آخر ہو گا کیا ؟

سب سے پہلے سال کی سب سے عظیم خبرپر آپ سب کو مبارکباد۔رمضان کریم کی آمد پر دو دن پہلے میں نے کینیڈا کے ایک بین الاقوامی شاپنگ برانڈ کا اعلان ٹویٹ کیا کہ وال مارٹ نے مسلمانوں کے لیے رمضان شریف میں خصوصی رعایتی پیکیج دیا ہے۔ اس ٹویٹ کے جواب میں مغربی دنیا میں غیر مسلم اداروں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے قیمتوں میں ناقابلِ یقین رعایت، خصوصی افطاری اور نماز کے انتظام کی خبر دینے والوں نے ہلہ بول دیا اورادھر اپنے ہاں بڑے بڑے حاجیوں کی کمپنیاں اپنے غریبوں کے ساتھ کیا کر رہی ہیں ۔وہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں اور ہمارا خدا بھی۔ رمضان کے استقبال کے لیے ہمارے جمہوری اداروں کا پلان کیا ہے۔یہ لوگ اس پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ایک بار پھرآئی ایم ایف نے پاکستانیوں کو555.9 ملین امریکی ڈالرکا مزید قرضہ دے دیا۔ظاہر ہے یہ قرض ہم لوگ واپس کرنے کے پابند بھی ہیں ۔اس قرض میں سے عوام کو صرف مبارکباد ملے گی یا ریلیف ،اس کی جھلکیاں دیکھ لیجیے۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے شعبان کے آخری جمعہ کے روز رمضان کے آغاز سے قبل تیل کی قیمتوں میں اضافے کی سمری وزیرِ خزانہ اور وزیر پٹرولیم کو بھجوا دی ۔اوگرا نے ڈیزل ، پٹرول، ہائی اوکٹین، مٹی کے تیل اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ تجویز کیا ہے۔ دوسری جانب بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں موجود ذخیرہ شدہ تیل کا حال کیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 19-Aکے مطابق سچ جاننا آپ کا بنیادی حق ہے، اس لیے سچ سُن لیجیے۔ سچ یہ ہے کہ آج کے دن پی ایس او کے پاس تین دن کا تیل باقی ہے۔ عراق میں اربیل کا علاقہ کُردوں کا خود مختار زون ہے جہاں عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری لگائی گئی۔ اربیل میں جنگ نے تیل کی تنصیبات کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ جس کے ثبوت کے شعلے میلوں دور سے نظرآتے ہیں۔ اس کے باوجود چھوٹے سے خود مختار کُرد علاقے کے حکمرانوں کے پاس 20کروڑ لوگوں کے اولین ایٹمی ملک کے منیجروں سے زیادہ وژن ہے۔ جہاں میلوں لمبی گاڑیوں کی لائنیں تو لگی ہوئی ہیں لیکن تیل کی دستیابی اور قیمتوں کا انتظام اپنے ہاں سے پھر بھی بہت بہتر ہے۔
جس ادارے کاذکر اوپر آیا ،یہ وہی ہے جس کا کئی سو ارب کا گردشی قرضہ واپس کرتے وقت حکومتی منیجروں نے اعلان کیا تھا کہ '' اب اگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی تو ان کا نام بدل دیں۔‘‘ یہ بات بھی خبر سے کم نہیں اور نہ ہی دلچسپی سے خالی کہ یہ ادارہ بیرونِ ملک سے تیل ادھار خریدتا ہے۔ پھر یہ تیل بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو بیچا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں تیل کی مارکیٹ کا 65سے70فیصدتک حصّہ پی ایس اوکے کنٹرول میں ہے۔ آئیں سب مل کر دُعا کریں معجزوں کے اس مہینے میں ایک اور معجزہ ہو جائے۔ بجلی کی رادھا تیل کے بغیر بھی ناچتی رہے ۔ورنہ ملک بھر کے غریب عوام اندھیری سحری اور سیاہ افطاری کے ساتھ ساتھ پہلے سے بھی لمبی لوڈ شیڈنگ کے لیے تیارر ہیں۔
آج کل آپ جس محفل میں بھی جائیں سب سے بڑا سوال ایک ہی ہے۔ نوکریاں بند ہیں، ملک میں پیداواری عمل صفر ہے، اس لیے نئی جاب کہاں سے آئے۔ قرض کے ڈالروں سے میگا ٹھیکے دینے اور چلتے ہوئے قومی ادارے بیچ کر ملنے والے پیسے براہِ راست ٹھیکے داروں اور اُن کے سرپرستوں کے درمیان گھومتے ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پرائس کنٹرول کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔ ایسے میں غریب آدمی کا ہو گا کیا ؟۔ نج کاری اور غلط کاری کے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو چکے۔ اب تو پی پی ایل اور اوجی ڈی سی ایل جیسے ڈیڑھ ڈیڑھ سو ارب سالانہ کمانے والے اداروں پر سیاسی سرپرستی میں پلنے والے گِدھ چونچیں مار رہے ہیں۔ جمہوریت کے حوصلے کا یہ عالم ہے کہ ایک ایسا جلوس جو نکل ہی نہیں سکا، اُس کو روکنے کے لیے ایک سو پچاس معذور اور ڈیڑھ درجن لاشیں تیار کی گئیں۔ یہاں بھی سوال اُٹھتا ہے آخر ہو گا کیا ؟ ایک طرف فوج پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے، دوسری طرف ریاستی اداکار فلمی اداکاروں جیسی لڑائی میں مصروف ہیں۔ سوال تو یہاں بھی یہی ہے آخر ہو گا کیا۔ پارلیمنٹ گالی گلوچ، آستین چڑھانے والے مرحلے سے آگے جا کر تھپڑ گردی کی حدوں کو چُھو رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ روزانہ دُعا پڑھ کر جاگتی ہے اور کہتی ہے، یااللہ، آج کا دن خیر سے گزار دے۔ انقلاب کا نہ تو کوئی طے شدہ روٹ ہے، نہ ہی کوئی آخری سٹاپ۔ 14اگست آنے میں 46دن باقی ہیں۔ ڈیڑھ ماہ ایک دن بعد آخر ہو گا کیا ؟ یہ وہ سارے سوال ہیں جس کا جواب دینے کی بھاری ذمہ داری ٹی وی اینکرز اور تجزیہ کار اپنے نازک کاندھوں پر لے بیٹھے ہیں۔ اچھی حکمرانی کا ٹمپریچر پہلے دن ہی 190درجے فارن ہائیٹ پر پہنچ گیا ہے۔ کسی بھی ملک میں ریاستی نظام چلانے کے ذمہ دار بیان بازی کے ذریعے نہ عوام کو راضی رکھ سکے ہیں نہ ہی اپوزیشن کو۔ مگر یہاں تو بیان بازی بھی تیسرے درجے کی جُگت والی ہے، جس سے خبر اور ٹِکر بن سکتا ہے کسی بھی سوال کا جواب یا مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ ہمارے ملک کا موجودہ نظام قوم کو مسائل در مسائل جیسی ذلت کے انبار تو دے سکتا ہے اور دے رہا ہے لیکن اب کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس نظام کے پاس نہ عوام کے سوالوں کا جواب ہے، نہ ہی کسی مسئلے کا حل موجود۔ 
اللہ اور اُس کے آخری نبیﷺ کے فرمان کے مطابق رمضان کا مہینہ فضائل کا مہینہ ہے۔ ہمارے ریاستی نظام کے تحت یہ مسائل کا مہینہ ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ، ٹریفک کا مسئلہ، ملاوٹ کا مسئلہ اور ذخیرہ اندوزوں کا مسئلہ۔ آج پانچ حکومتوں میں سے کسی ایک حکومت نے بھی اس مسئلے پر کوئی پالیسی دی اور نہ ہی روڈ میپ بنایا ۔ جتنا مال یہ حکومتیں اپنے لیڈروں کی آغازِجوانی کے دنوں والی تصویروں کے ساتھ اشتہار چلانے پر خرچ کرتی ہیں، شاید اس رقم کا آدھا حصّہ پرائس کنٹرول کا نظام بنانے کے لیے کافی ہو۔ ریاست معرضِ وجود میں ہی اس لیے آئی تھی کہ وہ کمزور اور زیرِ دست کے لیے بے لگام زبردست کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو۔ کیا آج اغواء ، آبرو ریزی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، تاوان اور بد امنی سے بچانے کے لیے عوام کے پاس کوئی دیوار ہے؟ جو انہیں پناہ دے یا سایہ۔ کیا مسائل کے حل کے لیے پورے ملک میں کوئی ایسا ادارہ یا دفتر ہے جہاں جا کر کوئی مظلوم سائل ''ماں جیسی ریاست‘‘سے ملاقات کر سکے۔ اگر نہیں تو پھر یہ سوال ہمارے سامنے مزید تر و تازہ ہو کر کھڑا ہے۔ آخر ہو گا کیا؟ اس نظام کے پاس بس یہی ہے۔
اُڑا رہے ہیں کاسہ لیس بے تُکی پہ بے تُکی
مچھندروں کے روپ میں قلندروں کے نام سے
لگا رہے ہیں معجزوں پہ معجزوں کی ڈھیریاں
لُوٹتے ہیں دولتوں پہ دولتیں عوام سے
خدا کے خوف سے انہیں کوئی بھی واسطہ نہیں
یہ لوگ بے نیاز ہیں خدا کے انتقام سے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں