دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک مضمون لکھا تھا ''محو ِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘نینو ٹیکنالوجی اور تھری جی پرنٹر جیسی ایجادات‘ دوسری طرف خدائی ذرّے (ہگز بوسون) کی دریافت سے ایسا لگتاہے کہ اگلی ایک آدھ صدی میں کائنات کے بڑے راز ہم پر منکشف ہونے والے ہیں۔اسی ذرّے نے کائنات کی ابتدا میں مادے کو اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے میں مدد دی۔ کائنات کو پھیلانے‘ ہرکہکشاں کی رفتار پر اثر انداز ہونے اور اسے جوڑے رکھنے والا ڈارک میٹر‘ شاید سب سے اہم راز ہے۔ بچپن میں وہ جو ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ کائنات کی تمام اشیا چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے مل کر بنی ہیں ‘ غلط ثابت ہو چکا۔ درحقیقت 96فیصد کائنات نادیدہ ڈارک میٹراور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ یہ سب بے حد اہم ہے‘ لیکن مصنوعی ذہانت کا ذکر میں بھول گیاتھا۔ نینو ٹیکنالوجی کی طرح ‘ اسے بھی بلا شک و شبہ انسانیت کا مستقبل قرار دیا جاسکتاہے۔
کمپیوٹر کی یہ صلاحیت کہ ڈیٹا کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر وہ خود سے فیصلہ کر سکے۔ اپنے موبائل فون میں اس کے چھوٹے موٹے استعمال ہم دیکھتے رہتے ہیں ‘لیکن آنے والے ماہ و سال میں بہت بڑی حیرتیں چھپی ہیں۔ 1997ء میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے آئی بی ایم کے پروگرام Deep Blueنے شطرنج کے عالمی فاتح گیری کیسپیروو کو ہرا دیا اور اب اپنی تمام ذہانت آزما کر بھی ہم انتقام نہیں لے سکتے۔ ذہین کمپوٹر اب تبادلہ ٔخیال ‘ بحث اور منصوبہ بندی کر سکتاہے۔ وہ نئی چیزیں سیکھ سکتاہے اور یہاں بات ختم ہو جاتی ہے۔ جاپان کا مایا ناز روبوٹ آسی مو۔ وہ بھاگ سکتاہے ‘ ڈھکن کھول سکتاہے ‘ چہرہ شناخت کرتا اور کئی آوازیں اکٹھی سنتاہے۔ بات سمجھ نہ آئے تو دہرانے کی درخواست۔ کھانے پینے کی اشیا اٹھالاتاہے۔ہاتھوں سے لمس محسوس کرتاہے۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔ گھروں میں ملازم کی خدمات وہ پہلے سے انجام دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے فوکو شیما جوہری پلانٹ میں تباہی ہوئی اور انسانوں کا جانا خطرناک قرار دیا گیا توجاپانیوں کا اصرار یہ تھا کہ آسی مو سے مدد لی جائے ‘ لیکن وہ اس لیے نہ بنایا گیا تھا۔ تصویریں بنا کر اس نے تباہی کا پیمانہ ضرور واضح کیا۔ فوکو شیما کے حادثے میں روبوٹ سے مدد لینے کے تصور ہی سے امریکیوں کی آنکھیں کھلیں۔ ہمیشہ کی طرح ان کی ریاضت ایک بار پھر جنگ پر ہی مرتکز رہی۔ ایسی مشینیں ‘ جو دشمن کو نیست و نابود کرسکیں۔ چار ٹانگوں والے ایسے روبوٹ جو میدانِ جنگ میں ٹنوں وزن اٹھائیں۔ وہ بھی جو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دشمن پر حملہ آور ہوں۔ جاپانی بہرحال بہت آگے ہیں۔ چھ ٹن وزنی اور دس بارہ فٹ لمبی ایک مشین‘ جس کے اندر بیٹھ کر وہ لڑ سکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت والے روبوٹ اب حیران کن توازن رکھتے ہیں۔ وہ دھکّا دینے پر گرتے نہیں۔ وہ گڑھے عبور کرتے ہیں اور تنگ جگہ سے گزر سکتے ہیں۔سیکھنے کی ان کی صلاحیت کی وجہ سے انہیں طب اور تاریخ سکھائی جا سکتی ہے۔ ایک روز وہ ہمارے استاد اور ڈاکٹر کا کردار ادا کریں گے۔ اب خود اپنے آپ کو دیکھیے۔ سچ تویہ ہے کہ چالیس ہزار برس قبل ہمیں بھی مصنوعی ذہانت ہی سے نوازا گیا تھا۔دماغ میں ایک ذرا سے اضافے اور اس کے مختلف حصوں میں دوسروں کی نسبت بہتر ربط نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا۔ دو ننھے قطروں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا ہمارا وجود اور ہمارا دماغ بڑھتا ہے۔ خود پر ذرا غور تو کیجیے۔ ایک شخص کی مثال لیں۔ فرض کریں کہ سڑک پر اچانک اس کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے۔شدید گرمی میں بری طرح پسینہ بہہ رہا ہے۔ جاپانی کمپنی کے تخلیق کردہ اس مشینی جانور پہ پچھلے پندرہ برس میں وہ تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔تب یہ اس کے وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ ایک دن مردہ بھینس کی طرح اسے اس گاڑی کو ڈھونا ہو گا۔دس بارہ مرتبہ راہگیروں کی منّت سماجت کے بعد‘ دھکّا لگوا کے وہ اسے سٹارٹ کر چکا تھا ‘لیکن ادھر بریک پر پائوں رکھا‘ ادھر انجن بند۔ گاڑی کو سٹارٹ رکھنے اور جلد از جلد منزل پہ پہنچنے کی اس کوشش میں ‘ انجن کا درجہ حرارت دکھانے والی سوئی پہ اس کی نظر نہ پڑ سکی‘ جو خطرے کے نشان کو چھو رہی تھی۔ آخر اس نے سٹارٹ ہونے سے مکمل طور پر انکار کر دیا۔ آخر دھکا لگواتے ہوئے وہ شخص اسے ایک ورکشاپ لے جاتا ہے۔ طویل جانچ پڑتال کے بعد اس کو یہ '' خوشخبری‘‘سنائی جاتی ہے کہ بلند درجۂ حرارت کی بنا پر انجن کو نقصان پہنچ چکا۔ نقص بھی بڑا دلچسپ تھا۔ مکینک بتاتا ہے ''انجن کا درجۂ حرارت جب 98ڈگری پر پہنچتاہے تو اس میں لگا ہوا ایک سنسر گاڑی میں نصب کمپیوٹر کو فوراً یہ اطلاع پہنچاتاہے۔ کمپیوٹر ایک چھوٹی سی ڈبی کو سگنل بھیجتاہے ‘ جس کا کام پنکھے (فین) کو حرکت دینے کے لیے کرنٹ خارج کرنا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ مخصوص ڈبی خراب ہوجانے کی وجہ سے بہت کم کرنٹ خارج کر رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنکھا چلا تو سہی ‘ لیکن کم رفتار سے۔ انجن گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا‘‘۔اس نے بتایا کہ مزید کچھ دیر گاڑی چلتی رہتی تو انجن مکمل طور پرناکارہ ہو جاتا۔ گاڑی کے مالک نے کہا : یہ کیسا کمپیوٹر ہے ؟ پنکھا چلنے کے باوجود جب انجن ٹھنڈا نہ ہوا تو چاہیے تو یہ تھا کہ کمپیوٹر اسے بند کر ڈالتایا کم از کم بول کر خطرے کی نشان دہی کرتا۔ اس لیے کہ اب تو جاپان میں بننے والی آٹھ دس لاکھ کی کار دروازہ کھلا رہ جانے کی صورت میں بھی اونچی آواز میں انتباہ کرتی ہے ‘ بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس‘ وہ دوسری گاڑی یا کسی بھی شخص کے زیادہ قریب آجانے اور ٹکرائو کا خطرہ پیدا ہونے پر فوراً آواز نکالنے لگتی ہے۔ جدید گاڑیاں خود میں نصب سنسر ز کی مدد سے ڈرائیور کو مسائل سے آگاہ کرتی ہیں ‘مگر ان کی کارکردگی محدود ہے۔
الغرض دنیا میں کامل ٹیکنالوجی کہیں نظرنہیں آتی ؛ البتہ خود زندہ اجسام ‘ انسان اور جانوروں میں موجودمختلف نظام دیکھیے تو آپ حیران رہ جائیں گے‘سوائے خدا کا بنائے ہوئے انسانی دماغ کے ‘ جو کئی کمپیوٹرز سے بھی زیادہ ذہانت کا مالک ہو سکتا ہے۔