"FBC" (space) message & send to 7575

خاصاں دی گل

میاں محمد بخش نے فرمایا تھا ؎
خاصاں دی گل عاماں اگے، نئی مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی 
ایک بندہ ہے‘ جسے کے پاس ایک چیز کا علم نہیں ہے‘ اسے نہیں پتا پینٹنگ کیا ہوتی ہے‘ آپ اس کے سامنے پکاسو کی پینٹنگ رکھیں اور دوسری طرف اسے ٹرک کے پیچھے بنا ہوا بلی نما شیر دکھائیں۔ اسے ٹرک والی سوغات زیادہ پسند آئے گی۔ ایک بندے کو شاعری کا ذوق ہی نہیں ہے‘ اسے غالبؔ کا شعر سنائیں؎
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج 
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں 
اور پھر ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا یہ شعر ؎ 
پلٹ کے دیکھ اے ظالم! تمنا ہم بھی رکھتے ہیں 
اگر تم کالج میں پڑھتی ہو تو ڈرائیوری ہم بھی کرتے ہیں
ٹرک والے شعر پر وہ اچھل پڑے گا۔ اسی طرح جب آپ مختلف ڈاکٹرز، سرجنز، بیورو کریٹس اور سائنسدانوں سے ملتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کا سچ اور ہے‘ خواص کا اور۔ اگر آپ پیغمبروں اور سب سے بڑھ کر رحمۃ للعالمینﷺ کی زندگی پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اصل سچ وہی تھا‘ جو انہیں معلوم تھا۔ عام بندہ جسے سچ سمجھتا ہے، وہ اصل میں جھوٹ ہے۔ آپ طائف کی مثال لے لیں۔ طائف کے سانحے میں بہت ساری رموز پوشیدہ ہیں‘ جن پر شاید زیادہ بات نہیں کی گئی۔ پہلے تو آپ اسے واقعے کو ایک عام انسان کے نقطۂ نظر سے دیکھیں اور پھر خدا اور سرکارِ دو عالمؐ کے حکمت بھرے کاموں اور ان کے نتائج کی روشنی میں حقائق کو پرکھیں۔آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ عوام اور خواص کے سچ میں کتنا فرق ہوتا ہے۔
فرض کریں کہ آپ اپنے ایک بہت بڑے امیر اور طاقتور دوست کا پیغام لے کر کچھ سرداروں کے پاس گئے۔ وہ نہ صرف اس پیغام کو مسترد کرتے ہیں بلکہ آپ کے پیچھے لڑکے لگا دیتے ہیں۔ آپ کو سڑکوں پر پتھر مارے جاتے ہیں۔ آپ کو دیوانہ اور پاگل کہا جاتا ہے۔ آپ کے پورے جسم سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ بھاگتے بھاگتے آپ اپنے اس امیر اور طاقتور دوست کو سامنے کھڑا دیکھتے ہیں۔ وہ آپ سے یہ کہتا ہے کہ اگر تم کہو تو میں تمہیں پتھر مارنے اور دیوانہ کہنے والوں کے خلاف کچھ ایکشن لوں؟ آپ اسے کیا کہیں گے؟ آپ سوچیں گے کہ یہ کیسا دوست ہے؟ مجھ سے پوچھ کیوں رہا ہے؟ لوگ مجھے پتھر مار رہے اور یہ اب بھی پوچھ رہا ہے کہ میں تمہاری مدد کو آئوں؟ آپ شاید ساری زندگی کے لیے اس دوست سے بدظن ہو جائیں۔ آپ شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے تعلقات کو ختم کر لیں بلکہ باقی زندگی اس کی شکل دیکھنا ہی شاید گوارا نہ کریں ۔ 
اب آپ آئیں اس اصل سچ کی طرف‘ جسے اللہ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے تھے۔ جب فرشتہ آیا تو اس نے صرف یہ نہیں کہا کہ اگر آپؐ حکم کریں تو طائف والوں کو سزا دی جائے۔ اس نے پوری تفصیل اور طریقہ بیان کیا کہ دو پہاڑوں کے درمیان انہیں پیس دیا جائے۔ پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ یہاں پر عامی سوچ کا حامل کوئی شخص یہ بھی سوال کر سکتا ہے کہ خدائے ذوالجلال نے فرشتے کو بھیج کر ہی کیوں پوچھا اور خود کیوں نہ اہلِ طائف کو سزا دے دی۔اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ جب کوئی کام کرنا چاہے‘ کسی کام کا ارادہ فرمائے تو وہ اس کی تمام تر حکمتوں سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر وہ اپنے فیصلوں میںکسی سے پوچھنے کی ضرورت تو محسوس نہیں کرتا۔لیکن اگر اللہ اگر فرشتے کو بھیج کر رسول اللہﷺ سے یہ پوچھ رہا ہے کہ ''اگر آپ چاہیں یا اگر آپ حکم کریں‘‘ تو اس میں ایک بہت گہری رمز پوشیدہ تھی۔اس میں یقینا ایک بہت بڑا اشارہ پوشیدہ تھا۔ اور ظاہر ہے کہ رسول اکرمﷺ سے بڑھ کر کون اس اشارے کو سمجھ سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ اس ظلمِ عظیم کے باوجود طائف والوں کو تباہ نہ کیا جائے۔ رسالت مآبؐ اس اشارے کو بخوبی سمجھ گئے اور انہوں نے یہ تاریخی فقرے ادا کیے کہ یہ لوگ نہیں تو ان کی اولادیں ایمان لے آئیں گی اور پھر چشم عالم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ 
میں چونکہ نفس پہ تھوڑی بہت تحقیق کرتا رہتا ہوں‘ اس لیے میں اس کی بعض باریکیوں کو کچھ نہ کچھ سمجھتا ہوں۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ اگر آپ پانچ بندے اکٹھے کر کے ان کے سامنے ایک بندے کی صرف پانچ منٹ بھی تذلیل کر دیں، نفس کی نفسیات ایسی ہیں کہ وہ باقی ساری زندگی اس تضحیک کو بھولے گا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ باقی ساری زندگی بدلہ لینے کی خواہش اور کوشش میں بسر کر دے ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جس وقت رسالت مآبؐ کے پاس فرشتہ آیا، وہ کوئی نارمل صورتِ حال تھی؟ کائنات کی سب سے مقدس ہستیؐ کو سرِ بازار پتھر مارے گئے اور لڑکوں نے ان پر فقرے کسے۔ لیکن جب فرشتہ آیا اور اس نے پوچھا کہ اللہ فرماتا ہے کہ اگر آپؐ حکم کریں تو انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے تو اس وقت رسول اللہﷺ ذرہ برابر بھی جذباتی کیفیت میں نہ تھے۔
یہ اس قدر عجیب بات ہے کہ سمجھ نہیں آتی۔ اللہ کے برگزیدہ رسول کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی شخص اس صورتِ حال میں نارمل نہیں رہ سکتا تھا۔ دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ پیغمبروں کے علاوہ بھی جس شخص کو اللہ نے عظمت عطا کرنا ہوتی ہے، جو خاص بندہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ دنیاوی لاڈ پیار نہیں کیا جاتا بلکہ اسے شدید ترین مشکلات یعنی آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے، جس سے اس کی Capacity بڑھتی ہے۔ حضور نبی کریمؐ پیدا ہوئے تو والدِ گرامی پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ چند برس بعد والدہ بھی انتقال فرما گئیں۔ جو جو ہستی آپؐ پر سایہ کرتی ہے‘ اسے اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ وہ صدمات گنیں، جو آپؐ کے ساتھ پیش آئے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ تکالیف سے آپﷺ کو واسطہ پڑا۔
اسی طرح اگر آپ کے محلے والے آپ کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور گھر خالی کرنے کا حکم دیں۔ اگر آپ جنرل سٹور پر جائیں اور وہ آپ کو ضروریاتِ زندگی فروخت کرنے سے انکار کر دے تو آپ چند دن سے زیادہ برداشت نہیں کر سکیں گے اور ٹوٹ جائیں گے۔ دوسری طرف آپ دیکھیں کہ تین سال کے لیے پورے معاشرے نے مل کر سرکارِ دو عالمﷺ کو اپنے درمیان سے نکالے رکھا اور انہیں شعب ِ ابی طالب میں محصور ہونا پڑا۔ اکیلے نہیں، اپنے خاندان کے بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ۔ مضبوط سے مضبوط شخص چند دن سے زیادہ اس صورتِ حال میں گزارا نہیں کر سکتا۔
اللہ کا قانون یہ ہے کہ جس شخص کو اس نے رفعت عطا کرنا ہوتی ہے، اس کے لیے سخت ترین تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر اُس دن طائف والوں کو پہاڑوں میں پیس دیا جاتا تو بات ہی ختم ہو جاتی۔ قرآن میں حضرت یونس ؑ کی مثال پیش کی گئی ہے کہ وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چل دیے تھے تو اللہ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیا۔ پھر انہوں نے استغفار کیا کہ میں نے خود پر ظلم کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ خوف سے پیدا ہونے والا ایمان عارضی ہوتا ہے۔ آپ اپنے دشمن بنے ہوئے شخص کو آسانی کے ساتھ ڈرا سکتے ہیں لیکن اس کے دل میں اپنے لیے محبت کی ایک بھی رمق پیدا کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس کے لیے آخری درجے کے ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضبط کامل حیثیت میں رسالت مآبﷺ کی شخصیت میں موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فتح مکّہ سمیت اَن گنت معرکے آپؐ نے جنگ لڑے بغیر صرف اپنی ذہانت اور اپنے اخلاق سے ہی سر کر لیے۔ 
اگر آپ غور کریں تو خاصوں اور عاموں کے سچ میں بڑا فرق ہوتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں