یومِ آزادی کا پرچم مجھے پکڑا دو

کامیاب نویسوں کی تحریروں میں چھپنے والے اکثر خط دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک فرمائشی دوسرے نمائشی خط ۔ تیسری قسم کا خط یہ ہے۔
محترم جناب خادم صاحب اور اُس سے بھی بڑے خادم صاحب !
میںگجرات کے گائوں گِگیاں میں پیدا ہوا۔ میری عمردس سال ، نام تبسّم ہے ۔ تبسّم کا مطلب آپ جانتے ہی ہوں گے۔ مسکراہٹ کو تبسّم کہتے ہیں۔ آپ بچوں والے ہیں۔یہ بھی جانتے ہوں گے ،دس سال کے بچے کے لیے شباب تک پہنچنے پر خاندان اور اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے دونوں ہاتھ کس قدر ضروری ہیں۔یہ بات درست ہے میرا گجرات اور ہے جبکہ نریندرمودی کا گجرات دوسرا۔ وہاں مسلمانوں کے قتلِ عام کی اجازت ہے ۔ مودی اُسے روٹین کی سیاست کہتا ہے۔میرے دادا، پر دادا کا گھر سکھ سلطنت کی اصل راج دھانی وزیر آباد اورگوجرانوالہ کے درمیان ہے۔ جب 1947ء میں خالی گھروں اور بے آسرا زمینوں میں گھس کر امیر ہونے کا شاندار موقع تھا،میرے دادا اور اس سے بھی بڑے دادا نے اپنے کچے گھروندے کو جنت سمجھ کر ترجیح دی ۔حالانکہ ان کے سکھ دوستوں نے لاکھ سمجھایا کہ آج کل واہگہ پار ''موجاں ہی موجاں‘‘ہیں۔لیکن میرے بزرگ نہ مانے ۔پھر سرکاری محکمے والے آ گئے ۔جن کے ہاتھ میں خالی چٹیں تھیں۔اس سستے زمانے میں چٹ دو ،تین سو روپے میں مل جاتی تھی۔جن پر کلیم داخل کر کے ہندو ساہوکاروں اور سکھ ذیلداروں کی زمینیں اور حویلیاں مفت میں ہاتھ آ رہی تھیں ۔جیسے چوراں دے کپڑ ے، ڈانگاں دے گز(چور کپڑا بیچتے وقت لمبی لاٹھی کو گز کی جگہ استعمال کرتا ہے ) مگر میرے دادا نے تو اس سے بھی بڑے دادا کی لاٹھی پر بابا قائداعظم والی مسلم لیگ کا سبز جھنڈا لگا رکھا تھا ۔وہ جھنڈا جو دادا کے کہنے پر میرے والد نے 1947ء میں تھاما۔ہم لوگ پہلے کامے تھے اور اب بھی مزارعے ہیں ۔اس کے باوجود بابا قائداعظم والے پاکستان سے میرے گھر کی محبت چوتھی نسل تک ٹرانسفر ہو چکی ہے ۔
محترم محب الوطن صاحب اور اس سے بھی بڑے محب الوطن صاحب!
میں آپ کی حب الوطنی اور عوام دوستی کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں ۔اگرچہ مجھے تلاش کے باوجود سلام والا فرض ادا کرنے کے لیے ہاتھ نہیں مل رہے۔پتہ نہیں کیوں کندھا ہلانے پر ہاتھ کی جگہ خالی خالی لگتی ہے۔میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا ایسا کیوں ہے ؟ ڈاکٹر جواب میں کہتے ہیں ،سو جائو۔بھلا یومِ آزادی کا نام آئے تو کوئی کیسے سو سکتا ہے۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا آپ نے ایک دن والے یومِ پاکستان کو یکم اگست سے اُٹھا کر 31 اگست تک پھیلا دیا ۔ اس تاریخی کارنامے پر یقیناََبابا لیاقت علی اور اس سے بھی بڑے بابا کی روحیں جنت میں بہت خوش ہوں گی ، میرے داداکی روح بھی خوش ہو گی ۔ اُس نے سوچا ہو گا بابا قائداعظم کا جو سبز پرچم میرے دادا نے میرے اباّ کو امانت بنا کر پکڑایا تھا میں وہ پرچم دونوں ہاتھوں سے تھام کر آزاد... ایٹمی... اسلامی... جمہوریہ کی سڑکوں پر زور زور سے لہرائوں گا ۔
جناب جمہوریت پسند صاحب اور اس سے بھی بڑے جمہور یت پسند صاحب !
آپ نے انتہائی قابل، باتدبیر اور جمہوریت دوست وزیروں کی ڈیوٹی لگا ئی کہ وہ اس اگست میںآزادی کا ایک دن نہیں بلکہ 31روزہ جشن منائیں ۔آپ یقین کریں میرے پورے جسم میں جوش کی لہر دوڑ گئی ۔مگر میں عجیب تجربے سے گزر رہا ہوں ۔پہلے جوش آتا تو میں ہاتھ اوپر بلند کر کے پاکستان کے نعرے لگا تا تھا ۔ میں اب بھی ویسا ہی کرنا چاہتا ہوں لیکن کوشش کے باوجود مجھے میرے ہاتھ نظر نہیں آ رہے۔
مجھے پتہ چلا ہے اس سال یومِ آزادی پر کئی رنگوں کے پرچم اکٹھے ہوں گے ۔نہ جانے کیوں مجھے سارے جھنڈے سُرخ اور خون آلود دکھائی دے رہے ہیں ۔ 
جناب مخدوم صاحب اور اُس سے بھی بڑے مخدوم صاحب!
آج میرا ایک کلاس فیلو آیا۔ سخت گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے غنچہ؟ غنچہ کہنے لگا تمھارے دونوں ہاتھ ... اتنے میں بہت سارے انکل اندر آگئے۔ نہ غنچہ پوری بات بول سکا ،نہ مجھے سننے کا موقعہ ملا۔ جو انکل اندر آئے اُن کے ساتھ بڑی بڑی مونچھوں والے بندے تھے۔ جن کے ہاتھ میں مونچھوں سے بھی بڑی بندوقیں تھیں۔ سب نے باری باری میرے ساتھ اس طرح فوٹو بنوائی جس طرح انگلینڈ سے آیا ہوا چاچا ٹونی جب خرگوش مارتا ہے تو بندوق سمیت اس کے پاس کھڑا ہو کر فوٹو ضرور بنواتا ہے۔ یہ انکل مجھے کہہ رہے تھے تم بالکل ٹھیک ہو۔ تمہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر انہوں نے عجیب بات کہی۔ فکر مت کرو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ لوگوں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ سب مجھے لِٹا کر میرے اردگرد کھڑے ہو کر اونچا اونچا بولتے ہیں۔پھر جونہی کیمرے سے سفید رنگ کا شعلہ نکلتا ہے وہ میری طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھتے اور چلے جاتے ہیں۔ گِگیاں میں ایسا نہیں ہوتا۔
جناب انقلابی انکل صاحب اور اس سے بھی بڑے انقلابی انکل صاحب!
میری اماں پہلے بہت خوش رہتی تھی۔ بھینس نہلاتے، جھاڑو پھیرتے اور کھانا پکاتے وقت ہمیشہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے گاتی تھی۔ لیکن 21جولائی کے بعد اس کی شوخ آواز کہیں گُم ہو گئی۔ اب وہ رو رو کر ہر وقت یہ گیت گاتی ہے:۔
چھلنی ہیں کلیوں کے سینے خون میں لت پت پات
اور نہ جانے کب تک ہوگی اشکوں کی برسات
دنیا والو کب بیتیں گے دکھ کے یہ دن رات
خون سے ہولی کھیل رہے ہیںدھرتی کے بلوان
بگیا لہو لہان 
انکل آپ تو جانتے ہیں انسان کی زندگی کیسے بدل جاتی ہے۔ آپ پلیز مجھے بتا ئیں کہ میری اماں کے آنسو کیوں نہیں رُک رہے۔ میرا ابا سخت ڈرا ہوا ہے۔ کہتا ہے میں غریب آدمی ہوں۔ پیسے دے کر رپورٹ لکھوانے والے کو پیسے دیئے بغیر انصاف کون دے گا۔ پولیس والے غصّے والا منہ بنا کر میرے ماں باپ سے یوں نفرت سے بات کرتے ہیں جیسے میرے ابا نے کسی دس سالہ معصوم بچے کا دایاں ہاتھ اور میری اماں نے اُس بچے کا بایاں ہاتھ پیٹر مشین میں ڈال کر کاٹ دیا ہو۔ انکل آپ کو آپ کے بچوں کا واسطہ آپ مجھے بتائیں میرے اردگرد اور میرے چھوٹے سے گھر میں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔
جناب مولانا صاحب اور اس سے بھی بڑے مولانا صاحب!
آج کل جو بھی مجھے دیکھنے آتا ہے وہ ترس کھا کر مجھے دعا کیوں دیتا ہے ؟ مجھے کیا ہوا ہے؟ اس مہینے کی 21تاریخ سے پہلے تو ایسا نہیں تھا۔ پہلے مجھے جو بھی ملتا پوچھتا تھا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ اب لوگ مجھے ایسا کیوں نہیں کہتے ؟ مولانا صاحب میں چاہتا ہوں آپ مجھے وہ دعا دیں جو آپ نے اپنے بچے کو پڑھنے کے لیے امریکہ بھیجتے وقت دی تھی۔ میں امریکہ نہیں جانا چاہتا۔ سُنا ہے وہاں وحشی رہتے ہیں۔ جہاں سات ماہ کے بچے پر اقدامِ قتل کی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ تین سال کی بچی کو ایک درجن درندے نوچ کر کھا جاتے ہیں۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہاں ایک بڑے زمیندار کے بڑے بیٹے نے چھوٹے سے بچے کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے مگر نہ وہ جیل جائے گا نہ اُسے سزا ہو گی۔
جناب وزیر صاحب اور اُس سے بھی بڑے وزیرِ اعظم صاحب!
اگر میں بیمار ہوں توکیا آپ میرا علاج ملک سے باہر نہیں کرا سکتے ؟ وہاں جہاں آپ کے بچوں کے علاج ہوتے ہیں۔ میں نے سُنا تھا کہ پاکستان کے سارے بچے آپ کے بچے ہیں۔ ملالہ کو تو ایک گولی لگی تھی۔ میرا دوست غنچہ کہتا ہے میرے دونوں ہاتھ... آپ مجھے یکم اگست سے پہلے ملک سے باہر لے جائیں۔ میں 14اگست کے دن آپ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔
انکل وزیرِ اعظم، آپ تھک جائو گے میں تو لڑکا بالا ہوں۔
یومِ آزادی کا پرچم مجھے پکڑا دو۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں