کبھی نہ کبھی ،مقدر کے سکندر کا مقدر بھی جواب دے جاتا ہے۔ اسی لیے ہیما مالنی اور شتروگن سنہا جو ہمیشہ مرد مومن کے کام آتے رہے ،ہماری جمہوریت کے لیے کورے نکمّے ثابت ہوئے ۔ اس ہیروئن اور ہیرو سے نہ سیاسی بازار کی گرمی کم ہو سکی نہ ہی سیاسی پریشر۔ لیکن پاکستان کی سینیٹ ہیما مالنی کی آنکھوں کی قائل ہو گئی۔ اب یہ مت پوچھیے گا ، دونوں آنکھوں کی یا علیحدہ علیحدہ؟پوٹھوہار کے فوجی اگلے محاذ سے بھیجے گئے خط کا اختتام ہمیشہ اسی جملے پر کرتے ہیں۔ جس سے آج میں وکالت نامہ کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔
''تھوڑے لکھے کو زیادہ پڑھناـ ‘‘
دو تہائی کے قریب اکثریت۔اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے آئینی اداروں کے سربراہ۔ مٹی کے مادھو جیسی اپوزیشن۔ موم کی ناک سے بنی بیوروکریسی۔ احتساب بالکل گھریلو کھابے جیسا ۔اتنی رعایتوںکے باوجود دس مہینے میں حکومت کی سانس کیسے پُھول گئی؟ اگر مڈٹرم الیکشن ہوگیا تو پنجاب کی یونیورسٹیاں اسی موضوع پر سیاستدان طالب علموں کو پی ایچ ڈی کروایا کریں گی۔
معیشت کی ایک اصطلاح ہے"Built-in Destabilizer"۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ مغرب میں بڑی عمارتوں کو گرتا ہوا دیکھ لیں۔9/11 کے دن ٹوئن ٹاور کی بنیاد میں دھماکہ نہیں ہوا۔ اس ٹاور کو اندر سے گرانے کا نظام لگایا گیا تھا۔ اسی لیے جہاز فضا میں پھٹے اور ملبہ ٹوئن ٹاور کی بنیاد پر گرا ۔اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے ڈیزائینر نے دونوں ٹاور بنائے ہی گرنے کے لیے تھے ۔سریے،لوہے، جنگلے اور کنکریٹ کے سلیب ،کاغذ کی فائلوں سے پہلے زمین پر آ گرے۔ سنجیدگی سے غور کرنے والا سوال ایک ہی ہے۔ کون سی وجوہ نے پاکستان کے سیاسی بازار میں گرمی پیدا کی۔بلکہ سیاسی بازار کی گرمی کا انڈیکس روز بروز بُل کے سینگوں کی طرح اکڑ کر سکائی راکٹ کیسے بن گیا ۔ آئیے گرمی کے اِنڈی کیٹرز ''اشاریے‘‘ تلاش کریں۔ لیکن اصلی بات جو پاکستان کے حکمرا ن بھولتے جا رہے ہیں‘ وہی ہے جو قا ئدعوام نے پی پی پی کی تاسیسی مہم کے دوران کہی تھی۔ یہی فلسفہ پارٹی کے بنیادی اُصولوں میں سے ایک تھا ''طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم سے پہلے یہی بات آدم سمتھ کی معاشیات نے بھی کہی۔ اگرچہ کسی اور انداز میں۔ وہ یہ کہ کوئی معاشی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک عوام یہ نہ سمجھیں کہ اس پالیسی میں ان کا بھی حصہ ہے۔ موجودہ حکومت نے ا پنے پہلے سال میں جو اقتصادی فیصلے کیے، ان کے نتیجے میں اربوں کھربوں روپے اور ڈالرز کے بر ق رفتار معاہدے ہوئے ۔ ساتھ ساتھ جو دوستانہ ٹھیکے دیے گئے‘ ان کی قبل از وقت منظوری نہ تو کابینہ سے لی گئی۔ نہ ہی نام نہاد عوامی طاقت رکھنے والی پارلیمنٹ کو اتنی لفٹ کروائی گئی کہ وہ کسی غیر تحریری اقتصادی پالیسی یا تحریری فیصلے پر بحث کر سکے۔
بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں اقتصادی پالیسی گھریلو ٹوٹکے، صدری نسخے یا کاروباری پارٹنرز کی منشا ء کے مطابق بنائی گئی۔ اب کوئی افلاطون نہ تو تقریر کے زور پر اور نہ ہی موسیقی یا شاعری سے عوام کو بے فیض پالیسی کے پیچھے چلاسکتا ہے ۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔سرکاری لیڈروں کی سانس اُکھڑ رہی ہے۔ غصے، انا اور ضد کے ذریعے ناکارہ اپوزیشن کو دھکا لگا لگا کر سٹارٹ کر دیا گیا ۔ ایسی حرکتیں اقتصادیات کے بارے میں ناکام پالیسی بنانے والے کی شرمندگی مٹانے کے بجائے نظام کے خلاف تلخی بڑھانے کا مجرب نسخہ نہیں تو اور کیا ہے۔
گزشتہ چھتیس سال سے بر سراقتدار لیڈروں نے جس طرح الیکشن مہم کے دوران چھاتی پر ہاتھ مار مار کر عوام کو دہشتگردی، بدامنی ،مہنگائی،لوڈشیڈ نگ اور چور بازاری سے نجات کے وعدے کیے‘ ان کا نتیجہ لوگوں کی اونچی امیدوں کی صورت میں نکلا ۔الیکشن کے بعد حکمرانوں کا رویہ اُلٹ ہوگیا۔ مہنگائی نے ایشیائی تاریخ کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ پہلی بار تین سال اور سات سال کے بچے اور بچیوں کو فوجداری ایف آئی آر میں بطور ملزم گرفتار کیا گیا۔معصوم اور نابالغ لڑکے اور لڑکیوں کی بے حرمتی کا طوفان بد تمیزی اُمڈ آیا۔ نچلے اور ریلیف سے محروم طبقات کی نہ تو کوئی اپنی آواز ہے‘ نہ ہی نظام پر قابض گروہ انہیں انسان سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ تھانے عذاب خانے بن گئے ہیں۔ کچہریاں قتل کے لیے کنفرم گرائونڈ اور سنگسار کرنے کے لیے محفوظ جگہ۔
لاہور ہا ئیکورٹ میں پیشی پر آنے والی خاتون کو ماورائے عدالت اور بر سربازار سنگ سار کر دیا گیا ۔قومی امور پر حد سے زیادہ غیر سنجیدہ اور انتہائی غیر پارلیمانی طرز کلام نے حکمرانوں کی رہی سہی ساکھ اور عوام کی اُمید دھماکے سے اڑا دی۔
اسی لیے وقت سے بہت پہلے پاکستان کی سیاست گرینڈ الائنس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی پارلیمانی طاقت ایسی ہو جو حکومتی ایجنڈے پر یکسو نظر آئے۔ پارلیمنٹ سے باہر رہ جانے والی سیاسی قوتوں کی یہ خواہش قدرتی ہے کہ انہیں چار سال مزید انتظار نہ کر نا پڑے۔ لے دے کر ایک سندھ حکومت رہ جاتی ہے جہاںسے وفاق کے لیے لائف سپورٹ کی آکسیجن آیاکرتی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ سندھ حکومت کے سارے عہدیدار پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے ٹکٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچے ہیں ۔ امین فہیم اسی پارٹی کے چیئرمین ہیں جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ کراچی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے سے ایک سال پہلے کے مقدمے میں ضمنی چالان داخل کرایا گیا‘ جس کے ذریعے امین فہیم اور یوسف رضا بھی ملزم نامزد ہوئے۔ چنا نچہ خورشید شاہ کو بھی بولنا پڑا‘ حالانکہ شاہ صاحب موجود ہ حکومت کے معاملے میں ایک سال تک شاہ سے بھی زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا طعنہ برداشت کرتے رہے ۔
آج وفاقی حکومت کی گھبراہٹ کہاں پہنچ چکی ہے ؟اس کا اندازہ یوں کریں کہ اگلے روز میں سپریم کورٹ سے ایک سیمینار میں شرکت کے لئے جانے لگا۔اچانک انتہائی قیمتی اور ماڈرن ہتھیار اُٹھائے پولیس کا دستہ سامنے آگیا۔ پہچان کر کہنے لگے، سر ! اس سڑک پہ کنٹینر لگ گئے ہیں‘ آگے راستہ بند ہے ۔ یاد رہے الیکشن کمیشن تک جانے کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ پچھلے پانچ سال میں اسی شاہراہِ دستور اور ڈی چوک میں ہر روز کئی کئی جلوس یا دھرنے سجائے جاتے تھے۔ جمہوریت جیسے تیسے پھر بھی چلتی رہی‘ اُس وقت بھی جب پنجاب کے اندر سرکاری قیادت میں مسلح جلائو گھیرائو جاری رہا۔ مخالفین کو لٹکانے اور گھسیٹنے کے لیے چوک اور کھمبے مارک کیے گئے۔
تازہ بھارت یاترا کے دوران ، خاموش فلموں کے ہیرو کی طرح مودی اور آر ایس ایس کی ڈانٹ ڈپٹ پر مبنی چارج شیٹ کی وصولی‘ ناموس اہل بیتؓ کے حساس معاملے پر حکومتی رویہ کریش شدہ سیاسی منڈی کو جیٹ سپیڈ لگانے کا ذریعہ بنا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اب چار حلقوں والی بات پرانی ہو گئی‘ اس میں تین سواڑتیس حلقے مزید بھی شامل ہو چکے ہیں۔ جہاں اربوں روپے پُھونک کر ریل گاڑی نہیں چل سکی‘ وہاں ملک کی جمہوری گاڑی کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے رویہ اور ٹیم بدلے بغیر آگے کا سفر ممکن نہیں رہا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں انا کے پہاڑوں پر بسنے والے لوگ رویہ تبدیل کر سکتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریٹ پارٹنر بدلنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ بھی سُن لیں۔ بجٹ سے پہلے ہی دوائیوں کی قیمتیں سو سے ایک سو تیس فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ وکیلوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ وفاق سویا رہا اور محض ایک جوڈیشل فیصلے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار ملازم سرکاری نوکریوں سے فارغ۔ مہنگائی میں اضافہ دو سو فیصد سے تین سو فیصد تک رجسٹر ہوا۔ تنخواہ اور پینشن میں اضافہ دس فیصد تجویز کیا گیا ہے۔ جمہوریت اچھی ہو یا بُری وہ سالن، چائے اور چپاتی سے زیادہ لذیذ نہیں ہوتی۔