"FBC" (space) message & send to 7575

آئیے! شکر ادا کریں

اگر آپ کبھی چمپینزیوں یا گوریلوں وغیرہ پر دستاویزی فلم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور انسان میں غیر معمولی مشابہت پائی جاتی ہے۔ آپ ان کے بچوں کو آپس میں کھیلتا ہوا دیکھیں‘ سو فیصد انسانی بچوں جیسی حرکتیں۔ بندر تو باقاعدہ شرارتیں کرتے ہیں۔ کوئی بلی یا کتا ان کے پاس بیٹھا ہو تو اچانک اس کی دم کھینچ کے بھاگ جائیں گے۔ چمپینزیوں کی سب سے بڑی ماہر جین گوڈل کی ایک دستاویزی فلم میں دیکھا کہ چمپینزی دوسرے چمپینزیوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے جارحانہ مزاج دکھاتے ہیں۔ وہ سینہ پیٹتے ہیں، چیخیں مارتے اور چھلانگیں لگا تے ہیں۔ پھر جھگڑا ختم ہوجانے کے بعد وہ حالات معمول پر لانے کے لیے دوسرے چمپینزیوں کا ہاتھ پکڑتے ہیں، ان سے منہ جوڑ لیتے ہیں۔
جین گوڈل کے کیمپ میں ٹین کے خالی کنستر پڑے تھے۔ ایک چمپینزی کو اچانک معلوم ہوا کہ کنستر کو لڑھکانے سے زور دار آواز آتی ہے۔ اپنے گروپ میں اس چمپینزی کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی لیکن پھر وہ کنستر لڑھکاتا ہوا نکلا اور کچھ دیر کے لیے ان سب پہ غالب آ گیا۔ اس وقت وہ اس پہلے انسان کی طرح تھا، جس نے پتھر یا ہڈیوں سے کوئی اوزار بنا لیا ہو۔ کچھ دیرآپ ان کی حرکتیں دیکھیں، آپ کو ان میں اپنا آپ نظر آئے گا۔ چمپینزی اس قابل تھے کہ اگر انہیں بات کی تہہ تک اترنے (Reasoning) اور منصوبہ بندی (Planning) کی صلاحیت عطا ہوئی ہوتی تو یہ کرۂ ارض سے انسان کا صفایا کر دیتے۔ مغرب والے یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ہماری خوش قسمتی تھی کہ انسان عقل مند ہو گیا ورنہ ہماری جگہ چمپینزی یا گوریلا بھی ہو سکتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو پنجرے میں انسان بند ہوتا‘ چمپینزی تھری پیس سوٹ پہن کر اپنے سمارٹ فون سے ہماری تصویریں لے رہے ہوتے۔
انسان کو کتنی عزت اور کتنا علم عطا ہوا ہے‘ وہ راکٹ میں سفر کر سکتا ہے۔ اپنے اس غیر معمولی علم پر انسان کو ناز بھی بہت ہے۔ وہ کہتاہے: ہے کوئی مجھ جیسا؟ انسان بہتے ہوئے پانی کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کر لیتا ہے۔ جانور زیادہ سے زیادہ ایک چھڑی کو بطور اوزار استعمال کر سکتے ہیں لیکن انسان نے جس طرح کے اوزار بنائے، دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انسان پورے شہر کو تباہ کر دینے والے سمارٹ بم بنا چکا ہے۔ انسان وہ واحد جاندار ہے، آج جسے یہ معلوم ہے کہ یہ دنیا وجود میں کیسے آئی۔ بگ بینگ کیسے وقوع پذیر ہوا۔ انسان لوہے کا انجن اور ڈھانچہ بنا کر‘ اس میں ربڑ کے ٹائر لگا کر‘ تارکول کی سڑک پہ سفر کرتا ہے۔ انسان وہ غیر معمولی طویل سفر چند دنوں میں طے کر لیتا ہے، جو کوئی جانور اپنی ساری زندگی میں نہیں کر سکتا۔ انسان کو یہ معلوم ہے کہ سورج میں حرارت اور روشنی کیونکر پیدا ہو رہی ہے۔
اپنے غیر معمولی علم کی وجہ سے انسان جانوروں کو ترس ہی نہیں، تضحیک آمیز نظروں سے بھی دیکھتا ہے۔ انسان کا یہ علم مگر ہے کیا؟ ذرا ایک نظر اس پر بھی ڈالیے۔ اپنے اپنے شعبے میں جو لوگ غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں، ساری دنیا ان کوعزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ باکسر محمد علی، ماہرِ طبیعات آئن سٹائن، کوئی بہت بڑا سرجن، کوئی بہت بڑا ماہرِ نفسیات، ایک بہت بڑا جنرل۔ ان کو کبھی اپنے اپنے شعبے سے باہر لے کر آئیں اور کسی دوسرے شعبے کی کسی چیز کے بارے میں ان سے رائے مانگیے۔ کبھی آئن سٹائن جیسے عالمی شہرت یافتہ طبیعات دان سے کہیں کہ ہیلتھ سائنسز یا بیالوجی کے کسی مسئلے پر اپنی رائے سے نوازے۔ محمد علی باکسر سے کوئی چاند پر میزائل اتارنے کے بارے میں ٹیکنیکل سوال کرتا۔ آپ کسی عالمی شہرت یافتہ صحافی سے پوچھیں کہ پانی سے بجلی کیسے بنتی ہے؟ نیوٹن جیسے ماہرِ طبیعات، ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات سے اگر کوئی کیمسٹری یا حیاتیات کے سوال پوچھتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اپنی لافانی عظمت کے باوجود وہ اس شعبے میں صفر ہے۔ دوسرے شعبے میں ماہرانہ رائے دینا تو دور کی بات، وہ اس کی شدبد بھی نہیں رکھتا۔اس شعبے میں کالج کا ایک لڑکا بھی اسے بے وقوف بنا سکتا ہے۔ آپ کسی بہت بڑے کیمیا دان سے کہیں کہ ذرا ایک دیہاتی سے اچھی سی بھینس خرید لائے۔ پھر دیکھیں‘ وہ کیسا جانور خرید کر لاتا ہے۔ یہ ہے انسانی علم۔ سائنسدان بیٹھے بٹھائے کوئی نئی ایجاد نہیں کر دیتا۔ وہ چالیس چالیس سال ایک نکتے پر غور کرتا رہتا ہے۔ پھر وہ ایک بہت بڑی ایجاد کرتا ہے۔جب ایک سائنسدان کسی نکتے پر بہت گہرائی میں غور کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کا ایک نقصان بھی ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس نکتے میں کھو جاتا ہے اور زندگی کی دوسری حقیقتوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ سائنس دانوں کے لطیفے کتنے مشہور ہیں۔ پھر آپ کیا اس بندے کو بہت بڑا صاحبِ علم مانیں گے، جسے ستاروں کے بارے میں تو سب کچھ معلوم ہو مگر یہ علم نہ ہو کہ اس کی رگیں بند ہوتی جا رہی ہیں اور ہارٹ اٹیک سے وہ صرف چند قدم ہی دور ہے۔ یا اسے یہ علم ہی نہ ہو کہ اس کے ناخن بڑے ہو کر از خود ٹوٹ جاتے ہیں، اسے ناخن تراشنا بھی یاد نہیں رہتا۔
جب انسان ایک نکتے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دیتا ہے تو وہ ایک بڑی تصویر دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ بڑی تصویر وہ شخص دیکھ سکتاہے، جو کسی ایک شعبے میں تو ماہر ہو لیکن دوسرے تمام شعبوں کی Basics کا علم بھی جس نے حاصل کر رکھا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ شعبے بے شمار ہیں۔ کیمیا دان جب فلکیات کی دنیا میں اترے گا تو اسے اپنا یہ زعم بالائے طاق رکھنا ہوگا کہ میں ایک بہت بڑا شخص ہوں۔ اسے ایک عام آدمی والی عاجزی کے ساتھ دوسرے شعبے کی Basics کو سمجھنا ہوگا۔ ایک بہت بڑا ماہرِ فلکیات جب حیاتیات کو پڑھنے کی کوشش کرے گا تو اسے کالج کے ایک لڑکے کی شاگردی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے۔ اسی صورتِ حال سے اسے دوبارہ گزرنا پڑے گا، جب وہ طبیعات کو پڑھنا شروع کرے گا۔اب آپ یہ دیکھیں کہ ایک سائنس دان اٹھتا ہے، جس نے مذہب کا بنیادی علم ہرگز حاصل نہیں کیا۔ الہامی صحیفے پڑھے ہی نہیں اور وہ مذہب کو یکسر مسترد کر دیتا ہے، بغیر اپنی عقل اس پر مرکوز کیے۔ مغرب میں فیشن ہے مذہب کو مسترد کرنا۔ بات یہ ہے کہ خدا کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ کیا اس نے کبھی کسی کو مجبور کیا کہ اس کی Existence قبول کی جائے۔ وہ تو ہے ہی بے نیاز لیکن آپ یہ دیکھیں کہ ایک سائنس دان کتنی بڑی علمی خطا کا مرتکب ہوتا ہے جب وہ مذہب کو پڑھے بغیر‘ تصورِ خدا کی نفی کرتا ہے۔ یہ کام وہ بندہ کر رہا ہے، جسے کسی ایک چھوٹے سے رائج سائنسی تصور کا انکار کرنا ہو تو وہ اس پہ شائع شدہ ہزاروں دقیق ریسرچ آرٹیکلز کو پڑھتا اور جوابی دلائل تیار کرتا ہے۔ شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ نے یہ کہا تھا کہ ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ شیخ ؒ تو جانتے تھے اور ہم نہیں جانتے۔
کالم کی ابتدا میں لیکن جو بات میں نے کی، کبھی اس پر غور کریں۔ میں نے گریٹ ایپس یعنی چمپینزی اور گوریلا وغیرہ کا بغور جائزہ لیا ہے۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر Reasoning and Planning کی صلاحیت انسان یعنی ہوموسیپین کے بجائے ان دوسرے گریٹ ایپس میں سے کسی اورکو مل گئی ہوتی تو سلاخوں کے پیچھے آج ہم ہوتے۔ ان کے اندر انسان کو Replace کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ ہم تو قید شدہ گوریلا اور چمپینزی وغیرہ کے قریب جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ہم اگر قید ہوتے تو وہ پنجرے کا دروازہ کھول کر اندر آتے اور انسانوں کی وہ دھنائی کرتے کہ کہیں ہمیں امان نہ ملتی۔
آئیے !اس خدا کا شکر ادا کریں، جس نے ہمیں پنجرے کے باہر رکھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں