پاکستانی باورچی اور انگریزی ڈاکٹر

جب سے قائداعظم کی طرح آرمی چیف نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قراردیا ،کشمیریوں کے جذبہ حریت کا شعلہ اور بھی چمک اٹھا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اپنے وزیراعظم جو ''وزیر خارجہ‘‘ بھی ہیں کے ذریعے مسئلہ کشمیر زندہ کرنے کی زبردست تیاری کی۔کشمیرکی آزادی کے لیے مضبوط دل گردے کی ضرورت ہے۔ 
دل مضبوط رکھنے کے لیے دولت مشترکہ کے لیڈر لندن کے علاوہ کہیں اور سکون محسوس نہیں کرتے، اسی لیے عدی امین سے لے کر ہماری ''خالص پاکستانی‘‘ قیادت تک سب کا پہلا گھر لندن میں جبکہ دوسرا گھر پاکستان میں ہوتا ہے ۔ بالکل اُسی طرح جیسے اصل اکائونٹ یورپی، ٹرکش اور چائنا بینکوں میں اورانتخابی اکائونٹ پاکستان میں بھی کُھلتا ہے۔ جہاں آدمی کا دل لگے وہاں دلدار کی ضرورت لازمی ہے۔ دل کے مریضوں کے لیے ہارٹ سپیشلسٹ سے بڑا دلدارکوئی نہیں ہوتا ۔اسی لیے وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ والی تقریر سے پہلے''دِلداریٔ واعظ‘‘ کے لیے انگریزی ڈاکٹرکا انتخاب کیا۔
ڈاکٹر بھی وکیلوں کی طرح نہ 'ہیؤں‘ میں نہ 'شیؤں‘ میں شامل ہیںکیونکہ وکیل وکیل ہوتا ہے اور ڈاکٹر ڈاکٹر چاہے وہ ''He‘‘ ہو یا ''She‘‘۔ لندن میںوزیراعظم کے دلی معاملات کا معائنہ کروانے کا فیصلہ وزارت خارجہ کی حقیقت پسندی ہے۔ کسی بڑے آدمی کے لیے پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں چیک اپ کروانے کا رسک لینا کہاں کی دانش مندی ہوگی ، خاص طور پر جب سات سمندر پارعلاج سرکاری ہو، رقم خزانے کی، سفر مفت کا، جہاز چارٹرڈ اور ڈاکٹرگوری یا گورا ہو تو کس ظالم کا دل چاہے گا کہ وہ اپنے جیسے ہم وطنوں کے ہاتھ آ جائے، وہ بھی اپنے دل سمیت ۔
ابھی وہاڑی ہسپتال میں سرکاری بے حسی وبے رحمی کی وجہ سے مرنے والے 8معصوم بچوں کی قبرکی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی کہ 45دنوں میں بہاولنگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 122بچوں کو موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ دل تو ویسے بھی بچہ ہے جی اور آج کل حکومت کا دل کچا ہے جی۔ اس لیے اس دل کوگورے ہاتھ ہی سنبھال سکتے تھے۔ کالے ہاتھ اورکالی زبانیں تو ہر جگہ ''گو نوازگو‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں دل کیا خاک سنبھلے گا۔
امریکہ میں ہم نے عالمی رہنمائوںکے عین درمیان اپنی بالا دستی کے جھنڈے گاڑ ے۔ عرب بادشاہوںسے توقع تھی شاید وہ وزیرِ اعظم کے مقابلے میں ٹھہر جائیں مگر وہ سلطان بھی ہمارے سلطان کے ہاتھوں پِٹ گئے۔ وزارتِ خارجہ نے نواز شریف کے گھریلو باورچیوں سمیت انہیں سادہ ہوٹل میں ٹھہرایا جہاں ایک رات کا خرچہ صرف اٹھارہ لاکھ روپے ہے۔ برطانیہ کے گورے وزیرِ اعظم پاک سرزمین کی یہ آن بان دیکھ کر یقیناً پیلے ہو گئے۔ اوباما ہماری طرح پہلے ہی کالے ہیں۔ ان کے جل کر راکھ ہونے کے امکانات بہت روشن تھے، اسی لیے صدراوباما ہمارے وزیرِ اعظم سے دُور اور نریندر مودی کے پاس پاس رہے۔ مودی مضحکہ خیز جانگیہ نما پاجامہ، چادر نماکُرتا، اور ''کھوپا‘‘ نما جیکٹ پہن کر دیسی کارٹون نظر آیا۔ چینی لیڈروں کی عادتیںاُن کے تجارتی مال کی طرح سستی ہیں۔ وہ اپنی ایمبیسی میں ہی سو جاتے ہیں۔ نواز شریف پنجاب کے سات سالہ مسلسل اقتدارکے دوران ہیلی کاپٹروں کے چکر لگا لگا کر تھک چکے تھے۔ انہیں امریکہ میں تھوڑا سکھ کا سانس ملا۔ وہ بھی ہوٹل کے کمرے کے اندر۔ باہر ہر طرف نعرہ باز شرپسند شاہانہ مزاج کو چیلنج کرتے نظر آئے۔
امریکہ میں کیب ڈرائیور ہمارے شاہی قافلے کا مزہ کِرکِرا کرتے رہے۔ ہر ٹیکسی پر ''گونوازگو‘‘ کا بورڈ عالمی سازش تھی۔ دیسی رعایا امریکہ میں اپنے آپ کو "We the people"سمجھ کر ہماری سلطانیِ جمہوریت کو خوفزدہ نہیں کر سکتی۔
سب جانتے ہیں دو درجن قتل کے بعد بھی ہماری جمہوریت قانون سے ڈرتی ورتی نہیں ۔ وزیرِ اعظم کے دورۂ امریکہ اوراقوامِ متحدہ سے تاریخی خطاب کے مثبت نتائج پی ٹی وی اوراس کی دو عدد سوکنوں۔۔۔۔۔ پرائیویٹ پی ٹی وی ـ2اور پرائیویٹ پی ٹی وی ـ3 کو دورے سے پہلے ہی معلوم تھے۔ یہ نتائج بریکنگ نیوزکی شکل میں پوری قوم نے دیکھے۔ مثال کے طور پر نواز شریف کی انگریزی تقریر، اسی لیے چین کے لیڈر نے چینی میں، ہند کے لیڈر نے ہندی میں، لاطینی امریکہ والوں نے اپنی زبانوں میں تقریریںکیں۔ ہم نے انہیں انگریزی سکھائی۔اس تقریر کے دوران عالمی رہنما ہماری قومی گھڑی، سوٹ بوٹ، کروفر اور پروٹوکول سے متاثر ہوکر ایشیٔن ٹائیگر والا پاسپورٹ حاصل کرنے کے خواب میں خراٹے مارتے رہے۔ پھر وہ پچھتائے کہ وہ پاکستان میں پیدا کیوں نہیں ہوئے۔ وہ پاکستانی قوم کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے رہے جو ہر بحران ، سیلاب ، مہنگائی، دہشت گردی، بھتہ خوری، غنڈہ راج، پولیس مقابلوں اور دھماکوں کی حکمرانی میں وزیرِاعظم کو لندن، امریکہ چھٹی پر بھیج دیتی ہے۔ خود ان مصیبتوں کا مقابلہ ڈینگی مچھر جیسے حوصلے، عزم اور استقلال کے ساتھ کرتے ہیں۔
ایشیئن ٹائیگر کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک بھی عرق ریزی سے حل کیا۔ اس جمہوریت کو سمجھنے والے جانتے ہیں لندن اور امریکہ یاترا کا مسئلہ نمبر ایک کھانے کا ''مینو‘‘ تھا۔ وہاں احتیاط لازم ہے کہ حلال فوڈ کھایا جائے لہٰذااپنے باورچی قوم کے خرچ پر لے جانا قومی غیرت کا بڑا تقاضا ہے۔ اسی لیے ہمارے چاروں باورچی قومی غیرت بچانے کے لیے دن رات سری پائے پر ٹوکے اور پیزا یا کیک پر چھریاں چلا چلا کر مغرب کو پیغام دیتے رہے ۔ یہ ہوتا ہے کلچر اور یہ ہوتا ہے اپنی تہذیب کا تحفظ۔ دوسرے لیڈر برگر اور سٹریٹ فوڈکھاکر عالمی شرمندگی کا باعث بنے۔
اسلام آباد کے سفارتی ماہر شدید حیران ہیں کہ وزارتِ خارجہ نے مشکل وقت میں جب کوئی عالمی لیڈر ہمارے وزیرِ اعظم کے قریب سے بھی نہیں گزرا، پاکستان کی ہر دل عزیز عالمی شخصیات، ہزایکسی لینسی گلو بٹ، ہزہائی نیس پومی بٹ اور پرنس بِلّو بٹ کو وفد میں شامل نہ کر کے عالمی زیادتی کیوں کی۔ نواز شریف وہ واحد وزیرِ اعظم تھے جنہیں نیا عالمی اعزاز ملا۔ اقوامِ متحدہ نے مقررین کی فہرست میں پاکستانی وزیرِ اعظم کے نام سے پہلے ہز ہائی نیس نواز شریف لکھا۔اسے عالمی لیڈروں کی شرارت مت سمجھیں۔ 
ہمارے مقبول و مشغول صدر صاحب سے گزارش ہے کہ وہ چار عدد قومی باورچیوں کو تمغۂ حسنِ کارکردگی دیں اور انگریزی ڈاکٹروں کو نشانِ پاکستان۔ دونوں نے مل کر پاکستان کی عزت اور شان بڑھائی ۔ سرکاری وفد یہ کہتا ہوا واپس ہُوا مگرکیوں۔۔۔۔؟ 
گلابی ہونٹ گالی دے رہے ہیں
یہ عہدِ دلبری ہے اور میں ہوں
بُتِ کافر۔۔۔۔! پٹاخہ ہو گیا ہے
یہ کیسی پھلجھڑی ہے اور میں ہوں
ادب۔۔۔۔ افسانۂ طاقِ گزشتہ
غَضب کی خُود سری ہے، اور میں ہوں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں