میں نے کسی کو اطلاع نہیں دی تھی‘ اس کے باوجود میرے چھوٹے بھائی فاروق اعوان ایڈووکیٹ، برادرم خورشید ندیم، موتی مسجد ڈی اے وی کالج روڈ راولپنڈی کے امام حافظ نسیم خلیل، انجمن شہریانِ اسلام آباد کے سیکرٹری خالد قریشی، بیرسٹر عمر آزاد، اے جے خان اور دوستوں کی ایک بھیڑ نے راول لائونج گھیرے میں لے رکھا تھا۔ لیکن جونہی میں جہاز کی بزنس کلاس میں داخل ہوا تو نادر کاکوروی یاد آ گئے۔ جنہوں نے دل کی ویرانی کے بارے میں بہت دل نشیں شعر کہہ رکھے ہیں۔ مثلاً:۔
ٹُوٹے کواڑ اور کھڑکیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشاں
دروازے ہیں چلمن نہیں
یہ حال ہے، آنگن نہیں
وہ خانہء خالی ہے دل
اک شمع تک روشن نہیں
امارات ایئر لائن، ایئر مالٹا، بنگلہ دیش کا فلیگ کیریئر بیمان اور درجن بھر دوسری معروف ایئر لائنز کو جنم دینے والی اس انٹرنیشنل ایئر لائن کی بزنس کلاس میں میرے سمیت صرف چار مسافر بیٹھے تھے۔ جن میں سے ایک بیرسٹر فرخ قریشی اور دوسری‘ دوہری شہریت رکھنے والی ایسی ماں جو اپنے چھوٹے بچے کو لوری اور تھپکی کی بجائے تھپڑوں کی بارش سے چُپ کرانے اور سو جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ بزنس کلاس کی سب سے دائیں طرف اگلی سیٹ جس پر میں بیٹھا تھا وہ سٹیٹ آف دی آرٹ ہوائی جہاز بوئنگ 777-ER 300کی سیٹ تھی لیکن اس کے ''آرم ریسٹ‘‘ کے پیچ ڈھیلے تھے۔ ایک خاتون فضائی میزبان سے فروٹ مانگا گیا تو اُس نے پیشہ ورانہ دیانت داری سے کہا ''میں لے آتی ہوں لیکن کھانے کے قابل نہیں ہے‘‘ آپ سوچتے ہوں گے کہ میں سفر گزشت لکھنے کی بجائے ایئر لائن کا رونا لے کر بیٹھ گیا۔ اپنے قومی وسائل کے لیے دل میں درد رکھنے والے پاکستانی شہری کی حیثیت سے میں اُس بے درد اور بے رحم ذہنیت کی تصویر کشی کر رہا ہوں جس کا اظہار پنجاب کے دیہاتی نوجوان نے کیا تھا جس کی کہانی آپ بھی کئی مرتبہ سُن چکے ہوں گے۔ نہیں سُنی تو اب سُن لیجیے۔ نوجوان نے نئی چپّل خریدی اور اُسے صاف کرنے کے لیے لاچہ نکالا اور چپل چمکانا شروع کر دی۔ کسی نے پوچھا چپل کتنے میں خریدی۔ کہنے لگا محنت کی کمائی کے تیس روپے سے۔ پھر سوال ہوا جس لاچے سے اسے صاف کر رہے ہو وہ کتنے کا ہے؟ نوجوان بولا ابا کے زمانے کا صرف تین سو روپے کا۔ یہاںپھرایک پرانا سوال مجھے پریشان کر رہا ہے کہ بعض ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کو چھوڑ کر، دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی ایسا حکمران ہے جس کے اپنے ڈالر، پائونڈ سٹرلنگ اور یورو سات سمندر پار اجنبی ملکوں کے بینکوں میں پڑے ہوں۔ اس کا جواب اتنا ہی دل دکھانے والا ہے جتنا کسی قومی ادارے کی بربادی۔ اور وہ جواب یہ ہے کہ پاکستان کے پاس جمہوریت کا یہ بھی عالمی ریکارڈ موجود ہے۔
میں برطانیہ کے قدیم صنعتی شہر مانچسٹر پہلی دفعہ آیا ہوں۔ جہاں برمنگھم، لیڈز اور مانچسٹر کے پاکستانی نژاد وکلاء اور اے کلاس بزنس مین پاکستانیوں سے بڑی محفلوں میں گفتگو اور ملاقاتوں کا دن سے رات تک کا سلسلہ جاری ہے۔ جن میں رانا ستّار ایڈووکیٹ، انیل مسرت چوہدری، برطانیہ کے سب سے بڑے نجی ٹی وی کے مالک ڈاکٹر لیاقت ملک، ڈاکٹر یونس پرواز، نبیل چوہدری اور سولیسٹر عامر ملک شامل ہیں۔
یہاں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ سردیوں میں سیاچن گلیشیئر جیسی برف باری اور خون جما دینے والی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ شہر کے سارے وسائل سٹی کونسل یعنی میونسپل کمیٹی کے پاس ہیں۔ وہی منصوبے بناتی ہے وہی فنڈز خرچ کرتی ہے۔ ٹیکس جمع کرنا انہی کی ذمہ داری ہے۔ کل شام شدید بارش میں سٹی سینٹر کے سب سے بڑے ٹرام سٹیشن اور بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر عجیب منظر دیکھا۔ درمیان میں تقریباً 30فٹ چوڑا ٹرام سٹیشن ہے وہیں دونوں طرف ٹرام کے ساتھ ساتھ سٹی سینٹر آنے اور وہاں سے باہرجانے والی بسیں رکتی ہیں۔ سٹاپ کے دونوں طرف کی سڑک کے درمیان میں ٹرام چلنے کے لیے چھ چھ انچ لوہے کی پٹڑی بچھائی گئی ہے۔ جس پر ٹرام ہر تین منٹ کے بعد دونوں طرف سے آتی ہے۔ اس پروجیکٹ کا نام سٹی کونسل نے میٹرو لنک رکھا ہے۔ یہ ساری دنیا کے سیاحوں اور کئی ملین لوگوں کو سٹی کونسل لانے اور لیجانے والا سستا ترین منصوبہ ہے جس پر سینٹر جانے کا کرایہ پاکستان میں ایک عدد ٹماٹر کی قیمت سے بھی کم ہے۔ جبکہ سٹی سینٹر کے مضافات میں واپس آنے کا کرایہ پاکستان میں ایک عدد کیلے کی قیمت جتنا بھی نہیں ہے۔ اب ذرا آپ اپنے میٹرو بس کے جاہ و جلال اور اس شاہی سواری کا شاہانہ سلسلہ تو دیکھیں۔ یہ دنیا کی واحد بس ہے جس پر چڑھنے کے لیے آپ کو پہلے شاہی قلعہ لاہور، لال قلعہ دہلی یا اکبرِ اعظم کے بنائے ہوئے اٹک قلعہ کی دیوار پھلانگنی پڑتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سولہویں اور سترہویں صدی کے بے چارے غریب بادشاہوں کے پاس نہ تو جنگلا تھا نہ ہی سریا اور نہ ہی ان کی سیمنٹ فیکٹریاں۔ جبکہ ہمارے بے تاج بادشاہ نہ کسی میونسپل پلاننگ کے محتاج ہیں نہ ہی انہیں کوئی بلدیاتی معاونت چاہیے۔ یہ سیدھا سیدھا اکڑ بکّڑ کرتے ہیں اور فیصلہ ہوجاتا ہے کہ ہمارا اگلا میگا پروجیکٹ کیا ہو گا۔ ایسا کام تو الہ دین کا چراغ بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے اتنے میگا پروجیکٹس کی موجودگی میں پاکستان کی 60فیصد آبادی کی غربت کا چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ پاکستان کا جمہوری نظام آئین کے مطابق تین ٹانگوں والا ہے۔ جس میں وفاقی ڈھانچہ، صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے شامل ہیں۔ سٹی کونسل بلدیاتی ادارے کا انگریزی نام ہے۔ وہ جمہوریت پسند جو کہتے ہیں ہم اسے ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے وہ پہلے اس نظام کو تیسری ٹانگ تو بنا کر دیں۔
ایک ہی سبق جو ہم یاد نہیں کرنا چاہتے اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ کہ ریاست اداروں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ایسے ادارے جو مظلوم کو ظالم سے، محکوم کو حاکم سے اور مجبور کو جابر کی دست درازیوں سے بچا سکیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف کا ترازو صرف عدالتوں میں سیدھا دکھانا ضروری نہیںہے۔ مواقع کا انصاف اور معاشی انصاف نہ ہو تو میرٹ، صلاحیت، اہلیت اور غریب عوام کا قتلِ عام ہو جاتا ہے۔ ادارے صرف ظلم، زیادتی اور بے انصافی کا نوٹس لینے کے لیے نہیں ہوتے۔ ان اداروں کو ان نا ہمواریوں کے خاتمے کی تنخواہ ملتی ہے۔ جب تک ریاستی اداروں کو عوام کا نوکر نہیں بنایا جائے گا عوام کو ایسے نظام سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ دوسرا سبق یہ کہ عوام کی ضرورتوں اور ریلیف کے لیے عوامی سطح پر عوامی سوچ کے مطابق مقامی طور پر فیصلہ سازی ہونی چاہیے۔ پاکستان کا نظام اوپر سے معذور اور تیسری ٹانگ سے لنگڑا ہے۔ جس طرح اوپر والے بلدیاتی ادارے نہیں چلنے دیتے اسی طرح نیچے والے قومی ادارے نہیں چلنے دیتے۔ ادارہ کوئی بھی ہو جب تک انہیں ناکام نہ بنایا جائے ان کی لوٹ سیل کا کوئی جواز نہیں بن سکتا۔