دنیا کس تیز رفتاری سے بدل رہی ہے ،یہ کوئی یورپ سے پوچھے۔ تین یورپی ملکوں میں تین چار سو سالہ پُرانے... جبری معاہدے تڑاخ تڑاخ کی آوازوں کے ساتھ ٹوٹتے نظر آ رہے ہیں۔ یورپ کی جدید تاریخ میں یہ تیز رفتار تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم زبانی جمع خرچ سے قوم نہیں بن سکتی، بلکہ گروہ ،لشکر،بھیڑ اور مافیاز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہامان ، شدّ اد ،حسن بِن صباح سے لے کر یورپی یونین کی تشکیل تک تاریخ کا مسلسل سبق یہی ہے ۔
تقریباً ایک سو سال پہلے توسیع پسندی ،جبروت ،استعمار ، جارحیت اور جبرکے نتیجے میں تاجِ برطانیہ کی بادشاہی کا سورج کرۂ ارض پر غروب نہیں ہوتا تھا ۔آج وہی تاجِ برطانیہ اپنی فیڈریشن کے غریب ترین علاقے سکاٹ لینڈ کو تنخواہ، پنشن اور ترقی کے نام پر آزادی کے لیے منعقدہونے والے ریفرنڈم میں ''ہاں‘‘ کے بجائے ''ناں‘‘ کرنے کے لیے ہا تھ جو ڑ کر اور گھٹنے ٹیک کر مِنت کر رہا ہے ۔دوسری جانب سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں اپوزیشن لیڈر ایلکس سلمونڈجس کو آج کلYes Movement تحریک کا بانی مانا جا رہا ہے‘ کہتا ہے کہ سکاٹ لینڈ آزاد ہو کر رہے گا ۔سکاٹ لینڈ کی آزادی کا ریفرنڈم اسی ہفتے منعقد ہو گا۔
رود بارِ انگلستان یاانگلش چینل کے دوسری جانب ہسپانیہ سے سپین بننے والے وسائل سے بھرپور ملک میں بھی بار سلونا آزاد ہو رہا ہے ۔اگر ایسا ہو گیا تو نئے ملک کا نام کیٹیلونیہ ہو گا ۔مغرب کے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ سپین کے حالیہ معاشی بحران میں سب سے زیادہ بے روزگاری بارسلونا وغیرہ ہی کو برداشت کرنا پڑی۔ کیٹیلونیہ پرریفرنڈم کے لیے سپین کی حکومت نے نومبر کا مہینہ طے کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ایسے ریفرنڈم کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔
ایک اور یورپی ملک بلجیم کے علاقے فلینڈرزمیں ایسی ہی تحریک ڈچ عوام نے چلائی ہے ۔
یہ طے ہے کہ یورپ کے اندر ایک نیا یورپ انگڑائی لے رہا ہے‘ جس کے کئی روپ ہیں اور کئی درشن ۔اس کا نظارہ کرنے کے لیے اب کسی تحقیق کی ضرورت ہے اور نہ کسی سروے کی۔ یورپی یونین کے اندر امیر اور غریب سماج رات دس بجے کے بعد یورپ کی سڑکوں پر بے نقاب اور بے حجاب دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب سے مشرقی یورپ میں ترقی پسند اور محروم طبقات کمزور ہو کر ناتواںہوئے ہیں اس کا نتیجہ یہی ہو نا تھا‘ جواب دنیا کے سامنے ہے۔
یادش بخیر ،مشرقی پاکستان میں ابتدائی طور پر دو محرومیوں کو ریاست کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا۔ پہلی محرومی جیوٹ یعنی پٹ سن کی فصل تھی جس سے بوریاں بنائی جاتی تھیں۔ اس وقت تک کپڑے کے تھیلے اور پلاسٹک کے بیگ دریافت نہیں ہوئے تھے ۔مشرقی پاکستان میں ہندوستان شروع سے سر گرم تھا۔ جب تقسیم بنگال کا واقعہ ہوا تو ہندوسیاسی پنڈتوں نے اُسی وقت طے کر لیا تھا کہ بِہاریوں سے اس کا بدلہ لینا ہے ۔اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں بنگال کے قوم پرست لیڈر کہتے تھے کہ ہمیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔حالانکہ 1970ء کے اسلام آباد میںگِن کر گیارہ سڑکیں تھیں اور سب کی لمبائی ملا کر 50کلو میٹر سے بھی کم ۔ یہی سڑکیں میرے سکول کے زمانے کی اعلیٰ سیر گاہیں، کھیل کے میدان اور چند ہزار آبادی کے شہر والوں کے آپس میں رابطے کاذریعہ تھیں۔ دوسرا پروپیگنڈا اکثریتی آبادی کی بنگالی زبان کے مقابلے میںبِہار اور دلّی کی بیوروکریسی کی جانب سے اردو کو مسلط کرنے کا تھا ۔اسی آگ نے پلٹن میدان میں ہندوستان کے اندر مسلم بالا دستی کے خواب کو جلا کر راکھ کر دیا۔
دنیا کس قدر تیز رفتاری سے بدل رہی ہے‘ اس کا ثبوت پاکستان کے اندر پچھلے ایک سو دن کے قومی منظر نامے سے بھی ملتا ہے۔ محض سو دن پہلے منتخب پارلیمنٹ اس قدر بے وُقعت اور بے حیثیت تھی کہ وزیراعظم کو اس کی کو ئی پروا نہ تھی ۔ ایوانِ بالا میں پہلے پارلیمانی سال کے دوران وزیراعظم کی رو نمائی تک نہ ہو سکی۔ آج منظر پوری طرح سے ''ریورس‘‘ ہو چکا ہے۔ وزیراعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کی چوکھٹ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ایوان کے باہر بیٹھی پی اے ٹی کو سرکار لِفٹ نہیں کرواتی تھی ۔پی ٹی آئی پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر عوام میں چلی گئی ۔ نتیجہ چنیوٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب نے دیکھا اور سُنا بھی‘ جبکہ سرگودھا سے لے کر آزاد کشمیر تک سیلاب، مہنگائی، پولیس گردی اور لوڈشیڈنگ کے مارے عوام نے گو نواز گو کے نعرے لگا دیئے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ نعرے لگانے والے اپوزیشن کے جلسے کے شرکاء نہیں بلکہ پنجاب اور کشمیر کے سرکاری جلسوں کے حاضرین ہیں‘ جن کو سرکاری خرچ پرجلسے بھرنے کے لیے لایا جاتا ہے ۔سرگودھا کا واقعہ ہمارے اپوزیشن لیڈر کی پسندیدہ سرکار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ یاد رکھیے یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے نواز شریف قومی اسمبلی کے رکن اور پھروزیراعظم منتخب ہوئے۔
فوج کے ساتھ وزیرِ اعظم کے پسندیدہ نیوز چینل کے علاوہ کچھ پسندیدہ وفاقی وزراء اور ڈھائی عدد ٹی وی اینکرز کے ذریعے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ پہلے فوج کو وزیرِ اطلاعات نے غلیل والے کہا۔ پھر نواز شریف آئی ایس آئی کی توہین کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ آج کل کابینہ کے وزیر اور کچن کابینہ کے مشیر فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی روزانہ مشق کرتے ہیں۔ بھارت نواز ٹولہ کہتا ہے کہ آرمی چیف اچھا باقی جرنیل بُرے ہیں۔ بارہ اکتوبر 1999ء کے دن بھی ایسے ہی مشیروں نے جنرل بٹ یا جنرل خواجہ کو پی ٹی وی کے میک اَپ روم میں بٹھا کر نواز شریف کے ہاتھوں آرمی چیف کے بیج لگوا دیئے تھے۔ آج سول ملٹری تعلقات کا یہ عالم ہے کہ پارلیمان کے اندر سے قابلِ توجہ آوازیں دونوں کے درمیان ڈائیلاگ چاہتی ہیں۔ سو دن پہلے جو کچھ اپوزیشن نے مانگا‘ حکومت اس کو سُننے کے لیے تیار نہیں تھی ۔ آج سو دن بعد وہی کچھ حکومت دے رہی ہے لیکن اپوزیشن اُسے لینے کے لیے تیار نہیں۔
اِن چونتیس دنوں کے دوران آزاد میڈیا کی وجہ سے عوام کی طاقت میں لاکھوں اور کروڑوں نہیں بلکہ کئی ارب کھرب گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ عوام سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ اُن کی آواز سُنی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا ہر قسم کے سنسر شپ، لفافہ صحافت اور زرد رپورٹنگ سے آزاد بلکہ ماوراء ہے۔ اسی لیے کروڑ پتی اینکر روزِ قیامت سے کم اور ٹوئٹر سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ جن کا کوئی احتساب نہیں کر سکتا تھا سوشل میڈیا اُن کی روزانہ ایک سو گنڈوں اور ایک سو چِھتروں سے تواضع کرتا ہے۔ لوگ کسی کو بھی ظلِ الٰہی اور مہابلی ماننے سے باغی ہو چکے ہیں۔جو غریب عوام آج جھرلو جمہوریت کے ٹھپہ نظام سے اپنا حق مانگ رہے ہیں اور جواب میں ان پر مسلح پولیس چھوڑی جا رہی ہے‘ اگر سو دن مزید گزر گئے تو حکمران امداد کا ٹوکرا لے کر جس گلی میں جائیں گے، واپسی پر انڈوں اور ٹماٹروں کے رنگ میں رنگ کر آئیں گے۔
سارے جہانوں کے سب سے بڑے حکمران کا اِرشاد ہے ''وتِلکَ الایّامُ نُداولُھا بَین الناس‘‘ یعنی ہم ان دِنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔