آپ کبھی کسی ایسے شخص سے ملے ہیں جو اپنے فن میں یکتا ہو؟ کوئی بہت بڑا سرجن‘ انجینئر یا کوئی بہت بڑا زبان دان‘ شاعر؟ اکثر ایسے لوگوں کی بدن بولی سے ہلکا سا خمار جھلک رہا ہوتاہے۔ نرگسیت کا ایک نشہ سا ہوتاہے، جو مدہوش کیے رکھتاہے۔ ایسے لوگوں میں لاشعوری طور پر اپنے خاص ہونے کا احساس ہمہ وقت غالب رہتاہے۔اپنے خاص ہونے کا یہ احساس عبادت کرنے والوں میں بھی پیدا ہو جاتاہے۔نفس کی باریکیوں سے بے خبر انسان میں شیطان زیادہ نیک ہونے کا احساس جگائے رکھتاہے۔ شاعر نے کہا تھا ؎
کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا
شغل بیکار ہیں سب تیری محبت کے سوا
یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ایک فرد کی زندگی دنیا کے تمام انسانوں سے قیمتی ہے۔ نسلی اور مذہبی تفاخر ان میں اس قدر گہرا ہے کہ پیدائشی طور پریہودی نہ ہونے والا بعد ازاں یہودی نہیں ہو سکتا۔ اگر اسے اس مذہب میں شامل کر بھی لیا جائے تو اسے وہ اہمیت کبھی حاصل نہ ہوگی، جو نسلی یہودیوں کو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں یہودیوں کی تعداد قلیل ہے۔ تعداد میں کم ہونے اور مٹ جانے کا خوف بھی انہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرپاتا کہ وہ اپنے دروازے دوسرے مذاہب والوں کے لیے کھول دیں۔
آپ بھی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسے احساس سے گزرے ہوں گے۔جب آپ انسان کے ہاتھوں ذبح ہوتے اور مار کھا کر دوڑتے ہوئے جانوروں کو دیکھتے ہیں تو اپنے انسان ہونے پر ایک غرور آپ کو آلیتا ہے۔کبھی آپ نے ٹرک پر سوار بھینسوں کو خالی خالی نظروں سے گاڑیوں کو گھورتے ہوئے دیکھا ہو۔ کبھی آپ نے بکرا ذبح کیا ہو۔ جس لمحے اس کی گردن پر چھری پھیری جاتی ہے تو نہ صرف اس پہ انسان کو ترس آتاہے بلکہ لاشعوری طور پر اپنے برتر ہونے کا غرور بھی آلیتاہے۔پہلی بار یہ جذبات تب انسان میں بیدار ہوئے تھے‘ جب کسی نہ کسی طرح پہلی بار وہ ایک جانور پر سوار ہوا تھا۔جب جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود اس نے ایک دیو ہیکل جانور کا پتھر اور ہڈیوں کے اوزار سے شکار کیا تھا۔ روئے زمین کے ہر انسان میں یہ احساس گہرا ہے کہ میں افضل اور برتر ہوں۔
سائنس کی جو شاخ زندہ چیزوں کا مطالعہ کرتی ہے‘ اسے حیاتیات کہتے ہیں۔ حیاتیات کا علم یہ کہتاہے کہ اپنی بے پناہ ذہانت کے باوجود جوہری اور حیاتیاتی طو رپر انسان بھی دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہی ہے۔ اس کی رگوں میں خون اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح زیبرے اور خرگوش میں۔ اس کا دل اسی طرح دھڑکتاہے، جس طرح چوہے اور ہاتھی کا۔ اس کا جگر، جلد، خون کی نالیاں، اعصاب، کان، معدہ اور آنتیں، ہر چیز اسی طرح کام کرتی ہے، جس طرح کہ دوسرے جانوروں میں۔ انسان اس وقت یہ سوچتا ہے کہ وہ کس قدر فضول بات کر رہے ہیں۔ بھلا انسان اور جانور برابر ہوسکتے ہیں ؟آپ کسی بھی پیمانے پر سوچیں، جانور اور انسان برابر نہیں ہو سکتے۔ بات ہو رہی تھی تفاخر کی۔ جس شخص کو زبان آتی ہے‘ شعر آتا ہے‘ وہ زبان کی باریکیوں سے محروم شخص کو ترس بھری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عربوں اور ایرانیوں میں اپنے زبان دان ہونے کا زعم پایا جاتاہے۔ شاعر فصاحت سے محروم لوگوں پہ ترس کھاتے ہیں۔
بھلا جانورانسان کی برابری کریں گے۔ وہ‘ پیچیدہ جاندار پیدا ہونے کے بعد پچھلے پچاس کروڑ سال میںجنہوں نے Surviveکرنے کے سوا کچھ بھی نہیں سیکھا۔ جو لباس نہیں پہنتے، بال کنگھی نہیں کرتے‘ جو بال نہیں تراشتے‘ جو رفعِ حاجت کرنے کے بعد اسی کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں۔ساری زندگی جو ناک کے بال نہیں کاٹتے اور دانت صاف نہیں کرتے۔جو شادی نہیں کرتے اور ٹریفک سگنل کی پیروی نہیں کرتے۔ ان میں سے کوئی آج تک پتھر اور ہڈیوں کے اوزار بھی بنا نہیں سکا، انسانوں کے آبائو اجداد نے جو تیس چالیس لاکھ سا ل پہلے ہی بنا لیے تھے۔بھینس اور ہاتھی‘ جب گرمی سے نجات کے لیے کیچڑ میں لوٹتے ہیں تو اپنے انسان ہونے کا غرور آدمی میں جاگ اٹھتا ہے۔ ٹھنڈک وہ بھی حاصل کرتاہے لیکن اے سی سے۔
لاکھوں سال پہلے انسان نے زمین کھودنا شروع کی۔ اسے معلوم ہوا کہ نیچے بہت کچھ ہے۔ اس نے زمین کے نیچے سے کوئلہ اور تیل نکال کر جلایا اور اس میں لوہے کو پگھلا کر خالص کیا۔ اس لوہے کی گاڑی بنی اور اسی سے اس کا انجن بنا۔ انسان نے پانی، کوئلے، تیل اور گیس سے توانائی پیدا کی۔ توانائی کی ایک شکل کو دوسری شکل میں تبدیل کرنا شروع کیا۔ اس نے مصنوعی روشنی پیدا کی۔ تانبے اور چاندی کی تاریں بنا کر ان میں بجلی دوڑانا شروع کری۔ انسان نے مختلف عناصر سے بیٹری بنائی اور بجلی کی توانائی کو اس میں ذخیرہ کرنا سیکھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تواس کے بعد ساری رات شہر روشنیوں سے جگمگاتے رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کرّۂ ارض پہ انسانی غلبے کا مظہر اور کیا ہو سکتاہے؟
انسانی علم وفضل کی حد تھی کہ انسان نے دوری جدول کے تمام 92عناصر کی فہرست بنا لی۔ ایک ایک عنصر کی خصوصیت کو جانچا۔ انسان کو یہ علم ہوا کہ زمین کے نیچے کچھ بھی نہیں بنتابلکہ ستاروں اور سورج کے مرکز میں تمام عناصر وجود میں آتے ہیں۔ ستارے جب پھٹ کر فنا ہوجاتے ہیں تو لوہے جیسا بھاری عنصر بھی پیدا ہوتاہے۔ اسی لوہے کو پگھلا کر اس نے خنجر، تلوار اور ٹینک بنا لیے۔
انسانی علم و فضل کی انتہا یہ تھی کہ اس نے بگ بینگ کا کھوج لگا لیا۔ آج بھی فضائے بسیط میں جس کی باقیات بکھری ہوئی ہیں۔انسان نے پانی ذخیرہ کرنا شروع کیا۔ انسان وہ واحد جاندار ہے، جس نے زمین کھود کر اس کے نیچے سے پانی نکالنا شروع کیا۔ انسان وہ واحد جاندار ہے، جس نے بڑے ڈیم بنا کر دریائوں کا پانی ذخیرہ کیا بلکہ اس نے ان دریائوں کا رخ بھی موڑ ڈالا۔ انسان وہ واحد جاندار ہے، جو جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے بھاگ اور اڑ سکتاہے۔ وہ ہزاروں کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے میزائل اڑا سکتاہے۔ زمین کے نیچے سے لوہا نکال کر اس لوہے کو تیل کی توانائی سے اڑانا، اس سے زیادہ ترقی کیا ایک بغیر پر کا جاندار کر سکتاہے؟
لیکن انسانی ترقی کا بھانڈہ اس وقت پھوٹتا ہے جب موت کا وقت آتاہے۔ کیا یہ قابلِ رحم بات نہیں کہ جب موت کا وقت آتاہے تو نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے ذہین ترین انسان اس طرح بے بسی سے مر جاتے ہیں، جیسے ایک بکرا اور ایک بلی مرتی ہے۔ انسان کی یہ ترقی کس کام کی اگر اپنے اہم ترین لوگوں کو انسان جانوروں سے زیادہ دیر زندہ نہیں رکھ سکتا۔
حیاتیات کا علم یہ بتاتا ہے کہ اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود انسان دوسرے جانوروں ہی کی طرح بالآخر مر جاتاہے۔ اپنی تمام ترترقی کے باوجود‘ یہ وہ بیرئیر ہے، جسے انسان توڑ نہیں سکا او رنہ توڑ سکے گا۔اگر وہ ہمیشہ کی زندگی پانے میں کامیاب ہو جاتا تو اب تک شاید وہ خدا ہونے کا دعویٰ کر چکا ہوتا۔ ایک زندہ چیز بہت نازک ہوتی ہے۔ اس میں اگر کہیں بھی بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ موت ہی کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ یہ خرابی وقوع پذیر ہو کر رہتی ہے۔ انسانی اعضا کی ایک عمر ہے۔ ستر، اسّی، نوے سال میں کسی نہ کسی میجر عضو میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ دل دھڑکنا چھوڑ دیتاہے یا گردے خون صاف کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پھیپھڑے سانس لینے سے معذر ت کر لیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتاہے، جب بڑی بڑی ایجادات کرنے والا انسان بے بسی سے موت کی نیند جا سوتا ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انسان کو صرف ذبح ہوتے جانوروں پر ہی ترس نہیں آتا بلکہ جب وہ کوئی جنازہ دیکھتا ہے تو اس مرنے والے انسان پر بھی اسے ترس آتاہے۔انسان کو رحم اگر نہیں آتاتو خود پر نہیں آتا، باقی تو سب پہ آتا ہے!