کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے!

شاعرِ مشرق کی اُمتِ مرحوم اب باقاعدہ دفنائی جا رہی ہے۔ فلوجہ، بغداد، بوسنیا، کشمیر، کوسووو، سوڈان اورفلسطین کے قبرستانوں میں بے گوروکفن لاشے اور لاوارث خون۔
میں نے 80فیصد کالم علاقائی حوالے سے لکھا۔ پھر اُسے پرے رکھ دیا۔ عجیب بے بسی ہے۔ شدید احساس ِ جُرم کے ساتھ۔ کیا ہم سارے مل کر اتنا بھی نہیں کر سکتے جتنا اسرائیل کے شہری اس کے پہلے دارالحکومت تل ابیب کے اندر روزانہ کرتے ہیں ۔ اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج اور فلسطینیوں کا قتلِ عام بند کرنے کے نعرے۔ جنوری 1965ء میں فیض احمد فیض نے خونِ جگر سے غزہ جیسے ماتم کدے کے لیے یہ نوحہ لکھا: 
پکارتا رہا، بے آسرا، یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا، نہ دماغ
نہ مدّعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی فلسطین ایک نوحہ ہی ہے۔ ایسا نوحہ جس نے سرِ وادیِ سینا پکا ٹھکانہ بنا لیا ہے۔
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
اے دیدۂ بینا
پھر دل کو مصفّا کرو اس لَوح پہ شاید
ما بینِ من و تُو نیا پیماں کوئی اُترے
اب رسمِ ستم، حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے، کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے
میں نے غزہ پہ پہلے دن کے حملے کے بعد ٹوئٹر پر تبرّا کیا عالمِ اسلام کے اُن لیڈروں کے نام جنہوں نے ہاتھ میں ذاتی آمریت کے ہتھوڑے اور عالمی استعمار کی حمایت کے کیل پکڑ رکھے ہیں اور اپنی کرسیوں کو اور مضبوط کر رہے ہیں۔ بہت سال پہلے ''مشتاق گذور‘‘ کی فلم ''موت کا نشہ‘‘ کے لیے حبیب جالب نے عالمی استعمار ی نظام کے خلاف یہ گیت لکھا: 
صبح شام نسلِ نو کا قتلِ عام دیکھیے 
موت دے رہا ہے، موت کا نظام دیکھیے 
جل بجھی حیا کی شمع اک دھواں سا رہ گیا
یہ دھواں اور نہ جانے کتنے گھر جلائے گا
یہ پاک سرزمین اب بھی بنجر نہیں ہے۔کوہ مری کے شاعر محمد آصف مرزا نے غزہ کے قتلِ عام پر مجرمانہ غفلت کے تناظر میں ذاتی مفادات اور شکم پروری کے لیے عالمی ضمیر، انسانی حقوق اور اُمّہ کے نعرے لگانے والوں کے منہ پر یہ تازہ طمانچہ رسید کیا ہے۔
اے فلسطیں، میرے قبلہٗ اوّلیں
تیرا مجرم، میں تیرا گنہگار ہوں
ہر سزا، ہر ملامت کا حقدار ہوں
تیرے سینے پہ دہشت برستی رہی،اور میں چُپ رہا
زیست روتی، بلکتی،سسکتی رہی، اور میں چُپ رہا
تیرے بیٹے تیری آن پر کٹ گئے
جیب و داماں تھے خالی، مگر ڈٹ گئے
کیا دیا ان شہیدوں کو ہم نے صلہ
اور بھی ٹکڑیوں میں مگر بٹ گئے
تیری بہنوں کے، مائوں کے خالی شکم
میری پُر خوریوں کو نہ کر پائے کم
تیرے معصوم خوں میں نہائے گئے
تیری جانب نہ بڑھ پائے میرے قدم
شاخِ زیتوں پہ برپا تھا رقصِ شرر
امن کی فاختہ، خوں میں تھی تر بتر
پھول جلتے رہے گھر سلگتے رہے
اور میں چپ رہا مثلِ دیوار و در
میرے قلب و نظر کی زیاں کاریاں، یہ گراں باریاں
آخری انتہائوں کو چھوتی ہوئی، بے بسی، بے دلی
تیری بے حرمتی اور تیری بے ردائی کا باعث بنی
اپنی طویل نظم میں آصف مرزا نے فلسطین کے مظلوموں کے لیے عالمی لہجے میں بات کی:
دستِ بیداد گر، امتِ خستہ و نیم جاں کے گریبان تک آگیا
اب کوئی ایک خطّہ فلسطیں نہیں، اب تو ساری زمیں ہی فلسطین ہے
کلمہ گویان فخرِ دوعالم کا ہر گھر فلسطین ہے
میرا گھر، میرا آنگن، فلسطین ہے، میں فلسطین ہوں
اس وقت عالمِ اسلام کے اندر عمومی طور پر حکمرانوں اور حکمرانی کے خواہش مندوں کے درمیان یک نکاتی مقابلے کا کھیل جاری ہے اور اس یک نکاتی مقابلے کا نکتہ یہ ہے کہ ہم میں سے کون مغربی طاقتوں کی نظر میں اتنا معتبر ٹھہرے کہ اقتدار و اختیار اُسے مل جائے۔ جن کے پاس حکومتیں، بادشاہتیں اور سلطنتیں موجود ہیں وہ اللہ کی زمین پر خدا کے بندوں سمیت ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے ایسے کسی گروہ یا گروپ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ حریت پسندی اور جرأت مندی کے ساتھ مقابلہ کرے۔ دوسری جانب مسلم ملکوں کے عوام ہیں۔ ان کو سماجی، معاشی، سیاسی اور انتظامی شکنجوں میں اس طریقے سے کس دیا گیا ہے کہ اب ایک شکنجے میں ان کا ٹخنے تک پائوں ہے اور دوسرے میں ہاتھوں کی انگلیاں۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کے بچے کھچے اور گرے پڑے ٹکڑوں پر پلنے والی مخلوق تماشائی تو ہو سکتی ہے مزاحمتی نہیں۔ آج کل سانحہ فلسطین پر بالکل یہی ہو رہا ہے۔
اسے اس صدی کا تاریخی المیہ کہہ لیں کہ عالمی سطح پر اداروں، حکومتوں اور عوام کا ضمیر ایک دوسرے کے مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔ ادارے صحیح معنوں میں یتیم قسم کے غلام کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عرب نیشنل ازم کے نعرے مارنے والی عرب لیگ آج کہاں ہے۔ امتِ اسلامیہ کے اتحاد کی دعویدار او آئی سی سربراہی اجلاس کیوں نہیں بلاتی۔ جزیرۂ عرب کی سب سے منظم بین الریاستی یونین جی سی سی کا منہ کیوں بند ہے۔
رابطہ عالمِ اسلامی افطار پارٹیوں سے باہر کیوں نہیں نکل رہی۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے تو تابعداری کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے سامنے غزہ کے پھول جیسے بچوں، عفت مأب بیٹیوں ، شفیق بزرگوں اور نہتے نوجوانوں کے قتلِ عام پر بان کی مون ایک لفظ تک نہ کہہ سکا۔ اس کے برعکس لندن سمیت مغربی ملکوں کی سڑکیں احتجاجی بینروں، نعروں اور مارچ کرنے والوں سے بھر گئیں۔ گورے مرد اور عورتیں فلسطین کو آزاد کرو اور قتلِ عام بند کرو، نیتن یاہو کے جنگی جرائم ختم کرو جیسے مطالبے کر کے عالمی سطح پر ضمیر کی بیداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ حیف صد حیف بات بات پر عزت، غیرت اور حمیت کی صدا بلند کرنے والے مسلمان ملک قبلہ اول کے کنجی برداروں کی اولاد پر وحشت کے ناچ، دہشت کے راج اور بربریت کی قیامت خیز گھڑی میں تماشائی بن گئے ہیں۔ ہم کس قدر جرأت مند تماشائی ہیں جو اپنے ہی خون کے بہتے دریا کا تماشا دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ شورش کاشمیری نے تماشائی کے اس کردار کی یوں تشریح کی تھی: 
سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں
جس نے لختِ دلِ حیدر کو تڑپتا دیکھا
اُمِ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے
شام میں زینب و صغریٰ کا تماشا دیکھا
اے میری قوم !تیرے حسنِ کمالات کی خیر
تُو نے جو کچھ بھی دکھایا، وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے؟یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں