وزیر خزانہ نے بجٹ کی ہیٹرک مکمل کرلی۔ ان کا پہلا بجٹ 2008-09ء والا تھا‘جو میثاقِ جمہوریت کے عین مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت کو جہیز میں دیا گیا۔دو سرا بجٹ پچھلے سال کا، جس نے عوام کو جہیز کے قابل چھوڑا نہ ولیمے کے لائق ۔تیسرا بجٹ کمال کی حد ہے۔ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست میں پہلے گریڈ کے غریب ملازم کو 480روپے ماہانہ کا عظیم الشان ریلیف دیا گیا۔ یہی ریلیف 22گریڈ کے امیر افسر کے لیے 8570روپے ماہانہ بنتا ہے ۔انگریزی اخبار کے رپورٹر نے کمال کی ہیڈ لائن لکھی Relief for rich....peanuts for poor... امیروں کو سب سہولتیں‘ غریبوں کے لیے مونگ پھلی کا دانہ۔
میں نے عوام کی سہولت کے لیے 74 صفحے کی بجٹ تقریر میں شامل 76 پیراگراف کئی بار پڑھے۔ مجھے کسی جگہ عوام کے لیے ریلیف او ر غریبوں کے لیے مہنگائی کا خاتمہ‘ یا وہ 50فیصد سے زیادہ لوگ‘ جو وزیر خزانہ کے بقول غربت کی لکیر کے نیچے جیتے ہیں‘ ان کے لیے کوئی تجویز دیکھی نہ کوئی پروگرام ملا اور ظاہر ہے نہ ہی ریلیف۔ شائع شدہ بجٹ اخباروں میں چھپ چکا ہے اور بولا ہوا بجٹ ٹی وی نے نشر کر دیا ۔میں اُس کی ر و نمائی کروں گا جو بجٹ ِممنوع میں شامل ہے‘ لیکن اس سے پہلے برادرم رئوف کلاسرا کے ذریعے میرے ساتھ عین پارلیمنٹ کے دروازے پر جو ہوا وہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
سینٹ ہال میں داخل ہوتے وقت ایک میانہ قد لڑکے نے انتہائی بے تکلفی سے میرا بازو پکڑا اور کہا رئوف کلاسرا صاحب نے حکم دیا ہے مجھے بجٹ کی کتابیں آپ سے پہلے چاہئیں ۔حکم کی تعمیل کے لیے میں ہال میں گیا۔ اپنے پارلیمانی ڈیسک سے بجٹ کی کتابوں کی رنگ برنگی گٹھڑی اٹھائی‘ دروازے پر واپس پہنچا‘ گٹھڑی سابق سرائیکی اور حال پوٹھوہاری دوست کے اہلکار کو تھمائی۔ جو نہی اندر جانے کے لیے مُڑا ہر دم تیار اور ہوشیار کلاسرا صاحب کا نام لینے والے ''غافلِ اعظم‘‘ نے پھر میرا بازو پکڑ لیا۔ پوچھا‘ امریکہ سے اب کیا حکم آیا ہے؟ کہنے لگا‘ وہ کتابیں ایک لمبا رپورٹر مجھ سے چھین کر بھاگ گیا ہے۔ میںدوبارہ اندر گیا اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ سے کتابیں لے کر سینٹ اہلکاروں کو دیں اور ساتھ کہا‘ جسے کتابیں دو اسے گیٹ تک چھوڑ کے بھی آئو کہیں وہ بے چارہ دوبارہ نہ لُٹ جائے۔بالکل ایسا ہی ہاتھ میرے اور رئوف کلاسرا کے ساتھ پہلے بھی ہو چکا ہے۔وہ ہاتھ تب ہوا تھا جب سرائیکی صوبے کا پوٹھوہاری پلان ایک اونچا آدمی ہم سے چھین کر بھاگ گیا‘ جس کے ساتھ ہی میری سالوں کی محنت اور رئوف کلاسرا کی ہمنوائی کے باوجود سرائیکی صوبہ نہ بن سکا ۔ سرائیکی اور پوٹھوہاری علاقہ کی تقدیر پسماندگی کے چاہِ یوسف سے باہر آتے آتے رہ گئی ۔قتل جو نہ ہو سکا جیسا شاہکار لکھنے والے رئوف کلاسرا چاہیں تو اس پر ایک اور کتاب لکھ ڈالیں ۔
اب آتے ہیں بجٹِ ممنوع کی طرف ۔صدر ممنون کے بقول ''شیشہ پِلائی ہوئی قوم‘‘ کے ساتھ جو انتخابی وعدے وزیراعظم، وزیراعلی پنجاب اور وزیر داخلہ نے انتخابی جلسوں میں کیے تھے‘ وزیر خزانہ نے بجٹ کے صاف تالاب میں اُن وعدوں کی کوئی ان دُھلی مچھلی نہیں گھسنے دی‘ اور عوام میں سے وہ واحد طبقہ جو سرکاری ملازمین کہلاتا ہے‘ اس نے بجٹ مسترد کر کے اسی لیے دھرنے کا اعلان کیا۔ان کی نمائندہ ملک گیر تنظیموں کی فیڈریشن آف گورنمنٹ ایمپلائز نے بجٹ مسترد کر دیا۔اس فیڈریشن کے رہنمائوں راجہ صدیق،ڈاکٹر عبدالشکور، عامر مقصود بٹ، رائو عبدالغفار اور دوسروں نے بجٹ کو سروس آف پاکستان کے ملازموں پر خود کش حملہ بھی کہہ دیا ۔اس ردِعمل سے مجھے وہ فرمائشی اینکر یاد آ گئے جو وزیراعظم کے اعلان کردہ معاشی دھماکہ پر میرا مثبت ردِ عمل چاہتے تھے ۔امید ہے ملازمین کی فیڈریشن کا ردِ عمل انہیں دھماکہ اور خودکش حملہ کا آپس میں تعلق سمجھا دے گا۔
آج اسلام آباد کے ڈی چوک میں امیر جمہوریت اور غریب عوام کا تعلق بھی کھل کر سامنے آگیا۔ دہشت گردوں اور ڈاکوئوں چوروں کو مارنے کے لیے غریبوں کی تنخواہوں سے کاٹے گئے ٹیکس سے خریدی گئی بندوقوں اور ان کی گولیاں، بکتر بند اور ان سے چلنے والے آنسو گیس کے گولے پانچ پانچ گز لمبی ڈانگوں کے ہمراہ جس فراخ دلی سے وفاقی پولیس نے استادوں اور کلرکوں پر چلائے‘ اس فراخ دلی کا مظاہرہ اس شاہراہ پر سرکار نے اپنے اہلکاروں کے ساتھ پہلے کبھی نہیں کیا۔ شورش کاشمیری نے ایسے ہی عوام دوستوں کے لیے کہہ رکھا ہے:
ناساز گار آب و ہوا ہے‘ کہاں چلیں
صَر صَر کی زد میں نظمِ گلستاں ہے دوستو
جو کچھ سلوک ہم سے چمن میں کیا گیا
تاریخ اس پہ ششدر و حیراں ہے دوستو
اپنے لہو سے لالہ و گُل کو نکھار دو
یہ بھی علاجِ گردشِ دوراں ہے دوستو
گیس،بجلی اور کھانے پینے کی چیزوں کی 1990ء والی قیمتیں واپس لانے کا وعدہ پورا کرنے کی بجائے نیا بجٹ 1990ء والی مصیبتیں واپس لے آیا ہے۔ وہ اس طرح کہ نئے بجٹ کے ذریعے 5700کروڑ روپے کا گیس ڈویلپمنٹ سر چارج لاگو کیا گیا‘ جس کے تحت سی این جی،کھاد،بجلی پلانٹس اور سیمنٹ فیکٹریاں مہنگائی پیدا کرنے والی فیکٹریوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ ایک ایسا بجٹ جس میں ٹیکس ریونیو کے ذریعے 31کھرب 29 ارب کی وصولی کے مقابلے میں حکومت کے جاری اخراجات31کھرب اور30ارب ہوں گے‘ سود کی ادائیگیوں کے لیے 13کھرب اور 25ارب روپے رکھے گئے۔ جبکہ پورے پاکستان کے دفاع کے لیے ہزاروں کلو میٹر لمبی سرحد پر سردیوں میں ٹھٹھرنے اور گرمیوں میں اُبلتے مو سموں کے دوران دشمن کی گولیوں کے سامنے چھاتیاں تانے کھڑے ہونے والوں کے کل دفاعی اخراجات صرف7کھرب روپے ہوں‘ جو درحقیقت بھارت کے روپے کے حساب سے کُل ساڑھے3 کھرب روپے بنتے ہیں‘ جبکہ بھارت کے دفاعی اخراجات اپنی کرنسی میں 35کھرب روپے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 70کھرب روپے بنتے ہیں۔ ملک بھر کے فوڈ باسکٹ یعنی زراعت کے لیے 20 کھرب 13 ارب روپے کی ننھی مُنّی رقم رکھی جائے اور چند سو لوگوں اور بیوروکریٹ پر مشتمل سِول لیڈروں کے اخراجات 2 کھرب91 ارب ہوں یعنی پورے ملک کے زراعت سیکٹر سے 88ارب روپے زیادہ سرکار کی عیاشیوں پر خرچ ہوں‘ اندرونِ ملک مقامی بینکوں سے لیا جانے والا قرض 2کھرب 28 ارب روپے کا ہو‘240 ارب روپے کی مجموعی سبسڈی میں سے 20کروڑ لوگوں کے رمضان پیکج کے لیے صرف 2ارب روپے رکھے جائیں اور حکمرانوں کی شوگر ملوں سے شکر کی خریداری کے لیے 4ارب روپے رکھے جائیں اس کے مقابلے میں ایک پیپکو کو165ارب بجلی نہ بنانے والوں کے لیے150 ارب روپے دیئے جائیں‘ کراچی کو بجلی کی سپلائی سے ترسانے والی کے ای ایس سی کی خدمت میں 155ارب روپے پیش ہوں گے‘ اس کے مقابلے میں ہمارے پسماندہ ترین وفاقی یونٹ فاٹا اور گلگت بلتستان میں گندم کی فروخت کے لیے مونگ پھلی کا چھلکا یعنی بالترتیب 28کروڑ اور 82کروڑ روپے کی رقم۔ اس کے مقابلے میں گوری چمڑے والے‘ آئل مِل ریفائنریوں والے کے لیے اربوں کا تحفہ پاکستانی مالِ مفت کے ساتھ حکمرانوں کے دلِ بے رحم کا ثبوت ہے۔
مجھے یقین ہے اب تک بجٹِ ممنوع کھا کھا کر آپ کا پیٹ بھر چکا ہو گا۔ معذرت قبول کریں‘ میرا مطلب ہے لفظوں اور رقموں کا گورکھ دھندہ پڑھ پڑھ کر آپ کی تسلی ہو چکی ہو گی‘ مگر جناب اور لیجیے جن بڑے پیٹ والی وزارتوں اور لکڑ ہضم ،پتھر ہضم جیسے محکموں نے گزشتہ بجٹ میں پارلیمنٹ کی منظور کردہ حد سے 56کھرب روپے زیادہ اڑا دیئے اب آپ کی عوام دوست پارلیمنٹ چند دن میں اس کی بھی منظوری دے دے گی ۔
یہ واحد کابینہ ہے جس میں نام کے لیے بھی ایک عدد خاتون پارلیمنٹیرین فُل وفاقی وزیر نہیں ہے۔ ایسے میں لِپ سٹک اور نیل پالش تو یکطرفہ طور پر مہنگے کر دیئے گئے لیکن مردوں کی بالادستی والی کابینہ نے ادھیڑ عمروں والے لیڈروں کا پسندیدہ خضاب ''ہیئر کلر‘‘ مزید سستا کردیا۔
ٹرانسپورٹ کے میدان میں عام آدمی کو سہولت دینے کے لیے لینڈ کروزر، پراڈو، پجارو، ڈبل کیبن، مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو بھی سستی ہو گئی ہیں۔ غریب عوام کو ایک اور مبارک۔
ہاں البتہ بلی اور کتے کا کیا بنے گا ؟ ان کو انرجی اور طاقت دینے والے کھانے 25فیصد مہنگے ہو گئے۔ اب ضروری ہو گا کہ یا تو دونوں کیٹ اینڈ ڈاگ والی لڑائی ختم کر دیں یا کتے 25فیصد کم بھونکیں۔ تاہم انہیں یہ شعر گنگنانے کی اجازت ہونی چاہیے ؎
کل سرِ بازار کتے نے یہ کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا