انسانی زندگی میں خون کے رشتے نہیں بدل سکتے۔ چاہے وہ برادرانِ یوسف جیسے ہی ہوں۔ ویسے ہی اس زمین پر قائم کوئی سلطنت یا ملک اپنے پڑوسی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہاں البتہ ! اگر ہمسایہ ملکوں کی لیڈر شپ ایک دوسرے کے ساتھ سلوک بد ل دینے کی اہل اور خواہش مند ہو تو پھر پڑوسی ''ہم-سائے‘‘ بن سکتے ہیں۔ فرانس، اٹلی، سپین، جرمنی اور برطانیہ اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
ہمارے مشرقی بارڈر پر غیر معمولی سرگرم پڑوسی بھارت ہے‘ جس کے نئے لیڈر نریندر مودی کا سربھارت کی مُسلم اقلیت، ایٹمی پاکستان اور کشمیر میں رائے شماری کا ذکر سُن کر اکثر گرم رہتا ہے۔ انہی دنوں دیکھ لیں۔ انتخابی مہم کی آخری تقریروں کے دوران مودی نے ہمارے وزیرِ اعظم کے بارے میںیہ تک کہہ ڈالا۔ نواز شریف صاحب کی اوقات ہی کیا ہے...؟ اس جنگجویانہ بیان کے دو نتیجے فوراً سامنے آئے۔ پہلے، بی جے پی کے لیڈرگری راج سنگھ نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ،سارے دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں۔ دوسرا، بھارتی تامل ناڈو کی پانڈی چری یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم علی حسن پر قاتلانہ حملہ۔ مُودی راج کی گِری چبانے والے سنگھ کو کون بتائے بلکہ کیوں بتائے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے زندہ مسافر بھارت کے باوردی عسکری ہندو اہل کاروں نے جلائے۔ممبئی حملوں کے اصل ملزموں کو دبوچنے والے شری ہیمنت کرکرے کو کسی مسلمان نے نہیں مارا۔ بابری مسجد کی شہادت بھارتی مسلم لیڈر کی نگرانی میں نہیں ہوئی ۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا منصوبہ بھارت کی داخلی سلامتی کے چوکیداروں نے خود بنایا‘ کسی اور نے نہیں۔ گجرات مسلم کش فسادات کی ذمہ دار بی جے پی ہے کوئی مسلم تنظیم نہیں۔یہ ہم نہیں کہتے‘ امریکہ بہادر نے اسی ثبوت کی وجہ سے بھارت کے وزیرِاعظم اِن ویٹنگ کو ویزہ دینے سے انکار کر رکھا ہے۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا مزاج شاہانہ ہے۔ معاف کرنے پر آجائیں تو رَن آف کَچھ، سقوطِ ڈھاکہ، سرکریک،سیاچن گلیشیر، کارگل کے شہداء، میجر عزیز بھٹی، تھر پار کر مونا بائو، تیس ہزار کشمیری خواتین کی دلد وز چیخیں، اننت ناگ سے مہینڈر تک ایک لاکھ سے زیادہ تازہ شہیدوں کے قبرستانوں سے نظر بچا کر مودی کو روایتی مبارکباد نہیں بلکہ بہت بہت مبارک دے سکتے ہیں۔اور اس خوش کُن خواہش کا اظہار بھی ہو سکتا ہے کہ ؎
اِک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
ہم کشادہ دل ہیں ۔کِشن گنگا، بگلیہارڈیم، بے آب ستلج، سوکھے ہوئے بیاس، سکڑتے راوی کے دکھ پرے رکھ دیتے ہیں۔ مثالی پڑوسی بننے کی ہماری اپنی خواہش درست ہو سکتی ہے، لیکن بی جے پی کا اینٹی سیکولر ایجنڈا اور ٹریک ریکارڈ ہمیشہ سے یوں رہا ہے ؎
سنگ اِک ایسا نشانے پہ لگایا جائے
ماروں چاچے کو، مگر ساتھ میں تایا جائے
ہم مودی راج کو اس گرم جوشی سے خوش آمدید نہ کہیں تو اچھا ہے، پہلے اُسے راج نیتی کی اننگ شروع کرنے دیں۔ مودی لڑاکا مزاج ہیں۔ ایسا نہ ہو ہمیں مبارک سلامت واپس لینے کے لیے الفاظ ہی نہ مل سکیں۔ بھارتی اقتدار میں ہمارا نیا پڑوسی کون آیا ہے؟ انڈین مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لیڈر قاسم رسول الیاس کا ردِ عمل ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔ پاکستان کے نئے پڑوسی پر بی بی سی کا تبصرہ قابلِ توجہ ہے‘ جس میں کہا گیا کہ مودی حکومت میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر‘ دفعہ 370وغیرہ جیسے آتشیں سوال پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بھارت میں پہلی دفعہ مذہبی بنیاد پر حکومت بنی ہے۔ جس کی انتخا بی مہم کا سب سے بڑا نعرہ ''ہندوتوا‘‘ یعنی ہندو راج کی واپسی تھا۔
ہمارا مغربی بارڈر گرم سے زیادہ نرم ہے۔ نہ ڈرو ن اُڑانے والے گورے ڈیورنڈ لائن کی پروا کرتے ہیں‘ نہ ہی بکریاں چرانے کی آڑ میں موت بیچنے والے افغان پاوندے اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ہمارے مشرق اور مغرب کی تقسیم عجیب ہے۔ جو سرکاری دانشور مشرق میں سُرخ گلاب کی نرسریاں اُگانا چاہتے ہیں‘ وہی مغربی سرحد پر ڈرٹی بم سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ راج دربار کی یکسوئی کا کیا کہنا۔ ایک طرف پنجاب کا کسان آلو کنگ کے خلاف اِسی مہینے مورچہ لگا رہا ہے۔ کاشتکار کہتے ہیں امرتسری اور کرتارپوری آلو کو ساٹھ روپے پر پہنچانے کے لیے پنجاب میں زراعت کی گردن مروڑ ی گئی ۔ دوسری طرف ایک وزیرِ مملکت نے شاہی فرمان سُنایا ''بہت جلد لوگ کالا باغ ڈیم کو بھول جائیں گے‘‘۔ مجھے حکومتی موقف سے پُورا اتفاق ہے۔ زراعت ہو گی تو پھر لوگ کالا باغ ڈیم یاد رکھیں گے۔ زرعی معیشت کو جس کھائی کے کنارے تک لے جایا گیا ہے‘ وہاں اسے صرف آخری دھکا دینے کی ضرورت باقی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر سرکاری ترجمان قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ وہ پاکستانی کاشتکاروں کے ساتھ ہیں یا بھارتی آلو کے امپورٹرز کے۔ عام آدمی کو سمجھانے کے لیے ترجمان کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ ان دونوں میں سے غلیل والا کون سا ہے؟
بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی نیا لیڈر چند دنوں میں اقتدار سنبھالے گا۔ بظاہر ناردرن الائنس والے عبد اللہ عبد اللہ کو برتری حاصل ہے۔ عبد اللہ عبداللہ جب اپوزیشن میں تھے تب اُن سے میری دو بار ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ اسلام آباد میں منعقدہ چھوٹے جرگے کے دوران‘ دوسری دفعہ کابل میں۔ افغان قیادت کے دوسرے امیدوار اشرف غنی معیشت دان ہیں۔ اشرف غنی کے بہت سے دوست پاکستان میں کاروبار کرتے ہیں۔ یوں سمجھا جا رہا ہے شاید اشرف غنی پاکستان کے حوالے سے ''سافٹ‘‘ ہوں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کے بعد بھارت افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی اور ترقیاتی پارٹنر ہے۔ افغان سرزمین پر بے شمار چھوٹے ڈیم اور زیرِ تعمیر شاہراہیں بھارتی ٹھیکیداروں کے پاس ہیں۔ افغانستان میں قائم بھارت کے لا تعداد قونصل خانے دن رات جاگ رہے ہیں۔انہیں معلوم ہے نیٹو اور امریکہ نے روس کی طرح افغانستان چھوڑنا ہے۔ بھارت کے فیصلہ سازوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مغربی طاقتوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد جب خلاء پیدا ہو گا، تو پھر کیا ہو گا؟
دوسر ی طرف ہم ہیں ۔ مشرقی پڑوسی کے گلے میں بانہیں لہرا کر لُڈّی ڈالنے والے سمجھتے ہیں‘ مغربی پڑوسی افغانستان خود مختار ہے۔ افغانستان کی خود مختاری کا احترام ہونا چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے، کیا افغانستان کی خود مختاری سکّم، بھوٹان اور سری نگر کی کٹھ پتلی حکومت سے مختلف ہو گی...؟ اگلا سوال اس سے بھی اہم ہے ۔ ہماری پارلیمنٹ کی افغان پالیسی ہے کیا...؟ یوں لگتا ہے یہ پالیسی افغانی تکّے، شیریں یخ، تورشی، نان کباب، یخنی پُلائو اور دَم پُخت سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔ جو ادارے افغان پالیسی جسمانی طور پر بھُگت رہے ہیں‘ انہیں ہم نے مسلسل میڈیا ٹرائل کے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے۔ اب اسے فائرنگ رینج میں تبدیل کر دیا گیا۔ جہاں سامنے ایک تصویرلگا کر اردگرد تہمت اور الزامات سے مسلح گروہ گھیرا ڈال کر کھڑے ہیں۔ اگر میڈیا ٹرائل کی فائرنگ رینج کو ٹِلّہ جوگیاں بنانے کی کوشش اسی طرح جاری رہی‘ تو پھر خدا نخواستہ کسی دن مصورِ پاکستان اقبال اور بانی ِ پاکستان قائدِ اعظم کی تصویروں پر بھی شارپ شُوٹر آگ برسا سکتے ہیں۔
جسے یقین نہ آئے وہ انتہائی ناشائستہ اور گلزار بی بی والے دل آزارمارننگ شو کا وڈیو کلپ استغفار پڑھ کر دیکھ لے۔ نیا پڑوسی کون ہے اور غلیل بردار کون؟۔