مُغلیہ جمہوریت‘ شُغلیہ موقف

مُغلیہ برانڈ جمہوریت کے شُغلیہ برانڈ ''میگا منصوبے‘‘ پاکستان کو پیرس بنا کر چھوڑیں گے۔آپ کو اس میں شک ہو تو ہو، لیکن مجھے پورا یقین ہے ہم پیرس بن جائیں گے۔اس سے پہلے بھی دو مرتبہ جمہوریت کا پھل فروٹ کھا کر اس ملک کے غریب عوام ایشیائی ٹائیگر بن چکے ہیں۔پنجاب عالمی ریکارڈ بنانے میں اکیلا ماہر ہی نہیں بلکہ اس کی وجہ شہرت بھی یہی سچے ریکارڈ ہیں۔ اس لیے خادموں اور مخدوموں سے بھر پور اس صوبے نے انہی دنوں ایک اور عالمی ریکارڈ بناڈالا ۔جی ہاں 62فیصد طالب علم فیل اور باقی بھاری اکثریت کے ساتھ تھرڈ ڈویژن میں پاس۔ایشیا ء میں ہے کوئی دوسرا ٹائیگر جو ایسا تعلیمی ریکارڈ بنا سکے۔ 
ٹا ئیگر کی زندگی کیا ہے؟اگر آپ نیشنل جیو گرافک نہ دیکھیں تو پھر آپ کو پاکستا نی شیر کی زندگی کے سارے راز معلوم ہو جائیں گے ۔جس شیر کی فوٹو پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سرکاری اشتہاروں میں روزانہ دکھاتا ہے اس قسم کا کوئی شیر چھانگا مانگا سے لے کر گلگت تک ہمارے ہاںنہیں پایا جاتا ۔وہ والے جتنے بھی شیر ہیں ان سب کی جڑیں افریقہ،بنگال اور امریکہ میں ملتی ہیں۔ آج کل ان جڑوں کو عربستان اور انگلستان سے نکال کر ترکی اور چین میں ٹرانسفر یا Re-Locateکیا جارہا ہے ۔
خالی خزانے والی سر کار کا کہنا ہے کہ پاکستا ن کو دو عدد غیر مسلح اور غیر شغلیہ دھر نے والے عوام نے آٹھ سو ارب کا نقصان پہنچایا ہے۔ ماڈل ٹائون میں گولیاں مارنے والی جمہوریت نے گلو بٹ کی زیرِ قیادت مغلیہ آپریشن سے ملکی معیشت کو کتنا فائدہ دیا اس کی گنتی ابھی اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ جونہی یہ گنتی مکمل ہو گی ایک کمیٹی بنا کر اس گنتی کو آخری شکل دے دی جائے گی۔ فوراََ بعد ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ذریعے یہ گنتی اورکمیشن کی رپورٹ آپ کو ویسے ہی مفت ملے گی جس طرح ماڈل ٹائون کمیشن رپورٹ مفت میں ملی ۔
اس وقت حکومت کی گاڑی کچّے میں پھنسی ہے، جہاں ریت اور کیچڑ کے علاوہ کچھ نہیں ۔گاڑی کو دھکا لگانے کے لیے سرکار نے اپنے تنخواہ دار خادموں کی فوج کو کارکنوں کے حوالے کر کے حکم جاری کیا ہے کہ اب کسی سرکاری مارچ کا حشر فیض آباد پنڈی ریلی یا مخدوم ہائوس کے باہر ملتان والی ریلی جیسا ہوا تو سب شرکاء بغیر شوکاز نوٹس کے نوکری سے نکال دیئے جائیں گے ۔سرکار کو اتنی محنت کی ضرورت کیا ہے ۔صرف ان لوگوں سے اپیل کرے جو ہفتے میں دودن یعنی 48گھنٹے سی این جی سٹیشنوں پر امن سے کھڑے رہتے ہیں اور اپنی اپنی باری پر ''لِترول‘‘، معاف کیجیے گا پٹرول‘ حاصل کرتے ہیں‘ یا اپنی گیس ٹربل کا سرکاری علاج کرواتے ہیں ۔سرکار نے جس طرح کے مارچ پریڈ کروا ئے اُس کے لیے سبزی منڈی بہترین جگہ ہے ۔جہاں 100روپے کلو آلو، 200 روپے کلو ٹماٹراور 150روپے درجن انڈے بکتے ہیں۔ سبزی منڈی میں موجود عوام اگر کفایت شعاری کے سا تھ اپنے لفافوں میں سے ایک ایک انڈا ،ٹماٹر اور آلو سرکار کی جیپوں کی طرف پھینکیں تو سرکاری مارچ ''ڈبل مارچ‘‘ بن سکتا ہے‘ یعنی ایک مفت کے انڈوں، ٹماٹروں اور آلوئوں کی بوریاں ‘ دوسرا استقبال میں عوام کی بھرپور شرکت۔
اس وقت اسلام آباد کے دو بڑے ایوانوں میں موجود صدر اور وزیراعظم کے شغل علیحدہ علیحدہ ہیں ۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق صدرِ مملکت کا گلا خراب ہے‘ شاید اسی لیے وہ ابھی تک اونچی آواز میں کھانسی نہیں کر تے ۔حالانکہ کھانسی، پان کھانے کے بعد شغلیہ طور پر کی جاتی ہے۔ جس طرح پنجاب کے ایک سابق وزیر کے جوڈیشل کزن نے انصاف کی بالادستی کے ریکارڈ توڑے ہیں بالکل ویسے ہی صدر نے وفاق کی بالادستی کے ریکارڈ بنائے۔شاہراہ دستور کے پارلیمانی چوک میں جو گندے کپڑے دھوئے جا رہے ہیں انہیں انصاف کی آنکھ نے تو دیکھا لیکن صدر صاحب کو نہ ماڈل ٹائون کی 14 لاشیں نظر آئیں نہ ہی ڈی چوک کی گندی لانڈری۔
چند ہفتوں سے نواز شریف صاحب کا پسند یدہ شغل فوٹو بنوانا ہے۔ ایسی ہی تصویر کے ساتھ فوج نے ڈھائی ہفتے میں تیسری دفعہ حکومت سے کہا کہ مظاہرین سے با مقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کر لیں ۔حکومت نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے فوری قدم اٹھایا‘ جس کے تحت72نمکین ڈشیں اور 24 میٹھے ڈونگے اپوزیشن کے ساتھ فوراََ شیئر کر لیے ۔یہ سب کچھ کھانے کے بعد میرے دوست اور پرانے سندھی اصلی اپوزیشن لیڈر کا گلہ بھی ویسا ہی ہو گیا جیسا نواز شریف کے دوست اور نئے سندھی صدر کا۔ اپوزیشن لیڈر کو پنجاب کی سیاست کا بہت شوق ہے لیکن وہ سکھر کی بجائے لاہور یا پنڈی سے الیکشن کبھی نہیں لڑیں گے ۔سکھر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کا مطلب قومی اسمبلی کی پکی سیٹ ہے جبکہ لاہور پنڈی سے اسی ٹکٹ کا مطلب کروڑوں روپے جرمانے کے علاوہ کچھ نہیں ۔اسی لیے شغلیہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ہماری اپوزیشن نے کبھی مذاق میں بھی لوڈ شیڈنگ، چور بازاری، لا قانونیت یا مہنگائی وغیرہ کے خاتمے کا ذکر نہیں کیا۔ ظاہر ہے وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اپوزیشن جمہوریت کا ادب کرتی ہے اور اس سے محبت بھی۔ اب حکومت اور اپوزیشن کی محبت لافانی ہے۔مگر اپوزیشن اور حکومت میں یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ ان میں سے ہیر کونسی ہے اور رانجھا کون سا ؟اور زوال کس پر آیا ہے۔
جس طرح وزیراعظم نے قوم کو موٹر وے دی‘ اسی طرح موجودہ بحران بھی وزیراعظم کا ہی تحفہ ہے جو ان کی ٹیم نے عید گفٹ پیک کے طور پر قوم کو پیش کیا اور قوم نے پوری محبت کے ساتھ اسے گلے لگا لیا ۔ اس قدر شُغلیہ سرگرمیوں کے بعدیہ تو طے ہے کہ کوئی نہ کوئی مائنس ضرور ہو گا ۔ یعنی مائنس ون ہویا مائنس آل ۔
حکومت طے کر چکی ہے کہ وہ اپنا اصولی موقف نہیں چھوڑے گی۔ ایک پہاڑی سردار جی اور حکومت کے اصولوں میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہے۔ آپ چاہیں اسے حسن اتفاق سمجھ لیں یا تاریخ کا تسلسل ۔سردار جی بھاری قرضوں تلے دَب کر قلّاش ہوئے تو کسی مشیر نے کہا آپ اللہ کے نیک بندوں سے مدد مانگیں۔ تجویز پسند آئی، لہٰذا انہوں نے ساتھ والے گائوں سے گھوڑا چوری کیا ۔پڑوس والے گھر سے ایک لمبی ڈانگ چُرائی۔ گائو ں کے فقیر کے تکیے سے ایک عدد کشکول اٹھایا اور گُرو کے نام پر مدد مانگنے گھر سے نکل پڑے ۔شام کا وقت تھا‘ سردار صاحب ایک گھاٹی میں گھات لگا کر کھڑے ہوگئے۔ جونہی دو مسافر سامنے آئے‘ سردار جی نے ایک پر ڈانگ اور دوسرے پر کشکول برسایا اور کہنے لگے ''تمہارے پاس جو کچھ ہے گُرو کے نام پر میرے حوالے کر دو‘‘ وفاقی سرکار اور اس کی بغل بچہ پنجاب حکومت طاقت ور اشرافیہ اور اداروں سے اس نئے انداز میں مدد مانگ رہی ہے۔ 
کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشندان
ناکہ بندی کرتے کرتے گھر سب ریگستان
ٹوٹے پُھوٹے آئیں جیسے، گھٹتے گھٹتے سانس
پیروں سے چمگادڑ چمٹے، سر پر کھڑکیں بانس
اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چھڑائیں، رخصت ہو دستار

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں