک سالن بنائیں اور اسے کھا لیں ۔ دوسرے دن پھر وہی سالن بنا کر کھائیں ۔ تیسرے دن پھر وہی۔ ساتویں دن آپ کو قے آجائے گی ۔ بھوک بھی لگی ہوئی ہے ۔ کھانے میں بھی کوئی نقص نہیں‘ لیکن آپ کا نظامِ انہضام تو کجا ‘ آپ کا دماغ اس چیز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔یہ ہے‘ ذائقے کی سائنس ! مجھے اس کے بارے میں ڈاکٹر عبد الجلیل صاحب نے بتایا تھا۔ ذائقے کی ایک پوری سائنس ہے ۔ آپ سخت بیمار ہیں ۔ آپ کے جسم کو غذا کی جتنی ضرورت اس وقت ہے ‘ اتنی کبھی نہیں تھی‘ لیکن آپ کے منہ کا ذائقہ بگڑا ہوا ہے ۔ آپ ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتے ۔ ذائقہ (Taste)نکال دو ‘ پھر کوئی شخص مجھے کچھ کھا کر دکھائے۔ آپ کا یہ کھانا‘ جسے آپ مزے لے لے کر کھاتے ہیں ‘ اس کا ایک لقمہ نگلنا بھی ایک بہت بڑی سزا ہوگا۔
زبان پر خلیات ہیں ‘ جو ذائقے کا احساس دماغ تک لے کر جاتے ہیں ۔ ناک میں خلیات ہیں ‘ جو خوشبو کا احساس دماغ تک لے کر جاتے ہیں ۔ انسان میں اتنا گہرا ذوق دماغ میں پیدا کیا گیا ہے کہ انسان گندی جگہ پہ بیٹھ کر کھا نہیں سکتا۔ آپ دنیا کا بہترین کھانا گندی غلیظ جگہ پہ بیٹھ کر نہیں کھا سکتے ؛الّا یہ کہ آپ نشے میں ہوں یا پھر آپ بھوک کی شدت سے مرنے والے ہوں ۔ آپ کچا گوشت نہیں کھا سکتے ؛الّا یہ کہ آپ بھوک سے مرنے والے ہوں ۔ دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ جانور کوڑے کے ڈھیر میں سے ہڈیاں نکال کے چبا جاتے ہیں ۔ ذرا ‘ا ن جانوروں میں بھی انسان جیسا ذوق ہوتا ‘ جانوروں کی ساری سپیشیز بھوکی مر جاتیں۔ جانوروں کا حال تو یہ ہے کہ آپ کسی دوسرے جانور کی فضلے سے بھری ہوئی آنتیں نکال کر ان کی طرف پھینکیں ‘ وہ پاگلوں کی طرح انہیں کھا جائیں گے ۔
یہ فضیلت تھی‘ انسانوں کی جانوروں پر ۔ انسان لباس پہنتا تھا ‘ صاف ستھری چیز آگ پہ پکا کر کھاتا تھا۔ اب‘ اگرایک قوم زندہ چوہے کھانا شروع کر دے تو اسے آپ یاجوج ماجوج کے سوا اور کیا کہیں گے ؟ خیر ‘اب آپ ذرا غور کریں کہ خدا نے ذائقے کی یہ سائنس بنائی کیسے ؟ انسان مبہوت ہو جاتا ہے ۔ انسان جب پکے ہوئے پھل کھاتا ہے ۔ وہ سرخ تربوز کھاتا ہے تو اسے سینے میں ٹھنڈک اترتی محسوس ہوتی ہے ۔ چیری کھاتا ہے تو مٹھاس کے ساتھ ہلکا سا نمک بھی ۔ کیلے کی مٹھاس ان دونوں سے بالکل مختلف ہے ۔ آپ سٹرابری کھاتے ہیں تو الگ ذائقہ ہے ۔ ٹھنڈی کی ہوئی لیچی کے کیا کہنے ۔ خربوزے کی اپنی مٹھاس ۔ انار کی مٹھاس میں ترشی ملی ہوتی ہے ۔ سب سے بڑھ کر آم کا پھل ہے‘پکے ہوئے ٹھنڈے انور رٹول کھاتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ دنیا کی ہر نعمت انسان کو میسر ہے ۔
جو شخص سٹرابری کھانا چاہتا ہے ‘ آپ کبھی اسے ٹماٹر کھلا کر دکھائیں ۔ وہ ٹماٹر اٹھا کے آپ کے منہ پر دے مارے گا۔ گنّے کی مٹھاس ‘ کیا بات ہے گنّے کی‘ پھر آپ سٹرس کی طرف آئیں ؛ کینو کا رس‘ جو ہلکا سا ترش اور ہلکا سا نمکین محسوس ہوتاہے ۔ آپ کھاتے جا رہے ہیں ۔ ایک ایک ذائقہ آپ کے دماغ پر نقش ہے‘ اگر آپ یہ کہیں کہ تو غربا کا دل جلانے والی بات ہے تو یقین کریں کہ اگر نصیب میں نہ لکھا ہو تو امیر بھی یہ چیزیں نہیں کھا سکتے ۔ زندگی کے اکتیس برس میں نے شاید ہی کبھی کوئی پھل کھایا ہو۔ یہ سارے ذائقے پچھلے تین سال میں مجھ پر نازل ہوئے ہیں ۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ انسان جب اپنی مصنوعی پراسیسڈ خوراک بناتا ہے ‘ تو وہ بھی یہی فلیور اُن میں ڈالتا ہے ‘ مثلاً؛ آئس کریم میں مینگو‘ سڑا بری وغیرہ وغیرہ ۔ اب‘ میں آپ کو راز کی بات بتائوں ؛ یہ جتنے ذائقے میں نے آپ کو بتائے ہیں ‘ یہ دھوکہ ہیں ۔ ان کی اصل میں کچھ نہیں ۔ تربوز کیا ہے ؟ 92فیصد پانی ۔ سٹرابری کیا ہے؟ 91فیصد پانی ۔ کینو کیا ہے ؟ 88فیصد پانی ۔ ٹماٹر کیا ہے؟ 94فیصد پانی ۔ آڑو کیا ہے ؟ 89فیصد پانی ۔ پائن ایپل کیا ہے ؟ 86فیصد پانی ۔ سیب کیا ہے ؟ 86فیصد پانی ۔سبزیاں ساری ہیں ہی پانی !
انسان کیا ہے ؟ 60فیصد پانی ۔ پانی ‘ پانی ‘ پانی ‘ پانی ‘ لیکن مخلوقات کو خوش کرنے کی خاطر اس پانی میں فلیور ڈال دیا خدا نے اور مخلوقات کے منہ میں ذائقہ چکھنے کی صلاحیت پیدا کر دی ۔ اس کے بعد مختلف مخلوقات میں مختلف چیزیں کھانے کی حس پیدا کر دی ۔ شیر کو کبھی دیں تربوز ‘ پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ انسان جب پھل کھاتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے ‘جیسے پانی پانی کو پی رہا ہو‘ لیکن یہ پانی ‘ پانی ‘ پانی ‘ پانی کی بات بھی ادھوری بات ہے ۔پانی خود کچھ نہیں ۔ پانی مجموعہ ہے؛ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا۔ آپس کی بات یہ ہے کہ آکسیجن سمیت تمام عناصر ہائیڈروجن سے ہی بنے ہیں ‘لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان پھل کھا رہا ہو تو ہائیڈروجن ہائیڈروجن کو کھا رہی ہے ‘ لیکن یہ ہائیڈروجن کہاں سے آئی ہے ؟یہ آئی ہے بگ بینگ سے اور بگ بینگ کہاں سے آیا ہے ؟ بگ بینگ خدا کے نور کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ‘ اگر آپ گہرائی میں اتریں گے تو حیاتیاتی طور پر بھینس اور انسان میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق سوچ میں ہے ‘ میٹریل میں نہیں ۔ وہ جو لوگ کہتے ہیںکہ زمین پر کروڑوں برس طویل ارتقا رونما ہوتا رہا ہے‘ ٹھیک کہتے ہیں ۔ارتقا ہوا ہے ۔ سب سے آخری مخلوق جو ارتقا کے نتیجے میں تین لاکھ سال پہلے وجود میں آئی ‘ اس کا نام ہے ہومو سیپین عرف انسان ‘ جسے سوچنے سمجھنے کے لیے پیدا کیا گیا تھا ‘لیکن دوسروں کو ذلیل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے ۔ خیر کبھی یہ مضمون سامنے رکھ کر سوچئے گا ضرور کہ ہم کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر رہے ہیں !