کیا عجب تماشہ ہے ! جو لوگ سیاست میں کنٹینرزکے استعمال کو ڈرائیونگ کے دوران بھنگ کے استعمال جیسا سمجھتے تھے، آج کنٹینر ڈرائیور،کنڈکٹر اور مالکان اُن کے لیے مہمانِ خصوصی بن گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستانی برانڈ جمہوریت کو عوام سے بچانے کے لیے صرف ایک ہی طاقت باقی رہ گئی ہے اور وہ طاقت ہے ہانگ کانگ، بنکاک اور مغربی ملکوں کا بنایا ہوا لوہے کا کنٹینر !
کنٹینر کے اور بھی کئی فائدہ مند استعمال ہیں۔ جب سے زرعی ملک پاکستان کی زمینوں میں لینڈ مافیا اور پلاٹ مافیا نے پنجے گاڑے ہیں ، تب سے کنٹینر قبضہ گروپ کا پہلا ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ جس خالی زمین، غیر تعمیر شدہ پلاٹ، پرانے قبرستان یا اقلیتی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنا مقصود ہو وہاں سب سے پہلے کنٹینر رکھا جاتا ہے۔ حکومت پر اور اقتدارکے ایوانوں میں قبضہ کرنے والوں اور قبضہ چھڑانے والوں کے درمیان پہلی دیوار لوہے کے کنٹینروں سے بنائی جا رہی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں سب کو معلوم ہو جائے گا کہ کنٹینر کی طاقت کیا ہے۔ لیکن یہ راز سب سے پہلے ہماری کنٹینر ڈیموکریسی یا عوامی زبان میں ''ڈبہ جمہوریت‘‘ کو پتا چلا کہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے طاقت کا سرچشمہ کنٹینر ہے، غریب عوام نہیں۔
یادش بخیر ! جن دنوں ڈبہ جمہوریت ایک سیاسی منصف کو بے انصافی کا لائسنس دلوانے کے لیے مرغ پلائو اور برگر کے زور پر چلنے والا عظیم الشان کاروان لاہور سے اسلام آباد لا رہی تھی ، تب تک وہی کنٹینر اُن کا ولن تھا، جن کا آج کل ہیرو ہے۔ اس ولن سے ٹکرانے کے لیے فورک لفٹر سیاسی جج کی بحالی کے مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں ، یہ وہی سیاسی جج ہے جس کی محنت کے نتیجے میں پنجروں کوکنٹینرز جیسی عالمی شہرت ملی اور اسی کی کاریگری کی وجہ سے پانچ سالہ جمہوریت پہلے سال میں ہی لوہے کے کنٹینروں کے پیچھے چھپنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ کنٹینر سیاسی سوچ سے فارغ ہوتے ہیں۔
سیاسی سوچ کا ذکر آیا تو یہ حقیقت بھی سامنے رکھنا پڑے گی کہ کنٹینر صرف لوہے کے نہیں ہوتے۔ آپ کو اقتدار کی گلیوں میں ایسے کنٹینر بھی مل سکتے ہیں جو سیاسی سوچ سے عاری ہونے کے باوجود بھی ٹی وی پر چِلّاتے اور بازو لہراتے نظر آتے ہیں۔ ایسے کنٹینروں کے خیال میں جمہوریت صرف وہی ہوتی ہے جس میں وہی جلوس نکال سکیں۔ جلسہ اور لانگ مارچ اُن کا پیدائشی حق ہو اور اُن کے شور شرابے کو عوام کنٹینر جمہوریت کا روڈ میپ جان کر اُن کی تابع فرمانی کریں۔ اور یہ والے کنٹینر صرف بڑے کنٹینر کی تابع فرمانی کا حق ادا کریں، جیسے صاحباں نے مِرزے کی تابع فرمانی کا حق یوں ادا کیا تھا:
ہٹی سَڑے کراڑ دی
جتھے دیوا نِت بلے
کُتی مرے فقیر دی
جہڑی چُوں چُوں نِت کرے
پنج سَت مرن سہیلیاں
رہندیاں نُوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں
وچ مرزا یار پھرے
ڈبہ برانڈ جمہوریت کے لیے کنٹینر عالمی اثاثہ بھی ہیں۔ مثال کے طور پرڈیوڈکیمرون نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے غزہ پر اسرئیلی حملے کے بارے میں اپنی کابینہ کواختیارات کے کنٹینر سے چُپ کروایا۔ برٹش پرائم منسٹر نے کیوں نہ سوچا اسلام آبادی کنٹینروں والی سکیم کے ذریعے اپنی پارٹی کو قابو میں رکھیں۔ اس گوری کنٹینر سوچ کے دو نتائج فوری نکل آئے۔ پہلا نتیجہ پوٹھوہار کی بے خوف بیٹی سعیدہ وارثی کا استعفیٰ تھا، یہ ایک تاریخی اور غیر معمولی واقعہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان کے متوسط گھرانے کی خاتون کا تاج برطانیہ کے گھر میں وزیرکی حیثیت سے داخل ہونا انہونی تھی۔ یہ وہی تاجِ برطانیہ ہے جس کے کُتوں، گھوڑوں اور چوکیداروں کی تابع فرمانی کر کے بہت سے لوگ مخبر سے جاگیردارکے عہدے تک پہنچے۔ پھر سعیدہ وارثی نے اپنے استعفے کو کسی ابہام کا شکار نہیں ہونے دیا اور استعفے کے ساتھ کھل کر کہہ دیا کہ ڈیوڈ کیمرون نے غزہ کے قتلِ عام پر جو پالیسی اپنائی ہے وہ بحیثیتِ وزیر اُس کو ناقابلِ دفاع سمجھتی ہیں۔ وزارت سے استعفیٰ دینا اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا جدوجہد کے آغاز سے وزارت تک پہنچنے کا سفر۔ میں نے خود وفاقی وزیرکی حیثیت سے استعفیٰ دیا تھا اس لیے ذاتی تجربے کی بنیاد پرکھل کرکہہ سکتا ہوں کہ سعیدہ وارثی کا کلیجہ کتنا بڑا اور دل کتنا مضبوط ہے۔
ڈیوڈ کیمرون کو کنٹینر ڈیموکریسی کا ایک اور نتیجہ بھی بھگتنا پڑا۔ وہ یہ کہ لندن کی تاریخ کے سب سے مقبول میئر جانسن بورس نے اگلے سال کے برطانوی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ لارڈ میئر آف لندن کا فیصلہ یورپ میں سعیدہ وارثی کے استعفیٰ کے بعد دوسری بڑی بریکنگ نیوز بن گئی۔ بورس جانسن کا تعلق ڈیوڈ کیمرون کی اپنی سیاسی جماعت ٹوری پارٹی سے ہے۔ یوں کیمرون کے مقابلے میں ایک انتہائی مقبول لیڈر وزیرِ اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے آ گیا۔
اسرائیل کی نازی جمہوریت نے بھی کنٹینر پالیسی اپنا رکھی ہے۔ پہلے عالمِ اسلام کے قبلۂ اول ، القدس الشریف کو کنٹینروں کی دیواروں سے تقسیم کیا گیا، پھر سریے، جنگلے، کنکریٹ کے کنٹینروں سے دیوارِ برلن تعمیر کی گئی۔ اس دیوارِ برلن کا واحد مقصد فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ختم کرنا تھا۔ جب آزادی کے متوالوںنے یہ دیوار بھی پھلانگ ڈالی تو اسرائیل بارود اگلنے والے لوہے کے کنٹینر نما ٹینک غزہ لے آیا۔ اسرائیل ڈرون طیاروں کا موجد ہے۔ اس کے پاس میزائل کو فضا میں جکڑ لینے والے جال موجود ہیں۔ اس آگ، لوہے ، بارود کے کنٹینر نظام کو حالیہ جنگ کے دوران دو بنیادی محاذوں پر عبرت اور حیرت سے بھرپور شکست ہوئی۔ ان میں سے پہلا محاذ غزہ کی پٹی کا تھا جہاں اسرائیل کے جنگی طیاروں، حملہ آور ہیلی کاپٹروں اور سٹیل کے کنٹینروں میں چھپی ہوئی فوج کا مقابلہ پتھرائو اور روڑے برسانے والے بچوں اور عورتوں سے تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل کو عرب اسرائیل کی جنگوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ چھیاسٹھ کمانڈوزکی لاشیں اُٹھانا پڑیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تین سو کے قریب اسرائیلی کمانڈوز زخمی ہوکر ناکارہ ہو گئے۔ کنٹینروں کے پیچھے چھپے اسرائیل کا دوسرا محاذ عالمی رائے عامہ کا ہے۔ 1945ء سے 2013ء تک اسرائیل کو مغرب کی رائے عامہ میں ناقابلِ شکست بنا دیا گیا تھا۔ غزہ کے حالیہ قتلِ عام نے اسرائیل اور اس کی حامی حکومتوں کو تنقید اور ملامت کی علامت بنا ڈالا ہے۔ وہ بڑے میڈیا سنٹر جو عالمی رائے عامہ تشکیل دینے کی مشین سمجھے جاتے ہیں‘ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ صہیونی نظام عالمی طور پر تنہا رہ گیا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام کا ایک تیسرا فیکٹر بھی جاننا ضروری ہے جسے یورپ میں بیٹھ کر زیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور وہ ہے مغربی رائے عامہ کی طرف سے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کا نہ ختم ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ۔
جہاں جہاں استعماری سوچ ہو گی اس کے اظہار کی سب سے بڑی علامت کنٹینر ہو گا۔ جسے شک ہو وہ کین سانگ کے بارڈر پر جا کر کوریا کو تقسیم کرنے والی دیوار دیکھ لے۔ اس دیوار کے ایک طرف سیول اور دوسری جانب پیانگ یانگ ہے مگر کشمیریوں کی طرح دونوں طرف سوچ اور دل ایک ہی ہیں۔ بھارت لائن آف کنٹرول کو کنٹینر سے تقسیم کرنا چاہتا ہے جبکہ عراق بھاری کنٹینروں کی زد میں ہے۔ ایسے میں کیا ہی اچھا ہو کہ ریڈ زون کے حکمران وہی فورک لفٹر خود منگوا لیں جن کے ذریعے انہوں نے غیر منصفانہ مارچ کیا تھا۔ ویسے بھی لاہور ہائی کورٹ نے آئین کی منشا اور عوام کی امنگوں کے ''عین مطابق‘‘ کنٹینر نہ اٹھانے کا حکم جاری کیا ہے۔ یوں لگتا ہے جس طرح جمہوریت پارلیمنٹ کی طاقت پنجاب پولیس کو ٹرانسفر کر چکی ہے ، ہمارے آئین میں فیصلہ لاٹھی کی طاقت سے نہیں مانا جاتا۔ لاٹھی، گولی، گرفتاری، مقدمہ، نظر بندی، شہر بدری، ناکہ بندی، روڈ بلاک اور کنٹینر اگر کرسی مضبوط کر سکتے تو آج بھی کوئی یحییٰ خان برسرِ اقتدار ہوتا۔ اور یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ پھر حبیب جالب کنٹینر ڈیموکریسی کے نام یہ پیغام کبھی نہ دیتا :
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
زمیں کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو