مجھے سراندیپ سے پیار ہے۔ برطانوی استعمارکی بادشاہی میں اسے سیلون پکارا گیا۔ رامائن سمیت ہندو مذہبی کتابوں میں یہ لنکا کہلایا ۔ آج کل اس کا نام سری لنکا ہے۔
مستند روایات کے مطابق سیدنا آدم ؑنے بہشت کے باغِ عدن سے کرہ ارض کے سفرکی منزل سراندیپ میں طے کی ۔ آج بھی سراندیپ کے پہاڑوں میں peak Adam (حضرت آدم کی چوٹی) موجود ہے جہاں ایک پتھر پر سیدنا آدمؑ کے قدم مبارک کے نشان کی زیارت ابن آدم کو ساری دنیا سے کھینچ لا تی ہے۔ سراندیپ کے پہاڑوں میں دنیا کی بہترین خوشبو ' عُود ‘ والے پُرانے درختوں کا جنگل ہے۔ سیدنا آدم ؑباغِ بہشت سے جنت کے درختوں کے پتوں کا لباس پہن کر peak Adam پرتشریف فرما ہوئے۔ روایت کے مطابق مدہوش کر دینے والی ان سحر انگیز خوشبوئوں سے بھر پوراربوںکھربوں کی تعداد میں قدیم درخت ان پتوں کے پولن سے پیدا ہوئے۔
سراندیپ اور پاکستان کی خوشیاں ہی نہیں غم بھی ایک جیسے ہیں۔ ہماری طرح سری لنکا کی سب سے بڑی خوش قسمتی اس کی جغرافیائی لوکیشن ہے جبکہ اس سے کہیں بڑی بد بختی یہ ہے کہ وہ جنوب مغرب ایشیا کے سب سے بڑے جنگ باز ملک بھارت کا پڑوسی ہے۔ بھارت نے حیدر آباد ، دکن، سِکم ، بھوٹان ، چین ، پاکستان ، نیپال ، بنگلہ دیش، گورکھا سکھ ، بُدھ راجے مہاراجوں کی خود مختار ریاستوں پرکئی باردھاوا بولا۔ سری لنکا نے بھارت کا پڑوسی ہونے کی سب سے زیادہ سزا بھگتی۔ تامل ٹا ئیگرز کے ساتھ تیس سال کی خونخوار جنگ لڑنے کے بعد آخرکار فتح سری لنکا کے بر سر اقتدار صدر راجا پاکسے کے مقدرمیں آئی۔ جس دن تامل ایلام کے سربراہ اور سری لنکا کے صدر، وزیراعظم ، جرنیلوں اور عوام کے قاتل'' پربھارکر‘‘ کی اپنی باری آئی تو مرتے وقت وہ وحشت اور حسرت کی علامت بن گیا۔ 2004-5ء میں تامل جنگ کے دوران مغربی دنیا نے سری لنکا کی خوب مخالفت کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ملکوں کو سری لنکا میں پر بھارکرکی موت کا شدید صدمہ تھا۔ تباہ کن موت بانٹنے والے ہتھیاروں کے تاجر ملکوں کو اصل دکھ اس بات کا تھا کہ سری لنکا میں ''War theater‘‘ یعنی جنگ کی نوٹنکی ختم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی ان ملکوں کے اسلحے کا ایک بڑاگاہک پر بھارکر بھی مارا گیا۔ پر بھارکر کے مرنے پر ہندوستانی سرکاربھی ماتمی لباس میں گُھس گئی۔
اگر ہم پاکستان میں دلچسپی لینے والے مہربان ملکوں کی فہرست بنائیں تو ان کا طرزِ عمل سری لنکن ماڈلز سے ملتا جلتا ہے۔ ہمارے اکثر مہربانوں کی خواہش اورپلان یہی ہے کہ جنگ کا تھیٹر یہاں سے باہر نہ نکلے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ بین الاقوامی حدودکو نہیں مانتی۔ جنگ کے سامنے یو این او کا چارٹر، ویانا کنونشن، انسانی حقوق ، اکرامِ آدمیت وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ بچوں ، خواتین اور بزرگ شہریوں کوایک طرح نشانہ بنایاجاتا ہے۔ وہ طاقتیں جو سری لنکا میں تیس سالہ جنگ کے خاتمے پر اُداس، بیزار اور غمزدہ ہیں وہ ایشیا کے دوسرے ملکوں میں جنگ کا خاتمہ کیوں چاہیں گی۔ خاص طور پر دنیا کے چند ایٹمی ملکوں میں سے ایک، اسلامک بلاک کی پہلی اور آخری ایٹمی طاقت پاکستان میں۔
تامل جنگ میں فتح کے بعد سری لنکا نے اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے بے شمار نئے قوانین، ضابطے اور روڈ میپ بنائے جن میں دو تازہ ترین ہیں۔۔۔۔۔دونوں کی پاکستان میں سری لنکا سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان دو وجوہ کے بطن سے ہی پاکستان جنگ تھیٹر کا مسلسل شکار ہوتا آرہا ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کا حلف اُٹھا رکھا ہے۔کولمبو انتظامیہ کے تازہ ترین فیصلے کا اعلان سری لنکن امیگریشن کنٹرولر چُلا نندہ پریرا نے کیاہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سری لنکا میں مقیم افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جائے گا ۔کولمبو انتظامیہ کے فیصلے اور اسلام آباد کے ریڈزون کے فیصلے میں بنیادی فرق سمجھنے کے لیے صرف ایک بات سُن لیں ۔۔۔۔۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی پانچ افغان مہاجرین کے پہلے گروپ کو افغانستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین UNHCR نے حکومتی پلان سے بے تعلقی اور بے دلی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
اسلام آباد کے ریڈایریا کی پالیسی یہ ہے کہ افغان مہاجرین کبھی واپس نہ جائیں اسی لئے چند سال پہلے جن افغان مہاجرین کو نقد ڈالر دے کر لگژری بسوں اور جدید ٹرکوں کے ذریعے طورخم پہنچایا گیا‘ وہ اگلی شام واپس لاہور، فیصل آباد، پشاور اور اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ افغانوں کی غیرقانونی بستیاں، انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق غیر قانونی متوازی ریاست کے جزیرے ہیں۔ ان مہاجرین کی وجہ سے UNHCRاور مہاجروں کے ڈالروں سے امیر کبیر بننے والی بیگمات کی این جی اوز مسلسل پل رہی ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا مفاد جائے کھڈے میں اور ہمارا امن و امان یا شہریوں کا سکون جائے بھاڑمیں، ہمیں توسرکاری کشکول ڈالروں سے بھرنا ہے،یہ ڈالر قرض کے ہوں یا ان بستیوں جیسے مرض کے ، ان کی آمد جاری رہنی چاہیے۔ بھیک میں ملنے والے ڈالروں کا مزہ کوئی ان سے پوچھے جن ڈالروں پران کے گھر چلتے ہیں ان کے چولہے جلتے ہیں اور غیر ملکوں میں ان کے بچے پلتے ہیں، قوم کی بات دوسری ہے۔ اسی لیے ایک قوم پرست یوں کہتا ہے :
پاکستان کی غیرت کے رکھوالو
بھیک نہ مانگو
توڑ کے اِس کشکول کو آدھی کھا لو
بھیک نہ مانگو
جمہوری نظام پر قربان جائیے جب اس کی پٹاری میں خبربنانے کے لیے کچھ نہ بچے تو سرکار کے درباری کمال کرتے ہیں، جیسے اکمل ترین کمال پچھلے ہفتے ہوا۔
پہلے آپ تھوڑا ہنس لیں تاکہ میں آپ کو کمال بتائوں۔ ایٹمی پاکستان پر افغانستان کا خوفناک حملہ اچکزئی صاحب نے رکوایا۔ اگر ایسا ہی ہے تو وہ کر زئی کو کہیں 32 لاکھ مہاجر تو واپس لے جائو، انہیں کاروبار کرائو، نوکریاں دو، رہائش دو، روٹی دو اور کم از کم پاکستان جتنا تحفظ بھی دے دو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مہاجروں کو کسی باڑے میں بھی بند کیا گیا تو وہ جنگلہ توڑکر پھر بھاگ آئیں گے کیونکہ اس پاک سر زمین جتنی آزاد سر زمین عراق سے ایران تک اور شام سے عربستان تک دوسری کوئی نہیں۔
سری لنکا میں ایسے افغان مہاجر بھی موجود ہیں جن کے پاس پاکستان کے پاسپورٹ، ویزا اور شناختی کارڈ ہیں۔ نئے محسنِ پاکستان صاحب اپنے گورنر بھائی کا طیارہ لے کر فوراً کولمبو پہنچیںاور یہ مہاجرکابل کے ریڈزون کے حکمران اور ہمارے کئی دانشوروں کے ''ہانڈی وال‘‘ کر زئی تک پہنچا دیں۔ آخر پورے خاندان کو اقتدار میں بھرتی کروانے کاا تنا سا حق تو ادا کرنا چاہیے۔ سری لنکا نے پچھلے ہفتے دوسرا بڑا فیصلہ یہ کیا کہ امریکی، یورپی اور مغربی ممالک کی این جی اوز کو مقامی قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ یہ غیر سرکاری تنظیمیں راجہ پاکسے کی حکومت کے لیے سب سے بڑی اپوزیشن ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، ان این جی اوز کو فاکس نیوز‘ سکائی نیوز‘ بی بی سی‘ سی این این سمیت مغرب کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مظلوم بنا کر پیش کرتا ہے اور ان این جی اوز کا سری لنکا میں رویہ ایسا ہے جیسے سری لنکاکی عوام نے راجہ پاکسے کو ووٹ نہیں بلکہ ان این جی اوز کو دیا تھاجس کا مینڈیٹ راجہ پاکسے نے اپنی ووٹوں کے ڈبے میں ڈال لیا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے بنیادی تصور یعنی Conflict of global lawکے مطابق ہرخود مختار ریاست اور حکومت اپنی تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر مقامی ضرورت کے مطابق قانون بنانے کے لیے آزاد ہے۔ مغربی حکومتوں کی وہ دانش جو غزہ پر اسرائیل کے حملے کو صہیونی ریاست کا حقِ دفاع کہتی ہے، وہی دانش سراندیپ کو جنگ کے بغیر جینے کا حق دینے کو تیار نہیں ۔
بہت دنوں سے ہے دستور سامراجی یہ
کہ دیش دیش کے کھیتوں میں قحط بو جائیں