مبلغ ایک کروڑ روپے روزانہ سے سجنے والا دستر خوان بالآخر لپیٹا جا رہا ہے۔دستر خوانی پیغام یہ ہے کہ لائٹ سے بھر پور ریڈ ایریا میں بلا اجازت گُھسنے والے لوگ گندے ہیں ،بدبودار بھی اور ناقابلِ برداشت۔ غریب ووٹروں کو پارلیمنٹ کی طرف سے اس عزت افزائی پر مبارکباد۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں کچھ لوگ چیخے، کچھ دھاڑے، کچھ مِنمنائے، چند آوازیں پنجے دکھانے کے انداز میں سامنے آئیں۔بنیادی سوال ایک ہے۔ ساری کارروائی کس کے خلاف تھی؟ بارش، آندھی، ننگی سڑک، ژالہ باری، طوفان، ننگے سر، بے آسرا ، نچلی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف؟ یا اس کا نشانہ پاک فوج اور جنرل راحیل تھے؟ ایک چادر بر دوش ایم این اے نے ہاتھ جوڑ کر کہا‘ مظاہرین کو واپس لے جاؤ۔ یہی ایم این اے افغان انٹیلی جنس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بہت کچھ کہتا ہے مگر یہ کبھی نہیں کہا کہ 35سال سے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور کلچر کو برباد کرنے والے افغان مہاجرین واپس لے جاؤ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جن کے آباؤ اجداد خدائی خدمت گار اور عوام دوست کہلائے‘ ان کا موقف دیدنی تھا۔ دھاندلی تو ہوئی لیکن وزیراعظم وزیراعظم ہوتا ہے۔وہ دھاندلی سے آئے یا دھونس سے۔ جھر لو ٹھپہ ویسے ہی پاکستانی برانڈ جمہوریت کا پسندیدہ اور من بھاتا کھاجا ہے۔
پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران آنکھیں کھول دینے والے واقعات رونما ہوئے۔ جیسے، اپوزیشن اور حکومت نے باری باری مگر ایک ہی کھابہ سپلائر کے ذریعے اپنی لابیوں میں ولیمے جتنے کھانے لگوائے، جن میں پرہیزی کھانے، ویجی ٹیرین، دیسی کھانے ، کا نٹینینٹل ٹچ اور باربی کیو آئٹم شامل تھے۔ جن عوام کے کاندھے اور سر پر جوتا رکھ کریہ لیڈر مخدوم، رہنما اور خادم پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں، اُن کے لیے کئی قیامتیں برپا تھیں۔ ایک طرف پارلیمنٹ میں راحتِ جسم وجاںسے بھرپور ڈشوں کی قطاریں، جبکہ اسی پارلیمنٹ کے باہر رات بھر بھوک، رتجگے اور بارش کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے سادہ نان لانے والی ویگنوں پر باوردی پنجاب پولیس کے حملے۔ ڈرائیوروں کی پٹائی اور طعام کی بے حرمتی کے مناظر ٹی وی کے ذریعے ساری مہذ ب دنیا نے دیکھے ۔
وزیراعظم نواز شریف کا نیا روپ دیکھ کر گھاگ بیوروکریٹس سوٹ کے اندر پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے رہے۔ وزیراعظم نے 420 دن کے اقتدار میں پارلیمنٹ سے ''کمی کمین‘‘ والا سلوک کیا۔ جب ایسا وزیراعظم با ادب ،باملاحظہ ، اورہوشیار ہو کر مشرف کی وزارتِ داخلہ اور مُلّا ملٹری الائنس سے شہرت پانے والے عظیم جمہوریت پسند رہنمائوں کو کورنش بجا لاتے ہوئے نظر آئے تو کون ظالم ہنسی روکے گا۔پاکستانی پارلیمنٹ کا یہ پہلا سیشن ایساتھا جہاں اس کا بھر پور اہتمام کیا گیا کہ کوئی سرکار مخالف آواز نہ سنائی دے۔اس کے باوجود قدرت کا قانون غالب آ گیا۔ جن کے مفادات آپس میں ٹکرا رہے تھے بالآخر وہ بھی ٹکرا گئے۔ شیر دل وزیراعظم اور چٹان دل وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے ہی وزیر داخلہ کی آزادی ِ اظہار رائے پرآدھی رات کو فرینڈلی اور تابعدار اپوزیشن کو جگا جگا کر اُس سے معافی مانگنی پڑی۔ بالکل ویسے جیسے دبنگ پولیس والے نے ڈی چوک میںکیمرے کے سامنے بڑھک مارنے کے فوراََ بعدخاک چاٹ لی۔
1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ہماری پارلیمان کی مسلسل روایت تھی کہ کسی واقعے ،حادثے یا آفت میں شہری مارے جائیں تو ان کے لیے فاتحہ کی جاتی ہے ۔ٹریفک حادثوں اور ڈینگی سے مرنے والوں کے لیے بھی ۔اب پارلیمنٹ کی خود مختاری اور جمہوریت پسندی نے یہ تاریخ بھی الٹا کر رکھ دی ۔ چنانچہ نہ تو کسی خادم نے پارلیمنٹ کے دروازے کے اوپر مارے گئے نہتے شہریوں کے لیے ،نہ ہی پارلیمنٹ کے احاطے کے ساتھ زخمی ہو کر گرنے والوں کی صحت یابی کے لیے دعا کی‘ نہ کسی کو توفیق ہوئی کہ وہ ماڈل ٹاؤن کے کربلا ئے ثانی میں جان دینے والوں یا گولیوں سے بھونے گئے شہریوں کے لیے ہاتھ کھڑے کرسکے۔ مصدقہ سورس نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے اندر آنسو گیس کے خالی شیل،چلے ہوئے کارتوس اور گولیوں کے ٹکڑے جمع کر کے جب پارلیمنٹ کے کسٹوڈین حضرات کے سامنے رکھے گئے تو وہ یک زباں ہو کر بولے کہ موبائل فون جمع کرا دو، کوئی فوٹو نہیں بنے گی۔ یہ کچرا بند ڈبوں میں ڈال کر ایچ۔ایٹ کے قبرستان سے آگے پھینک آؤ۔
یہ تھا وہ پارلیمانی منظر نامہ جس سے میں نے دُور رہنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ دو ایسے لوگوں نے مجھے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانے کا حکم دیا تھا جن کی بات میرے لیے بہت محترم ہے ۔ایک ندیم افضل چن ، دوسرے رؤف کلاسرا۔سچے واقعات پر مبنی عالمی سطح کا شاہکار ''ایک قتل جو نہ ہو سکا‘‘ کے مصنف رؤف کلاسرااس بات پر ہمیشہ مجھ سے اور موجودہ وزیر داخلہ چودھری نثار سے گلہ کرتے ہیں کہ ہم خطہ پوٹھوہار کے حقوق کی بازیابی کے لیے ان کی توقعات پر پورے نہیں اترے۔ موضوع تبدیل ہو جائے گا اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ فی الحال تو وہ رویہ اور ایجنڈا قوم کے سامنے لانا مقصود تھا جس کا اظہار پاکستان کے سب سے بڑے ایوان کے اندر ہوا۔
آپ نے دیکھا جب دو عدد ٹائی ٹینک ٹکرا رہے تھے، وزیرِ اعظم کیمپ کے وزیروں نے بغلیں بجائیں۔ آنکھوں، ہاتھ اور بتّیسیوں کے ذریعے اشاروں کی زبان میں دھمال ڈالی۔ ایک طرف خوشی کے یہ شادیانے بجے، جبکہ دوسری طرف دو بڑوں کی 6منٹ تک ٹیلی فونک گفتگو نے غالب اور اس کے پُرزے اُڑنے سے پہلے ہی انہیں سکریپ سمجھ کر ڈیل کر لی۔ ویسے ہی جیسے تحفظِ پاکستان بِل پر پہلے یوں مخالفت ہوئی جیسے پانی پت کی جنگ جھڑ گئی ہو‘ مگر ڈیل کے بعد اس طرح خاموشی چھا گئی جیسے میانی صاحب کا نہیںبلکہ مَکلی کا قبرستان ہو۔
پارلیمان کے پُر ہیجان مگر ''نُورا اجلاس‘‘ کے دوران ہی پنجاب بد ترین سیلاب کی زد میں آگیا۔ کون نہیں جانتا کہ اقتدار کا اصل میدان پنجاب ہے، جہاں دسترخوانی لیڈروں کے بقول گندے، بدبودار اور ناقابلِ برداشت خانہ بدوش ووٹر رہتے ہیں۔ پنجاب کے ان غریبوں کی طاقت کا شمار1973ء کا آئین بھی کرتا ہے۔ مثلاً پاکستان کی قومی اسمبلی کی 342نشستوں پر وزیرِ اعظم بننے کے لیئے 172ارکان کے ووٹ درکار ہیں۔ صرف پنجاب سے قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 188ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کا فیصلہ پنجاب میں ہوتا ہے۔ باقی تینوں یونٹ100فیصد ووٹ اکٹھے کر لیں تب بھی وہ وزارتِ عظمیٰ کی سیٹ نہیں جیت سکتے۔ اسی پنجاب اور کشمیر والی سرحد پر چار دنوں کی بارش نے 200سے زیادہ لاشیں بہا دیں۔ لاکھوں غریب اور ہزاروں کچے گھر کیچڑ کے گڑھوں میں جا گِرے۔ فوج کے علاوہ پنجاب کے تخت سے لے کر خوش بخت بیوروکریسی تک کسی کے پاس نہ تو کشتی تھی، نہ موبائل ہسپتال۔ نہ سیلاب کے متاثرین کے لیے کھانا، نہ رہائش۔ صرف محفوظ گلی میں فوٹو سیشن ۔
لگتا ہے پارلیمنٹ کے اندر کا بینہ والی کرسیوں میں گوند لگ گئی ہے۔ایسے وزیر جو 14ماہ کبھی نظر نہیں آئے ایک دوسرے کو کندھے سے پکڑ کر کُرسی میں گھسیڑتے رہے۔ میاں نواز شریف نے اجلاس سے واک آوٹ کرنے والے وزیر کی کلائی تھام لی۔ اگر مظاہرین چند سو یا ہزار ہیں تو پھر درباری کیوں کانپ رہے ہیں؟ عوام جتنے بھی ہوں، لڑکھڑاتی جمہوریت کے شیر اور کفگیر کہتے ہیں، اِسے بچا لو، مگر عوام کو بچانے والا کہاں ہے؟
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلافِ عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے